برطانیہ کے وزیر اعظموں کے استعفے اور پاکستانی سیاستدان


تقریباً ربع صدی یہاں برطانیہ میں ہم نے گزار دی اور تقریباً اتنی ہی زندگی ہم نے پاکستان میں گزاری۔ اگر ہم شعوری اور عملی زندگی کو لیں تو سمجھئے زیادہ وقت برطانیہ میں ہی گزرا۔ نہ جانے کیوں پچھلے کچھ دنوں سے دماغ میں دونوں ملکوں کے سیاستدانوں کا ایک تقابلی جائزہ چل رہا ہے۔

ابھی حال ہی میں ہماری برطانوی وزیراعظم لزٹرس نے استعفیٰ دے کر سب سے مختصر قیام کی ایک تاریخ رقم کردی، یعنی صرف پچاس دن اپنے عہدے پر رہیں۔ استعفیٰ دینے کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی ”انہوں نے عوام کو جو ریلیف دینے کے وعدے کیے تھے وہ وہ پورے نہیں کر سکتی“ ۔

عجیب بے وقوف حساس سیاستدان ہیں، خاموشی سے چلی گئیں نہ کوئی واویلا کیا کہ ہائے ہم لٹ گئے، خزانہ سارا خالی تھا، کچھ نہیں چھوڑا اس میں، وغیرہ وغیرہ۔

اس سے پہلے بورس جانسن نے جذباتی ہو کر استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کرونا کے سخت ترین لاک ڈاؤن میں اس نے ایک پارٹی کر لی تھی جس کی ویڈیو میڈیا میں لیک ہو گئی تھی۔ ایسی بھی کیا جذباتیت کہ وزیراعظم کا عہدہ ہی چھوڑ دیا؟ تھوڑی سی جو پی لی، چوری تو نہیں کی، ڈاکا تو نہیں ڈالا

ہمارے سیاستدانوں کی تو پوری کی پوری فلم چل جاتی ہے مگر ہم تو مان کر ہی نہیں دیتے پورا کا پورا ملک کھا جاتے ہیں اور ڈکار بھی نہیں لیتے۔

اسی طرح تھریسا مے اور ڈیوڈ کیمرون نے بھی ذرا سی بات میں جذبات میں آ کر استعفے دے دیے تھے کہ یورپی یونین سے نکلنے کے معاملے پر ان کے اندازے غلط ثابت ہوئے تھے لو بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی۔

چند سال پہلے برطانیہ میں ایک ریل کا حادثہ ہو گیا تھا اس محکمے کے وزیر نے میڈیا پر آ کر اپنی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا۔ بھلا بتائیے اس میں اس بے چارے کا کیا قصور؟ ہمارے ملک میں آئے دن ٹرین کے حادثات ہوتے رہتے ہیں اور ہم اس کو اللہ کی طرف سے آئی ناگہانی کہہ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ بھئی مسلمان ہونے کے ناتے اس پر تو ہمارا ایمان ہے نا کہ جب جہاں جیسے آنی ہوگی تو آئے گی تو، بس پھر استعفے کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی۔

ایک گزشتہ الیکشن میں یہاں برطانیہ میں جرمی کاربن پارٹی کے لیڈر تھے۔ بہت کم عرصے میں ان کو بے پناہ مقبولیت ملی، ہم نے بھی بڑے جوش و خروش سے اس کو ووٹ ڈالا۔ لیبر تو ہار گئی مگر وہ پارٹی کا لیڈر تھا چونکہ وہ نسل، رنگ اور مذہب سے بالا تر ہو کر ہر ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا تھا اس لئے فلسطینیوں کے لیے بھی نرم جذبات رکھتا تھا۔ یہ بات برطانوی سیاست کے بادشاہ گروں کو پسند نہ آئی اور اس کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ لا کر پارٹی قیادت سے ہٹا دیا۔

اس نے تو دکھی ہو کر سیاست سے ہی استعفیٰ دے دیا یہ بھی کوئی دکھی ہونے کی بات تھی ہمارے ملک میں تو تا حیات پارٹی کا لیڈر رہتا ہے بلکہ مرنے کے بعد بھی اسی کے نام پر ووٹ لئے جاتے ہیں، ”جئے بھٹو“

بلکہ پارٹی قیادت تو نسلوں میں منتقل ہوجاتی ہے۔

عجیب حساس، جذباتی اور دکھی سیاستدان ہیں برطانیہ کے اپنی غلطی نہ بھی ہو تو بھی مان لیتے ہیں۔ ایک ہمارے سیاستدان ہیں کبھی کوئی غلطی کرتے ہی نہیں۔

رشی سونک برطانیہ کے نئے وزیراعظم ہیں وہ برطانیہ کی تاریخ میں پہلے ایشیائی ہیں جو اس عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔

سارے پاکستانی انٹرنیٹ پر یہ بتا بتا کر خوش ہو رہے ہیں کہ ان کے دادا دادی کا تعلق گوجرانوالہ سے تھا۔ پھر وہ کینیا چلے گئے تھے۔ پھر رشی سونک کے والد ساٹھ کی دہائی میں انگلستان آئے یہاں پر طب کی تعلیم حاصل کی اور انگلستان کے ہی ہو کر رہ گئے۔ رشی سونک یہی پر پیدا ہوئے اور پلے بڑھے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے یہاں کے نظام، ماحول میں رہ کر کیا وہ بھی اتنے ہی حساس اور جذباتی واقع ہوں گے جتنے یہاں کے لیڈر ہوتے ہیں یا ان کی رگوں میں دوڑتا ہوا ایشیائی خون ہمارے ملکوں کے لیڈروں کی طرح ہر بات پہ ”میں نہ مانوں“ کہنے پر مجبور کرے گا؟

اس کے لئے ”انتظار فرمائیے“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments