کاش ارشد شریف ”جہادی“ نہ بنتا


رؤف کلاسرا یونیورسٹی فیلو ہے، ملتان میں صحافت ایک ساتھ کی، بہت یارانہ ہے، 1998 ءمیں رؤف اسلام آباد تبادلہ کر اگیا اور میں لاہور نوائے وقت منتقل ہو گیا، اسلام آباد میں بہت قریبی عزیزواقارب رہائش پذیر ہیں اس لئے سال میں ایک، دو بار اسلام آباد کا چکر لگ ہی جاتا ہے، اب چھوٹا بھائی آرکیٹیکٹ عاصم کاظمی بھی اسلام آباد میں سیٹل ہے

اسلام آباد میں کزن شاکر محمود ہے جس سے بہت دل لگی ہے، شاکر کھانے پینے اور گھومنے پھرنے کا بہت شوقین ہے، ایک صحافی کو اور کیا چاہیے ہوتا ہے، اسلام آباد رؤف کلاسرا سے ضرور ہوتی ہے، اللہ کا ہمیشہ شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے رؤف کلاسرا، سجاد جہانیہ، جمشید رضوانی، ملک ریاض، علی شیخ، طاہر ندیم، فیاض ملک اور طاہر کلاسرا ملتان کے دوست تحفے دیے ہیں، ان دوستوں نے حقیقی معنوں میں زندگی میں رنگ بھرے ہیں، لاہور میں 24 برس گزارنے کے بعد بھی ایک بھی دوست نہ بن سکا، جن ایک دو سے دوستی ہوئی وہ صرف گہرا تعلق ہی ثابت ہوئے، جیسے جیسے وہ لوگ ترقی کرتے گئے ان کے رویے ہی بدل گئے

یہی مسئلہ رؤف کلاسرا کے ساتھ بھی ہے جس کا وہ اکثر اپنے کالموں میں اظہار بھی کرتا ہے، ہم دونوں برج لیو سے ہیں، شاید اس لئے ہم دونوں کے ساتھ ایک سی ہی صورتحال رہی، رؤف اسلام آباد منتقل ہوا تو اس کا پہلا دوست ارشد شریف بنا، بیس برس پہلے کی بات ہے کہ رؤف کو ملنے اس کے آفس گئے تو اس نے کہا کہ تمھارا ہی انتظار کر رہا تھا اصل میں ارشد شریف کے پاس جانا ہے وہ میرا انتظار کر رہا ہے ضروری کام ہے، وہاں گپ شپ کرتے ہیں اور پھر کھانا کھانے جائیں گے، پہلی بار ارشد شریف سے ملاقات ہوئی، کچھ تکلفانہ گفتگو ہوئی، پھر رؤف اپنی آئی پر آ گیا اور میرے یونیورسٹی کے ”کرتوت“ سنا کر جلد ہی ارشد شریف سے بے تکلف کر دیا، اس کے بعد جب بھی اسلام آباد گیا رؤف کے ساتھ ارشد شریف سے ملاقات ہوتی، ارشد بہت کم بولتا تھا، ”میسنا“ بس مسکراتا رہتا تھا، پھر رؤف کلاسرا اور ارشد شریف نے ٹی وی چینلز پر ٹاک شو  شروع کر دیے، ارشد شریف کے ٹاک شو دیکھ کر یقین نہیں آتا تھا کہ جو آدمی اتنا کم گو ہو وہ اتنا زیادہ بول سکتا ہے

رؤف کلاسرا نے دنیا میڈیا گروپ جوائن کر لیا بعد میں ارشد شریف دنیا اسلام آباد کے بیورو چیف بن گئے، 2012 ءمیں دنیا گروپ نے روزنامہ شروع کیا تو میں نے بھی روزنامہ دنیا جوائن کر لیا، چند ماہ بعد ہی ارشد شریف کو دنیا نیوز کا ڈائریکٹر نیوز بنا کر لاہور بھیج دیا گیا، میں ملنے ارشد کے آفس گیا اور ساتھ ہی اپنے جذبات کا برملا اظہار کر دیا کہ ارشد صاحب یہ کیا بیوقوفی کی ہے، کہاں اسلام آباد کا بیورو چیف اور کہاں چھوٹے سے کمرے میں قید ڈائریکٹر نیوز، میڈیا میں تو پردے کے پیچھے کام کرنے والوں کی حالت میں دلالوں والی ہے، جو مالک، گروپ ایڈیٹر، ایڈیٹر یا نیوز ایڈیٹر نے کہہ دیا خبر کو اسی طرف موڑ دیا، اب تو حد یہ ہے کہ سپریم کورٹ کو جن افراد کو مجرم قرار دیتی ہے، مالکان ان کے نام خبر سے ہی ختم کرا دیتے ہیں، ارشد نے کہا بات تو ٹھیک ہے، چلیں اس سیٹ کا بھی مزہ لے کر دیکھتے ہیں، پھر روزانہ ملاقات ہوتی کیونکہ دفتر کے اندر سگریٹ پینے پر پابندی تھی اور ہم صحافیوں کا سگریٹ اور چائے کے بغیر گزارہ نہیں

اکثر گراؤنڈ فلور پر کھلی جگہ پر سگریٹ پیتے ہوئے ارشد سے ملاقات ہوتی تو دنیا گروپ کی مینجمنٹ کی سیاہ کاریوں پر بات ہوتی، میں نے ارشد سے کہا جس ادارے سے آیا وہاں گیارہ سال گزارے ہیں مگر یہاں تو تین ماہ ہی دل بھر گیا اور اوپر سے آپ لاہور آ گئے ہیں قید خانے میں، ایک دن میں نے کہا کہ یار ارشد ”دنیا میں آتے گئے آں پر لگدا اے پیا پھیرا ای اے“ ، پھر سب سے پہلے ارشد شریف نے دنیا گروپ چھوڑا پھر راقم نے اور پھر رؤف بھی چھوڑ گیا

ارشد شریف نے اے آر وائی چینل جوائن کیا جہاں وہ بہت جارحانہ انداز میں پروگرام کرتا تھا، ہم صحافیوں کو بخوبی علم ہوتا ہے کہ کہاں کہاں ہمارے پر جلتے ہیں، ایک بار رؤف سے کہا کہ ارشد بہت ایگرسیو پروگرام کر رہا ہے اس کو سمجھاؤ، رؤف نے کہا کہ کئی بار کہا ہے مگر کہاں سنتا ہے، میں ارشد شریف کے بارے میں دوستوں میں عباس اطہر المعروف شاہ جی والا لفظ کہا کرتا تھا کہ ”جہادی“ بن گیا ہے

عباس اطہر جیسے عظیم صحافی کے ساتھ کام کرنے کا طویل موقع ملا، ان سے بہت کچھ سیکھا، روزنامہ ایکسپریس میں 2002 سے لے کر 2009 تک ملتان اور رحیم یارخان سٹیشن کا انچارج رہا، 2007 ءمیں بھی پنجاب میں پرویزالہی کی حکومت تھی، ان کی مخدوم احمد محمود سے ان بن گئی، احمد محمود پیر پگاڑا کی فنکشنل لیگ کے پنجاب کے صدر بن گئے، ان کے رحیم یار خان آمد پر پرتپاک استقبال کی تیاریاں کی جا رہی تھیں کہ پنجاب حکومت نے اس استقبال کو روکنے کا فیصلہ کر لیا، روزنامہ ایکسپریس کے ایڈیٹر عارف معین بلے بیمار تھے اور کراچی میں آغا خان ہسپتال داخل تھے

شاہ جی نے مجھے حکم دیا کہ قائم مقام ایڈیٹر کے طور پر رحیم یار خان چلے جاؤ اور ایڈیٹر کے آنے تک فرائض سرانجام دو ، ایک روز بعد ہی رحیم یار خان میں صورتحال کشیدہ ہو گئی، شاہ جی نے بلایا کب جا رہے ہو، میں نے کہا صبح بارہ بجے فلائیٹ ہے، انہوں نے کہا کان کھول کر سن لو، شہر کے حالات خراب ہیں، صحافی بن کر رپورٹنگ اور سبنگ کرنا، جہادی نہ بننا۔ میں نے کہا میری اطلاع کے مطابق شہر میں ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں اور مخدوم گروپ کا کونسلر فخر اکبر کانجو قتل کر دیا گیا ہے جس سے جتھے شہر میں جگہ جگہ آگ لگا رہے ہیں، یہ تو لیڈ بنے گی

شاہ جی نے جواب دیا میں نے سمجھایا تھا کہ جہادی نہیں بننا، حالات چاہے خراب ہیں مگر ہم نے جلتی پر تیل نہیں ڈالنا، پنجاب اور مرکز میں ق لیگ کی حکومت ہے، ایک شہر کی لیڈ لگا کر کیوں ملک بھر میں اخبار کے اشتہارات بند کروانا ہیں۔ شاہ جی نے کہا کہ تم نہیں سمجھتے یہ بہت اوپر کی گیمیں ہیں، پیچھے کوئی اور ہوتا ہے، سامنے کوئی اور ہوتا ہے، استعمال کوئی اور ہوتا ہے اور فائدہ کوئی اور اٹھاتا ہے، اس لئے واقعہ کی درست رپورٹنگ ضرور کرو، قارئین کو درست خبر دو کہ ہوا کیا ہے، مرچ مصالحہ نہیں لگانا (مرچ مصالحہ کا مطلب تھا کہ باکس نہیں بنانا، سائیڈ سٹوریز نہیں دینی، زیادہ تصاویر لگا کر لوگوں کو مزید اشتعال نہیں دلانا)

شاہ جی کہ ہدایت پر عمل کیا چند دنوں بعد حالات ٹھیک ہو گئے، میرے رحیم یار خان کے دوستوں کے فون آئے کہ آپ کے اخبار نے بہت مثبت کردار ادا کیا ہے جس سے حالات زیادہ خراب نہیں ہوئے، اس کے بعد شاہ جی ہدایت پر آج تک عمل کر رہا ہوں۔ کہ جہادی نہیں بننا

ارشد شریف کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ جہادی بن گیا تھا، سیاستدانوں کے دلفریب اور سبز باغ دکھانے والوں نعروں سے متاثر ہو گیا تھا، ان سیاستدانوں نے اپنے نعروں سے نئے ارشد شریف بنا لینے ہیں، نئے ارشد شریف بیوقوف بنیں گے، دکھ تو ہمارا ہے، ہمارا پیارا دوست ہم سے چھین لیا گیا، اب کمیشن بن رہے ہیں، تحقیقاتی ٹیمیں بن رہی ہیں، دورے ہو رہے ہیں، ٹی اے، ڈی اے بنیں گے، ملکوں ملکوں دورے ہوں گے، قاتلوں کے بارے میں نئی نئی کہانیاں گھڑی جائیں گی مگر قاتل پھر بھی نہیں ملیں گے، ارشد شریف کے بچے یتیم ہو گئے، اس کے بچوں کو باپ کی شفقت اب کبھی نہیں ملے گی نہ ہی ہم کو سب کو اپنا پیارا دوست۔ الوداع ارشد شریف


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments