صدف نعیم کے ساتھ پیش آنے والا حادثہ


شور شرابا ہوا، خوب کیچڑ اچھالا گیا، کچھ پیسے بھی دیے گئے۔ بس یہی تھا ایک انسانی جان کا عوض، روتے بلکتے ہوئے دو بچے اور بوڑھے ماں باپ جنہیں یہ آس تھی کہ دن رات محنت کرنے کے باوجود معاوضہ حاصل نہ کر پانے والی ہماری ماں اور بیٹی ابھی جلسے کی کوریج کر کے واپس آ جائے گی کی امیدیں دم توڑ گئیں۔ چند لاکھ روپے ان کی بیٹی اور بچوں کی ماں کا نعم البدل تو نہیں ہوسکتے۔ یہ حادثہ ہی تھا، بالکل حادثہ تھا، یہ بھی درست ہے کہ جس بشر کی جہاں موت آنی ہے وہ وہیں آئے گی۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ موت ہمیں ہمارے مقررہ مقام تک کھینچ کر لے جاتی ہے لیکن ایسے حادثے سانحے ہوا کرتے ہیں، ایسے سانحوں کے نتیجے میں کچھ ایسی تلخ حقیقتیں سامنے آتی ہیں انسانیت منہ چھپانے پر مجبور ہوجاتی ہے۔

صدف نعیم چینل فائیو سے وابستہ تھیں، اس چینل نے اپنی لیڈی رپورٹر کی موت کو خوب کیش کرایا لیکن کیش کی صورت میں اپنی شہید کارکن کو کیا دیا، اس کی تحقیق کی جائے تو یقیناً شرمناک حقیقت سامنے آئے گی کیوں کہ اداروں کے لئے ان کے ایسے جانثار کارکن جو چینل کی ریٹنگ کے لئے اپنی ریٹنگ گرا لیتے ہیں کوئی معنی نہیں رکھتے۔ بظاہر جدید طرز کے ملبوسات پہننے والی یہ صحافی کن مالی مسائل کا شکار تھی اس بات کا اندازہ اس کے گھر والوں کے حال حلیے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے اور یہ بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسے اپنے ظاہر کو زمانے کے مطابق چلانے کے لئے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہوں گے۔

چند دن قبل ہم نے ارشد شریف کو سپرد خاک ہوتے ہوئے دیکھا، انہوں نے اپنی صحافیانہ ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے اپنی جاں جان آفرین کے سپرد کردی، پورے پاکستان نے یہ نظارہ دیکھا اور ہزاروں لوگ ان کے غم میں شریک ہوئے، حکام بالا مجبور کر منظر عام پر آئے، جھوٹ سچ بولے گئے اور شرمناک حقیقت یہ ہے کہ ان کی موت کو بھی کیش کرانے کی کوشش کی گئی۔ معاملہ کیا ہوا، یہ حقیقت جلد ہی سامنے آ جائے گی لیکن کچھ دیگر صحافیوں کے بیرونی ملک چلے جانے کا معاملہ سمجھ سے بالاتر ہے، اگر وہ ملک میں غیر محفوظ ہیں تو پھر بیرونی ملک جاکر بھی کون سا کون محفوظ رہ گیا۔

گزشتہ چند سالوں سے پاکستان میں صحافیوں کی جو صورتحال ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، کم از کم ہم میڈیا میں کام کرنے والوں سے کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں۔ اس دوران جید صحافیوں کو فکرمعاش میں گھلتے اور مرتے دیکھا گیا ہے۔ بذات خود میں ایسے کئی صحافیوں سے واقف ہوں جو اپنے شعبے میں اثر رو رسوخ اور مشاقیت کے باوجود کئی سالوں سے بے روزگار ہیں۔ دال چاول کے ٹھیلے لگاتے، رکشے چلاتے، پھل بیچتے، دکانوں پر بیٹھتے ہوئے صحافی بھی ہم نے دیکھے ہیں۔

کچھ شعبہ ہائے زندگی ایسے ہیں جن میں تعلیم سے زیادہ تجربہ اور نام اہمیت کا حامل ہوتا ہے، شعبہ صحافت کا شمار بھی ان ہی شعبوں میں کیا جاتا ہے لیکن اب صحافی کی تعریف بھی بدل گئی ہے اور صحافت کی بھی۔ آج صحافی وہ ہے جو ادارے کی پالیسی پر عمل درآمد کرسکے بصورت دیگر وہ جتنا بڑا نام بھی ہو اسے نوکری سے برطرف کر دیا جاتا ہے، ایک نوٹس کسی کی ساری عمر کی ریاضت کا ثمر ہوتا ہے جس کی بنا پر اسے دربدر کے دھکے کھانے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے وہ تو بھلا ہو سوشل میڈیا کا جہاں بیٹھ کر اپنی بات کرنا اور پیسے کمانا اب کسی کی چاکری کرنے سے زیادہ فائدہ مند ہے۔

نظر دوڑائیے تو اردگرد ایسے کئی لوگ نظر آئیں گے جنہیں ادارے سے باہر آنے کے بعد لوگوں نے جاننا شروع کیا، ان کی تقلید کی اور ان کی زندگی آسان بنانے میں معاونت کی۔ ہمارے ہاں اس وقت کچھ ہی ایسے ادارے ہیں جو کارکنوں اور ان کے کام کی توقیر جانتے ہیں اور ان کی قدر کرتے ہیں بصورت دیگر نوے فیصد اداروں کے معاملات چینل فائیو جیسے ہی ہیں تو ایسے تمام لوگ جو کئی کئی ماہ سے مشاہرے کے بغیر کام کرنے پر مجبور ہیں، کے لئے ایک مشورہ ہے کہ وہ اجتماعی یا انفرادی طور پر سوشل میڈیا سے وابستہ ہوجائیں، بلاگ بنائیں یا وی لاگ اپنی مرضی سے، اپنے وقت اور پالیسی کے مطابق کام کریں جلد یا بدیر اس کے بہتر نتائج آنے شروع ہوجائیں گے۔ ضروری نہیں کہ آپ جس پٹری پر چل رہے ہیں وہ ہی آپ کو منزل کی جانب لے جائے، راستہ بدلیں ہو سکتا ہے کہ ایک بہتر مستقبل آپ کی راہ دیکھ رہا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments