مروجہ سیاست اور عوام!


ملک میں رائج مروجہ سیاست میں عوام کو صرف اس حد تک اختیار حاصل ہے کہ وہ انتخابات کے دن بیلٹ باکس کے ذریعے ووٹ ڈال کر اپنی رائے دہی کا اظہار کر سکے اس کے بعد مفاداتی سیاست کے کھیل کو اقتدار میں آنے والی سیاسی اشرافیہ منطقی انجام تک پہنچاتی ہے۔ عوام کی اس مروجہ سیاسی نظام میں براہ راست کوئی شیئرنگ نہیں ہے جس سے اخذ کرنا دشوار نہیں کہ عوام سیاسی شعور سے کس حد تک نابلد ہے۔ سیاسی شعور نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک میں جتنی بھی قومی سیاسی جماعتیں ہیں ان کے اندر کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں ہے جو اپنے کارکنان کی سیاسی شعور کی پختگی کے لئے کام کرتا ہو۔

ملک میں چند خاندان ایسے ہیں جو اپنے اقتدار کو آگے اپنی نسل میں منتقل کر رہے ہیں اور یہی عوام کی بدقسمتی ہے کہ اسے اب تک کوئی اہل اور قابل قیادت میسر نہیں آ سکی۔ ملک میں رائج سیاسی و جمہوری نظام کے لوازمات سے بے ثمر عوام مسائل کی دلدل میں پور پور ڈوب چکی ہے عام آدمی معاشی ناہمواریوں کے باعث مسائل کے بوجھ تلے دب کر زندہ درگور ہوتا جا رہا ہے۔ یہ کیسا سیاسی و جمہوری نظام ہے جو عام آدمی کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کی بجائے کمر شکن مسائل سے دوچار کر رہا ہے موجودہ حالات کا نوحہ سیاسی و جمہوری نظام پر سوالیہ نشان ہے۔

سات دہائیوں سے زائد مسافت طے کرنے والے پاکستان میں عوام کی حیثیت سیاستدانوں کی نظر میں ایک ووٹرز سے زیادہ کچھ نہیں ہے یہی وجہ ہے عام آدمی برسراقتدار آنے والے حکمرانوں سے کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ان کے طرز حکمرانی سے بیزار نظر آتا ہے۔ ملک میں جاگیردارانہ اور سرمایہ درانہ نظام نے اپنی جڑیں اس حد تک مضبوط کر لی ہیں جن کو کریدنے کے لئے ایک عرصہ درکار ہے مروجہ سیاسی و جمہوری نظام ایک بہت بڑے آپریشن کا متقاضی ہے چند خاندانوں کی سیاست پر اجارہ داری نے ملکی نظام کو گہنا کر رکھ دیا ہے۔

جب سے سیاست میں زر کا عنصر غالب آیا ہے سیاست ملک و ملت کی خدمت کی بجائے ایک منافع بخش کاروبار بن چکی ہے ملک کے سیاسی نظام کا جائزہ لے لیں یہ نظام قطعی طور پر نظریاتی اساس پر قائم نہیں ہے جس کے باعث عوام ایک صفحہ پر متحد نہیں ہو سکی سیاستدانوں نے اپنی مفاداتی سیاست کو مضبوط کرنے کے لئے عوام کو مختلف بیانیوں میں تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر آئین پاکستان میں یہ آرٹیکل موجود ہے کہ روٹی ’کپڑا‘ مکان ’تعلیم اور صحت کی سہولیات عام آدمی کو فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری میں شامل ہے لیکن 75 سال گزرنے کے باوجود یہ آرٹیکل آج بھی معطل ہے اور عام آدمی مسائل کے بھنور میں گھرا دربدر ہے۔

ملک میں رائج سیاسی نظام نسل نو کو سیاسی شعور دینے کی بجائے غلامانہ سوچ کو پروان چڑھاتے ہوئے آمرانہ رویوں کو فروغ دے رہا ہے موجودہ سیاسی نظام عوام کو فیصلہ سازی سے یکسر محروم رکھے ہوئے ہے یہی وجہ کہ ملک میں عوامی مفادات کے برعکس فیصلے کیے جاتے ہیں چند خاندان ملکی سیاست پر قابض ہیں جو عوام کو انسانی بنیادی حقوق سے محروم رکھ کر ان کا استحصال کر رہے ہیں۔ اس ملک میں ایسے سیاسی نظام کی ضرورت ہے جس کی نظریاتی اساس عوام کو طاقت کا سر چشمہ تسلیم کرتے ہوئے انسانی بنیادی حقوق عام آدمی کو بہم پہنچائے اگر موجودہ نظام میں عوام کی امنگوں کے مطابق اصلاحات نہ لائی گئی تو یہ نظام ہماری آنے والی نسل کو ذہنی غلامی کی زنجیر میں تو جکڑ سکتا ہے لیکن اسے جمہوری لوازمات سے محروم رکھتے ہوئے معاشرے کا باوقار شہری نہیں بنا سکتا۔

یہ نظام عام آدمی کو حقوق دینے سے عملی طور پر قاصر ہے صرف ملکی سیاسی نظام نے سیاسی اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کیا ہے جس کے باعث ملک میں سیاسی اقدار و روایات زوال پذیر ہیں۔ دولت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے باعث امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے انسانی بنیادی حقوق کی فراہمی نہ ہونے کے باعث معاشرہ انتشار کی جانب بڑھ رہا ہے اگر حالات ایسے ہی رہے تو تو جہاں سیاسی اقدار و روایات کا جنازہ نکل جائے گا وہیں ملکی طرز سیاست کے باعث جاری افراتفری و بے یقینی کی صورتحال بہت کچھ نگل جائے گی جہاں سوائے پچھتاوے کے ان عاقبت نا اندیش حکمرانوں کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔

حکمرانوں کی روایتی طرز سیاست نے ایلیٹ کلاس اور متوسط طبقہ کے درمیان امتیازی خلیج قائم کر دی ہے جس کے باعث عام آدمی کے گرد ہر گزرتے دن کے ساتھ مسائل کے انبار میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ یہ مکافات عمل کی جگہ ہے تاریخ پر نظر رکھنے کی اشد ضرورت ہے جنہوں نے اپنے منصب سے جڑی ذمہ داریوں سے مفر اختیار کیا تاریخ نے نوشتہ دیوار بنا دیا۔ مغربی جمہوریت کو دیکھ لیں ان ممالک میں عام فرد تک جمہوری ثمرات پہنچ رہے ہیں۔

دنیا کے جمہوری ممالک میں گڈ گورننس‘ اداروں میں اکاؤنٹبیلٹی اور شفافیت ہے ’کرپشن کے خاتمہ کے لئے سیاسی‘ انتخابی اور قانونی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں ’کرپٹ لوگوں کو قانون کے ذریعے ان کے منطقی انجام تک پہنچایا جاتا ہے‘ قانون سازی کے ذریعے اداروں کو خودمختار اور آزاد بنایا جاتا ہے ’ان میں احتساب کا خود کار نظام وضع کیا جاتا ہے‘ عدم مساوات کو ختم کر کے معاشرہ سے غربت ختم کی جاتی ہے ’ہر طبقہ کو برابر نمائندگی کا حق دیا جاتا ہے‘ عام آدمی کو روٹی ’کپڑا‘ مکان ’تعلیم اور صحت کی سہولیات سے آراستہ کیا جاتا ہے یہ وہ لوازمات ہیں جو جمہوریت کو مکمل کرتے ہیں۔

لیکن یہاں اس کے برعکس پاکستان میں سیاسی و جمہوری نظام کی پرتوں کو کھول لیں یہاں ووٹر کو عزت دینے کی بجائے اس کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے‘ روٹی ’کپڑا‘ مکان ’تعلیم اور صحت جیسی سہولیات ہمیں صرف نعروں‘ اعلانات اور وعدے وعیدوں میں ضرور ملیں گی لیکن عملی طور پر عام آدمی کے ہاتھ آج بھی خالی ہیں ’ادارے کرپشن میں پور پور ڈوب چکے ہیں‘ نظام عدل پر سر بازار انگلیاں اٹھ رہی ہیں ’ملکی طرز سیاست نے معاشرہ کو انتشار اور بے یقینی جیسی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے‘ حکمرانوں کی چالیس سالہ کارکردگی سے حالات اس نہج پر پہنچ کر خطرناک دستک دے رہے خدا نخواستہ ملک دیوالیہ ہونے جا رہا ہے۔

یہ ملک میں رائج کیسا سیاسی نظام ہے جو عام آدمی کو ڈلیور کرنے کی بجائے مسائل کے آسیب میں جکڑتا جا رہا ہے۔ یاد رکھیں یہ تاریخ کا سبق ہے جہاں کے حکمران عوام اور نسل نو کے مستقبل سے لا تعلق ہو جائیں اپنے گھر کو محفوظ بنا کر دوسرے کی فکر چھوڑ دیں ایسے معاشروں میں کبھی تبدیلی اور انقلاب نہیں آیا کرتے بلکہ ایسے معاشرے شام ’لبنان اور عراق بن جایا کرتے ہیں اپنے منصبی ذمہ داریوں سے مفر اختیار کرنے والوں کے لئے یہی تاریخ کا سبق ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments