کیا بریسٹ کے متعلق سنتے ہی بعض لوگ بے قابو ہو جاتے ہیں؟


بریسٹ کینسر انتہائی مہلک اور جان لیوا مرض ہے آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی خواتین لاعلمی و لاپرواہی کا شکار رہتی ہیں جب پتہ چلتا ہے تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اس کے متعلق آگاہی کا دن پوری دنیا میں منایا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ خواتین کو اس مہلک مرض سے بچایا جا سکے۔ مگر ایسی ذہنیت کا کیا کریں جو خواتین کے ہاتھ، پاؤں یا سر کے بالوں کو دیکھتے ہی بے قابو ہو جاتے ہیں اور ان کا عضو تناسل ”سپارکنگ“ کرنا شروع کر دیتا ہے اور ان کی پاک دامنی کو نجانے کتنے واٹ کے جھٹکے لگنا شروع ہو جاتے ہیں؟

کیسے کیسے نمونے اس دیس میں بستے ہیں جنہیں ہر جگہ عریانی و فحاشی دکھائی دینے لگتی ہے اور ہر وقت انہی چکروں میں پڑے رہتے ہیں کہ خود کو اعلی درجے کا ”پارسا یا متقی“ کیسے ثابت کریں اور خود کو اعلی ترین مذہبی ثابت کرنے کی تگ و دو میں بعض اوقات ایسی مضحکہ خیزیاں کر جاتے ہیں جس سے ان کی پست ذہنیت مزید نمایاں ہو جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں مولانا سید محمود شاہ نے ”بریسٹ کینسر“ آگاہی کی کالر ٹیون پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ

”اس پیغام کے الفاظ انتہائی نامناسب ہیں اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس میسج کو فوری معطل کیا جائے“

اب ایسے پارساؤں کا کیا کریں جو کالر ٹیون کو سنتے ہی آپے سے باہر ہو جاتے ہیں یا ان کے عضو تناسل میں اکڑاؤ آنا شروع ہو جاتا ہے؟

مولانا کو بالکل اعتراض نہ ہوتا اگر اس کالر ٹیون میسج میں مرد کے پارٹس آف باڈی کا تذکرہ کیا جاتا اور خواتین کے بریسٹ کی بجائے جنسی قوت بڑھانے والی ویاگرہ، اکڑاؤ کی ٹائمنگ بڑھانے والا طلا یا عضو تناسل کے ٹیڑھے پن کو رفع کرنے والی ادویات کا تذکرہ ہوتا۔ بریسٹ کینسر کتنا مہلک ہے اور سالانہ کتنی خواتین اس ناسور کی وجہ سے ہلاک ہو جاتی ہیں ہمیں اس سے کیا لینا دینا ہے، ہمیں تو فکر ہے اپنے کانچ جیسے ایمان کی جو ذرا سی ٹھیس لگنے یا خود فریبی والے تقوی کو بچاتے بچاتے کرچی ہونے لگتا ہے۔ ویسے اس بات کا تعین ہونا ابھی باقی ہے کہ خاتون کے جسم کا ذرا سا حصہ دکھنے سے اہل جبہ کا ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے تو پھر جو ہزاروں نوجوان مردانگی کے زعم میں عجیب و غریب قسم کا لباس پہن کر اپنے جسم کی نمائش کرواتے رہتے ہیں تو کیا خیال ہے خواتین کا ایمان خطرے میں نہیں پڑتا ہو گا؟

جب کسی خاتون کو دیکھتے ہی ٹھرکی اپنا عضو خاص کھجانے لگتے ہیں یا بہانے بہانے سے کھینچنے لگتے ہیں تو کیا خیال ہے عورت کا ایمان نہیں ڈگمگاتا ہو گا؟

فرق بس اتنا سا ہے کہ خاتون اظہار نہیں کر سکتی کیونکہ اخلاقی پیمانے کا بیرومیٹر مرد کے ہاتھ میں ہوتا ہے اسی لئے جو کچھ بھی ہوتا ہے مرد کو ہوتا ہے عورت کو نہیں۔

صاحب تقوی و پارساء تو صرف مردوں میں پائے جاتے ہیں عورتوں میں بھلا اس قسم کے پاکیزہ جذبے اور بلند نظری کہاں ہوتی ہے؟ اور انہیں اس قسم کے تکلفات جچتے بھی نہیں ہیں۔

یہ کیسی بیمار ذہنیت ہے جنہیں بکری کے تھنوں میں عریانی دکھائی دینے لگتی ہے یا موٹر سائیکل سوار کے پیچھے بیٹھ جانے سے سپارکنگ کا دھڑکا لگا رہتا ہے؟ یا معلوماتی کالر ٹیون کو سنتے ہی بدمست ہو جاتے ہیں؟ ان جاہلانہ وسوسوں یا اندیشوں کا کیا کریں جنہیں ٹرانسجینڈر بل منظور ہو جانے کے بعد یہ خوف ستانے لگے کہ کہیں مرد کی مرد سے شادیاں نا ہونے لگ پڑیں یا لوگ زبردستی تفریح کے طور پر جنس تبدیل کروانے کے چکروں میں نہ پڑ جائیں؟ جو لوگ آگاہی پیغام کو بھی شہوت سے نتھی کر دیں تو ذرا سوچیں ان کی ذہنی سطح کا معیار کیا ہو گا؟

یہ بالکل وہی ذہنیت ہے جو لوگوں کو مسائل بتانے کے نام پر اپنی ٹھرک پوری کرنے کے چکروں میں پڑے رہتے ہیں، بس کوئی بھی جنسی مسئلہ پوچھیں پھر ان کی ”لفاظیاں یا اشارے بازیاں“ دیکھیں، تقوی کی شاہراؤں سے گزار کر کے حوروں کی جنت میں داخل کرنے کا جو ٹیلنٹ ان کے پاس ہوتا ہے وہ کسی اور کے پاس کہاں؟ ایک لطیفہ حاضر خدمت ہے جو تقویٰ اور ٹھرک کا حسین ترین امتزاج ہے۔ کسی صاحب نے ایک مولوی سے مسئلہ دریافت کیا کہ

”دوران جماع فریقین کے منہ سے لایعنی اور کافرانہ آوازیں برآمد ہوتی ہیں ان آوازوں سے ایسا تاثر پیدا ہونے لگتا ہے کہ جیسے انجانے میں کافروں کی مشابہت ہو رہی ہو۔ اس قسم کی بے اختیاری کی حالت میں اس قسم کی آوازیں نکلنے سے کوئی حرج تو نہیں ہوتا؟ مولوی صاحب نے متانت و سنجیدگی کو پوری طرح ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا دیکھیں مسئلہ یہ ہے کہ کفار کی مشابہت سے ہر حال میں بچنا واجب ہے، مذکورہ بالا آوازیں نکالنے کے بجائے اپنی زبان میں کچھ مخصوص آوازیں نکال لیں تو یقیناً زیادہ افضل ہے“

اب کہنے کو یہ لطیفہ یا شغل ضرور ہو سکتا ہے مگر یہ روایتی فکر کی صحیح عکاسی کرتا ہے۔ مشاہدہ کے طور پر محض چھیڑ خانی کی غرض سے آپ کسی سے مسئلہ دریافت کر کے دیکھ لیں تصویر بالکل واضح ہو جائے گی۔ درجنوں ویڈیوز یوٹیوب پر دستیاب ہیں جن میں یہ پارسائی کے روپ میں ”حورستانیاں یا دل پشوریاں“ فرما رہے ہوتے ہیں۔ کفار کی مشابہت اختیار کرنے سے باز رہنے کا درس دینے والے معاشرے کے ملاوٹی رویوں پر بات کیوں نہیں کرتے؟

جانوروں اور خواتین کے جسمانی اعضا میں عریانی و فحاشی دیکھنے والوں کو اپنے کلچر میں عریانی دکھائی کیوں نہیں دیتی؟ جب دوسروں کو سدھارنے کے لیے نوبت یہاں تک پہنچ جائے کہ لبھانے کے لئے حور و غلمان اور خوف دلانے کے لیے موت کے منظر کا تذکرہ زور و شور سے کرنا پڑ جائے تو بڑی عجیب یا اچنبھے کی سی بات بن جاتی ہے۔ اگر ان باتوں سے کچھ فرق پڑنا ہوتا تو کب کا پڑ چکا ہوتا مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حقائق سے نظریں چرا کر یا محض بناوٹی پارسائی اختیار کرنے سے حقیقی مسائل تو حل نہیں ہوسکتے ممکن ہے ذاتی خیال آرائیوں سے خود کی تھوڑی بہت تشفی ہو جائے پھر بھی سوچنا تو پڑے گا نا کہ آخر کب تک؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments