ارشد شریف کا ابدی سفر اور میٹھی گولیاں


وہ جو سچ بولتے رہنے کی قسم کھاتے ہیں
وہ عدالت میں گنہگار ہوا کرتے ہیں

ایمبولینس سڑکوں پر راستے ڈھونڈتے پھرتے چیخ رہی تھی۔ اندر نئی مملکت کا پہلا گورنر جنرل بے حال تھا۔ دم توڑ رہا تھا۔ اس کے نا چاہنے کے باوجود اسے زیارت سے کراچی واپس لایا گیا تھا۔ لیکن ائرپورٹ سے اس کی سرکاری رہائش گاہ تک پتہ نہیں ٹریفک اور انسانوں کا کون سا ہجوم نکل آیا تھا کہ ایمبولینس کو منزل تک پہنچنے کا راستہ ہی نہ مل سکا اور ملک کا سربراہ نہ بچ سکا۔

راولپنڈی میں پارٹی کا جلسہ تھا۔ اس وقت کے وزیراعظم خطاب کے لئے اسٹیج پر چڑھے۔ بات شروع ہی کی کہ مجمعے میں سے ایک نے اٹھ کر انھیں گولیوں سے بھون ڈالا۔ اور یوں وطن کے پہلے وزیراعظم بھی اپنی ابدی نیند جا سوئے۔

ملک میں عام انتخابات ہو رہے تھے۔ مادر ملت بھی کچھ خیر خواہوں کی خواہش اور مشورے پر صدارتی امیدوار تھیں۔ عوامی شہرت اور عزت حاصل ہونے کے باوجود وہ منتخب نہ ہو سکیں اور مقابل حریف ووٹوں کی بازی بشکریہ اداروں کی جانبدارانہ حمایت سے جیت گیا۔

ملک کی پہلی خاتون اور دو مرتبہ وزیراعظم رہنے والی رہنما عام انتخابات کی مہم کر رہی تھی۔ جلسے کے بعد اپنی ہی گاڑی کی سکائی روف سے سر باہر نکال کر لوگوں کو ہاتھ ہلاتے ہوئے لمحوں میں کسی کی گولیوں کا شکار ہو گئی۔ ساتھ بم بھی پھٹا۔ کئی اور کی ہڈیاں اور پرخچے بھی اڑے۔

یہ تو گن کے پچھتر سالہ ملکی زندگی کے چیدہ چیدہ واقعات ہیں جو اپنے وقت کی نامور، با اختیار اور قد آور شخصیات کے ساتھ بیتے۔ جن کے دستخطوں سے فیصلے لکھے جاتے تھے۔ حکم نامے جاری ہوتے تھے۔ حکومتی مشینری ان کے لفظوں کی محتاج تھی۔ ادارے ان کے تابع فرماں تھے۔ وہ خود شطرنج کے مہروں کی ہر بساط سے آگاہ تھے۔ لیکن پھر بھی کون سا پیادہ، کون سے وزیر کب غداروں کی صف میں شامل ہوئے، کچھ پتہ نہ چلا۔ بے خبری میں سازشوں کے ہتھے چڑھ گئے۔ اپنی جماعتوں کی کئی کئی سال کی حکومت کے دنوں میں بھی ان کے قاتل بے نام و نشان رہے۔ اور آپ کو کیا لگتا ہے ایسی ہلاکتیں ملی بھگت کے بغیر ہوتی ہیں؟ یاد رکھیں کوئی بادشاہ تب ہی منہ کے بل گرتا ہے، جب اس کے اپنے محل اور سلطنت دشمنی کی بو سے متعفن ہو جاتے ہیں۔

مزید ایسے حالات میں سچ پر پردے ڈالنے، عوام کے سیلاب پر بند باندھنے اور پروسس میں تاخیر کرنے کو ایسے ہر چھوٹے بڑے حادثے کے بعد ایک تحقیقاتی کمیشن بنا دیا جاتا ہے۔ جس نے آج تک کسی کیس کو منطقی انجام تک نہیں پہنچایا۔ ہاں اس بہانے مفت کے غیر ملکی دورے، زائد مراعات اور قومی خزانے کا خرچہ، ممبران کو ملتا رہتا ہے۔ ارشد شریف کے قتل کے ساتھ بھی اس سے مختلف کچھ نہیں ہونا۔

دراصل حکومت کو میٹھی گولیاں کھلانے کی پرانی بیماری ہے۔ جنتا میٹھی گولیاں کھانے کی عادی ہو چکی ہے اور اپوزیشن پارٹیوں، موقع پرست لیڈرز، صحافی، اینکرز، اور چینلز کو ہمدردی کی میٹھی گولی کو مزید چینی کا تڑکا لگا کے جذباتی لوگوں کو کھلا کے اپنے حق کے لئے استعمال کرنا آتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو احتجاج، آواز، دھرنے تب بھی ہوتے جب ناموس رسالت کے فتوی لگا کے بے چارے نہتے، مسلم، غیر مسلم، مجبور، بے کس معصوموں کو زندہ درگور کر دیا جاتا ہے۔

اور کوئی پوچھتا تک نہیں۔ آفتیں آتی ہیں۔ عوام اپنا ہی حق بھیک کی طرح مانگتے ہیں۔ گرمی میں حدت سے تڑپتے ہیں۔ سردی میں برودت سے ٹھٹھرتے ہیں۔ اور نہ قومی خزانے سے پیسہ نکلتا ہے۔ نہ عوامی لیڈروں کے کان پر جوں تک رینگتی ہے۔ محلوں میں رہنے والے ان کی ہمدردی کے لئے زبان سے زیادہ کسی چیز کا استعمال کرنے کے روادار نہیں۔ سڑکوں پر، کھلم کھلا، دیواروں کے پیچھے کم سن بچیاں، لڑکیاں اور خواتین تشدد، زیادتی کا شکار ہو کر روز اپنی سانسیں کھینچتی ہیں۔ جوان چرسی بنتے ہیں۔ مرد صبح سے شام تک کولہو کا بیل بننے کے باوجود بنیادی انسانی کو ترستے ہیں۔

ارشد شریف تو خوش قسمت ہے کہ اس کے قتل پر آواز اٹھانے والے، اس کے جنازے کو کندھا دینے والے، اسے قبر میں عقیدت اور آنسوؤں سے اتارنے والے، اس کی جلاوطنی کو محسوس کرنے والے موجود ہیں۔ ورنہ بے عدل معاشروں میں ایسی خوش نصیبی کو بھی بہت سے حق گو مظلوم ترستے ہیں۔ جس کا علاج برسوں کی مٹھاس خوری کو ترک کر کے پوری قوم کے منہ کو کڑوے، تلخ ذائقوں سے متعارف کرنے میں پوشیدہ ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments