اقتدار کی جنگ اور عوامی مسائل


عمران خان نے لاہور سے اسلام آباد کے لئے لانگ مارچ شروع کر کے اپنا آخری ترپ کا پتہ کھیل دیا ہے۔ پہلے دن لبرٹی چوک سے شروع ہونے والے لانگ مارچ میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی مگر یہ لانگ مارچ پہلے دن لاہور میں ہی پھرتا رہا۔ دوسرے دن پھر اس مارچ نے تھوڑا سا فاصلہ طے کیا اور تیسرے دن تک گوجرانوالہ بھی نہیں پہنچ سکا۔ کے پی، ملتان ڈویژن، فیصل آباد اور سرگودھا ڈویژن کے قافلے ابھی تک محو انتظار ہیں۔ اس طرح کا تسلسل سے عاری لانگ مارچ کیا حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر پائے گا۔

کیا اس سے حکومت کو موقع نہیں فراہم ہو رہا کہ وہ اس کا توڑ کرنے کے لئے مزید اقدامات اٹھا لے۔ پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کا فیصلہ ہو چکا ہے جس میں اس لانگ مارچ کے خلاف تمام حکومتی جماعتیں یک زبان ہو کر بولیں گی اور اس کو جمہوریت کے خلاف ایک سازش کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ اور دن رات ٹی وی سکرینوں پر یہ جمہوریت کو ہر حال میں بچانے والی تقریریں نشر ہوں گی۔ پاپولر صحافی ارشد شریف کی المناک موت کے فوری بعد شروع ہونے والا مارچ کیا پرامن طور پر اسلام آباد میں داخل ہو پائے گا؟

پی ڈی ایم کی پہلی کامیابی اسٹیبلشمنٹ کا کھل کر پی ٹی آئی کی اس قسم کی سیاست کو رد کرنا ہے جس میں ارشد شریف کی موت کو سازش قرار دے کر ادارے کے اوپر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے اس طرح کھل کر فرنٹ فٹ پر آ جانے سے رانا ثنا اللہ کے سیکورٹی ایجنسیوں کو استعمال کر کے لانگ مارچ کو ناکام بنانے کے پلان کو بھی تقویت پہنچ سکتی ہے وہ اس سے پہلے انہی طریقوں سے پچیس جولائی کا پہلا لانگ مارچ ناکام بنا چکے ہیں۔

عمران خان کیا کچھ انوکھا کرنے جا رہے ہیں جس سے پی ڈی ایم کے ساتھ ساتھ طاقتور اسٹیبلشمنٹ بھی گھٹنے ٹیک دے گی اور ان کا فوری انتخابات کا مطالبہ تسلیم کر لیا جائے گا فی الحال تو یہ بعید القیاس نظر آ رہا ہے۔ ادھر الیکشن کمیشن کے ان کو نا اہل کرنے کے فیصلہ کا ان کو کوئی خاطر خواہ نقصان ہوتا نظر نہیں آ رہا اور ان کو اس سے صرف میانوالی کی سیٹ سے نا اہل کیا گیا ہے اور وہ کرم میں ہونے والے الیکشن میں بھرپور طریقے سے کامیاب ہونے جا رہے ہیں۔

کیا عمران خان اپنی پاپولیرٹی کے گھوڑے پر سوار ہو کر اسلام آباد فتح کر پائیں گے یا لانگ مارچ کو وفاق پر چڑھائی قرار دے کر حکومت ان کو پنجاب کے اقتدار سے کسی طریقے سے بے دخل کر پائے گی۔ ابھی تو چوہدری پرویز الہی ان کے ساتھ چٹان کی طرح ڈٹے کھڑے ہیں۔ مگر اسٹیبلشمنٹ کی پوری کوشش ہو گی کہ چوہدریوں کو ان سے علیحدہ کر کے ان کی پارٹی کو پنجاب کی حکومت سے محروم کر دیا جائے۔

پی ڈی ایم اور تحریک انصاف کی اقتدار حاصل کرنے اور برقرار رکھنے کی اس جنگ میں غریب عوام پس کر رہ گئی ہے مہنگائی کا طوفان تھمنے کو نہیں آ رہا۔ بجلی کے بلوں کو ادا کرنا عوام کے بس میں نظر نہیں آتا۔ اسی طرح سیلاب کے بعد متاثرین کی آبادکاری کا مسئلہ جوں کا توں ہے اور اس سیاسی لڑائی کی وجہ سے سیلاب زدگان کی خبر گیری کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ وزیراعظم جیسے منصب پر براجمان جناب شہباز شریف صاحب کسانوں کے دھرنوں کو ختم کرنے کے لئے بنفس نفیس ان سے کسان پیکج کا وعدہ کرتے ہیں اس بات کو ایک ماہ سے زیادہ ہونے کو آیا ہے مگر اس کسان پیکج کا اعلان نہیں ہو پایا ہے۔

کسان کی زراعت مہنگی بجلی، مہنگی کھادیں، ناموافق موسمی حالات کے باعث اس وقت نقصان سے دوچار ہے اور اندیشہ ہے کسان بددل ہو کر کاشتکاری سے ہی نہ دستبردار ہو جائیں۔ پہلے ہی ملک کا قیمتی زرمبادلہ گندم اور کپاس کی درآمد پر لگ رہا ہے اور اب دن بدن حالات میں بگاڑ کا ہی اندیشہ ہے۔ بلوچستان اور سندھ کے کسان جن کی خریف کی فصل سیلاب سے تباہ ہو گئی تھی اب ان کو نئی فصل کاشت کرنے کے لئے بیج ہی دستیاب نہیں ہے۔ جس سے ان کے خاندان غربت کی اندھی کھائی میں گرتے جا رہے ہیں۔

مگر ایلیٹ طبقہ کو غریب کسان کی مشکلات کا کوئی اندازہ نہیں۔ اقتدار کی جنگ برپا کرنے والوں کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اگر غریب عوام کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے تو اصل احتجاج تب ہو گا۔ جب لوگوں کے پاس بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لئے پیسہ نہیں ہو گا جب بچوں کے علاج اور تعلیم کے لئے غریب کے پاس پھوٹی کوڑی نہیں رہے گی تو اصل لانگ مارچ تب ہو گا۔ اس وقت تمام جماعتیں کہیں نہ کہیں اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہیں مگر کوئی ان عوام کے حقیقی مسائل کو حل کرنے کے لئے آگے نہیں بڑھ رہا۔

ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے کوئی ملک یہاں پر سرمایہ کاری کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اداروں میں کرپشن پھل پھول رہی ہے۔ دن دیہاڑے ڈاکو لوٹ مار کرتے ہیں۔ عدالتیں جہاں سیاسی کیسز کو سننے میں مشغول ہیں وہاں نچلی سطح پر انصاف کی فراہمی غریب کے لئے دیوانے کا ایک خواب بن چکا ہے۔ عوام تمام موجودہ سیاسی لیڈروں کے ادوار دیکھ چکے ہیں ان کو کہیں سے بھی ریلیف نہیں مل پایا۔ اب اگر لانگ مارچ کامیاب ہو یا ناکام ہو حکمران یہی ہوں یا بدل جائیں ان کو اپنی تقدیر بدلنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ عوام کو حقیقی آزادی دلوانی ہے تو اس کے معاشی حالات بہتر کریں تاکہ اس کو کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑیں اس کی جان و مال محفوظ ہو اس کے بچے اچھی تعلیم حاصل کر سکیں اور وہ ان کا اچھا علاج کروا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments