ثریا شہاب نے میرا انٹرویو لینے کے بارے میں کیوں سوچا؟


““

” میں آپ کا انٹرویو لینا چاہتی ہوں۔“

نپے تلے ریڈیائی لہجے میں ادا کیے گئے اس سادہ سے جملے نے جہاں مجھ پر ماضی کے کئی در وا کر دیے وہاں اعزاز آئندہ کی نوید بھی سنا دی۔

میں نے سامنے دھرے سکرپٹ پر سے نگاہ اٹھا کر میز کے دوسری جانب کھڑی ثریا شہاب صاحبہ کی جانب دیکھا جو سرخ سویٹر اور سفید پتلون میں ملبوس اپنے نفاست سے تراشیدہ بالوں کو دائیں ہاتھ سے کان کے پیچھے ٹکا رہی تھیں۔ نوے کی دہائی کے اوائل کا ذکر ہے۔ پاکستان ٹیل وژن اور بی بی سی کی ممتاز نیوز کاسٹر حال ہی میں اپنے صحافی جرمن شوہر کے ساتھ جرمنی منتقل ہوئی تھیں اور آتے ہی شہر کولون میں واقع ریڈیو ڈوئچے ویلے، دی وائس آف جرمنی کے دفتر ہم اردو سروس والوں سے ملنے چلی آئی تھیں۔ ہمارے صدر شعبہ سید اعجاز حسین جنھیں ہم سب شاہ صاحب کہتے تھے بہت وضع دار اور سلجھے ہوئے انسان تھے اور انہوں نے ہی اس نامور مہمان کا ہم سب سے تعارف کروایا تھا۔

پھر ہم نے مل کر ریڈیو سے کتنے ہی پروگرام کیے اور یوں اس دل کش صدا سے ہم آواز ہونے کا اعزاز پایا جسے لڑکپن سے سنتے آرہے تھے۔

میں ان دنوں اس بین الاقوامی نشریاتی ادارے سے بطور ایڈیٹر، پروڈیوسر منسلک تھا۔ میرے ساتھ پہلی ریکارڈنگ کے دوران سٹوڈیو میں داخل ہوتے ہی کہنے لگیں کہ آپ لوگ ٹیکنالوجی میں بی بی سی سے بہت آگے ہیں۔

”آپ نے پھر سے انگریزوں اور جرمنوں کو آمنے سامنے کر دیا ہے۔ ہم کسی اور عالمی جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔“ میں نے شرارت سے کہا تھا۔ ان کی کھنکتی ہنسی یقیناً شیشے سے پار پہنچ گئی ہوگی کیونکہ شیشے سے پار نگاہ گئی تو جرمن نژاد سٹاف کے ساتھ ریکارڈنگ کی تیاری کرتی شہناز حسین بھی مسکرا رہی تھیں۔

ریکارڈنگ کے بعد ہم نے مل کر کیفے ٹیریا میں لنچ کیا اور پھر ریستوران سے کافی پی۔ اور پھر ثریا شہر کے مرکزی ریلوے سٹیشن کی طرف روانہ ہو گئیں۔ ان کا بیگ ان کے بائیں کاندھے پر جھول رہا تھا اور بال نرمی سے ہوا میں اچھل رہے تھے۔ دوپہر کے کھانے اور کافی کا یہ سلسلہ پھر چلتا ہی چلا گیا جس کے دوران ہم سب ہم۔ کار ان سے باتیں بھی کرتے اور قہقہے بھی لگاتے۔ صحافتی باتیں بھی ہوتیں اور ادبی بھی۔ زندگی کے سفر کی داستانیں بھی بیاں ہوتیں اور احساسات کے موسموں کی کہانیاں بھی۔ اور پھر پہلی ہی فرصت میں انہوں نے ’دوستی کی لہریں‘ کے عنوان سے ہماری اردو نشریات کی تاریخ اور عملے کے تعارف پر مشتمل ایک تفصیلی مضمون جنگ لندن کے لیے لکھا جو ہم سب کے لیے ایک خاص تحفہ تھا۔ شائستگی اور رکھ رکھاؤ ان کی شخصیت کا خاصا تھے۔

آج اچانک انہیں یوں اپنے میز کے سامنے گفتگو کی خواہش یا دعوت کے ساتھ کھڑے دیکھ کر مجھے قدرے حیرت ہوئی۔ ابھی ایک ہی شعری مجموعہ تو شائع ہوا تھا ”ابھی اک خواب رہتا ہے“ جس میں زمانہ طالب علمی اور نام نہاد جوانی کی نظمیں غزلیں شامل تھیں۔

”آپ مجھے انٹرویو کرنا چاہتی ہیں؟“ میں نے ان کی بات کو بے ساختہ سوال میں ڈھال کر پیش کر دیا تھا۔

” جی، یہی تو ابھی کہا میں نے، اردو میں اور میری اردو بہت صاف ہے یہ میں جانتی ہوں۔ ۔ ۔ تو؟“ انہوں نے میری ہڑبڑاہٹ سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کہا تھا۔

” میرا مطلب ہے، میں نے تو ابھی کوئی ایسا قابل ذکر کام کیا نہیں جس کے بارے میں سوال جواب ہو سکیں۔“ میں نے الفاظ جوڑے تھے۔

” سوالات کی تو آپ فکر نہ کریں وہ میرے پاس ہیں۔ آپ بس جواب دیتے جائیے گا۔ تو چلیں نیچے چلتے ہیں کیفے ٹیریا میں بات چیت کرتے ہیں۔“ انہوں نے کہا اور کچھ ہی دیر میں ہم آٹھویں منزل سے بیسمنٹ میں واقع وسیع کیفے ٹیریا آ بیٹھے تھے۔ میں نے پنیر کے کیک کا ایک ٹکڑا لیا تھا اور اس پر اضافی کریم بھی ڈلوا لی تھی اور ساتھ کریم والی کافی کا ایک مگ۔ ثریا نے کافی کے ساتھ سادہ کروئے ساں اپنے لیے پسند کیا تھا۔

” ہاں تو سب سے پہلے اپنی ادبی زندگی کی ابتدا کے بارے میں ہمیں بتائیے۔“

گراؤنڈ فلور سے آتی کشادہ سیڑھیوں سے کچھ فاصلے پر اونگھتے سیاہ و سبز رنگ کے ایک میز پر پلیٹ اور مگ رکھتے ہی انہوں نے ننھے سے ریکارڈر کا سرخ بٹن دبا دیا تھا۔ یوں گفتگو آغاز ہو گئی جو بقول ان کے لندن سے شائع ہونے والے اخبار جنگ کے ادبی صفحہ کے لیے تھی جس کے انچارج ان دنوں امین مغل صاحب تھے اور وہ میری شعری تخلیقات کو بھی گاہے گاہے اپنے صفحے میں شامل کر لیا کرتے تھے۔

وہ پے در پے سوال کر رہی تھیں اور میں اب بھی یہی سوچ رہا تھا کہ انہوں نے میرا ہی انٹرویو لینے کا کیوں سوچا؟

”آپ کو جرمنی کیسا لگا؟“
” بہت اچھا۔“
” کیا مستقلاً یہیں رہنے کا ارادہ ہے کیا؟“
”قطعی نہیں۔ تین سالہ معاہدہ پورا ہونے سے ایک دن پہلے ہی واپس پاکستان روانہ ہو جاؤں گا۔“

”ایسی اچھی جگہ چھوڑ کر کیوں جائیں گے آپ؟“ ان کا استفسار۔
” بس جی نہیں لگتا۔ آپ نے میرے شعری مجموعے میں وہ غزل دیکھی ہوگی۔“

”کون سی غزل؟ کیسے دیکھی ہوگی میں نے وہ غزل۔ ابھی ابھی تو آپ نے اپنا مجموعہ دیا ہے مجھے۔ ابھی تک تو امجد علی صاحب کا بنایا خوب صورت سرورق ہی دیکھ پائی ہوں۔“ انہوں نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تھا۔

” چلئے، جب وقت ملے پڑھ لیجیے گا۔ دو شعر میں ابھی آپ کو سنا دیتا ہوں :
لاہور کی حسین فضاؤں سے دور ہوں
لگتا ہے جیسے ماں کی دعاؤں سے دور ہوں
گم ہوں دیار غیر کے اس برف زار میں
اپنوں کی پرتپاک جفاؤں سے دور ہوں ”
میں نے موقع پاتے ہی اپنے شعر سنا ڈالے تھے۔

”یہ پر تپاک جفائیں خوب ہے۔“ ثریا نے مسکان بھری داد کے ساتھ کہا تھا۔ ”اچھا، یہ تو بتائیے کہ تین سالہ معاہدہ مکمل ہونے سی ایک دن پہلے پاکستان جاکر کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں آپ؟“ انہوں نے شریر سی مسکراہٹ سے پوچھا تھا۔

” دو منصوبے ہیں میرے ذہن میں۔ ان پر کام کروں گا۔“ میں نے قدرے سنجیدگی سے جواب دیا تھا۔
” دو منصوبے؟ بھئی واہ۔ کیا ہیں وہ منصوبے؟ کچھ ہمیں بھی تو پتہ چلے۔“

” ایک تو ایک ایسے کتب خانے کے قیام کا منصوبہ ہے جس میں ہر کسی کو کتاب اور چائے دستیاب ہوگی اور دوسرا منصوبہ ایک ایسا چائے خانہ بنانے کا ہے جہاں ہر کسی کو چائے اور کتاب دستیاب ہوگی۔“

”بہت خوب۔“ میرا جواب سن کر وہ کھلکھلا کر ہنسی تھیں۔ ”یہ بتا دیجیے ان دو میں سے آپ کو زیادہ عزیز کون سا منصوبہ ہے؟“

” جو پہلے مکمل ہو جائے۔“ میں نے بے ساختہ جواب دیا تھا۔ اور ہم دونوں ہی ہنس دیے تھے۔
” سچ بتاؤں تو آپ میرا خواب مجھے سنا رہے ہیں۔“ انہوں نے شائستگی سے کہا تھا۔

” یہ تو اچھی بات ہے نا۔ پاکستان آنا ہو تو دوستوں کے ساتھ ساتھ اپنے خواب کی تعبیر سے بھی ہو لیجیے گا آپ۔“ میں نے کہا تھا۔

” ضرور۔“ انہوں نے بس ایک ہی لفظ پر اکتفا کیا تھا۔

پھر انہوں نے جانے کیا کیا رسمی سے سوال پوچھے اور میں نے کیا کیا بناوٹی سے جواب دیے کچھ ٹھیک سے یاد نہیں مگر اس انٹرویو کے بعد ہونے والی باتیں مجھے کبھی نہیں بھولیں۔

ریکارڈر بند ہوتے ہی میں نے ان سے کہا کہ وہ دفتر آنے کے لیے فرینکفرٹ کے پاس واقع قصبے سے صبح نکلتی ہیں، ٹرین اسٹیشن پر پہنچتی ہیں۔ دو گھنٹے کا سفر کر کے کولون پہنچتی ہیں تو اسی شہر کیوں منتقل نہیں ہو جاتیں؟ اس طرح وہ سفر کی تکان اور زحمت سے بچ جائیں گی۔ جواب میں بولیں :

”بھئی، یہ سفر زحمت کے بجائے رحمت ثابت ہو رہا ہے میرے لیے۔“
” رحمت! وہ کیسے؟“ میں نے حیرت سے پوچھا تھا۔

” دیکھئے، ایک تو فرینکفرٹ اور کولون کے درمیان ٹرین کا سفر انتہائی خوب صورت ہے۔ دونوں طرف دل کش نظارے اپنی طرف توجہ کھینچتے ہیں۔ ایک طرف دریائے رائین کے ساتھ ساتھ انگور کے باغات، رنگ رنگ کی بادبانی کشتیاں اور جہاز اور قدیم تاریخی محلات دکھائی دیتے ہیں اور دوسری طرف صاف ستھری ہری بھری بستیاں اور ڈھلوانی چھتوں والے گھر۔ تو ایک تو میں ان مناظر سے محروم ہو جاؤں گی آپ کے شہر کولون منتقل ہو کر اور دوسرے میں جو اپنے ایک دیرینہ خواب کی تکمیل میں مصروف ہوں وہ ادھورا رہ جائے گا۔“ وہ کہتی چلی گئیں۔

” دیرینہ خواب؟“ میں نے چونک کر کہا

” جی، ہاں دیرینہ خواب۔ میرا دیرینہ خواب تھا کہ میں ایک ناول لکھوں اور یہ خواب میں فرینکفرٹ اور کولون کے سفر کے دوران پورا کرنے کی کوشش میں ہوں۔ سفر کے دوران نظاروں سے نظر ہٹاتی ہوں تو کاغذ پر جما لیتی ہوں اور اور ناول کا اگلا باب مکمل ہونے لگتا ہے۔“ انہوں نے وضاحت کی۔

”آپ نیوز کاسٹر اور براڈکاسٹر ہیں یہ تو مجھے مدت سے پتہ ہے مگر آپ لکھتی بھی ہیں یہ میرے لیے ایک انکشاف ہے۔“

” اب آپ ہی بتائیے یہ سفر زحمت ہوا کہ رحمت؟“ ثریا نے میرے استعجاب کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا تھا۔

”یہ تو واقعی رحمت ہے آپ کے لیے بھی اور اردو ادب کے شائقین کے لیے بھی کہ جلد ایک دل چسپ ناول ان کے ہاتھوں میں ہو گا۔“ میں نے واقعی خلوص سے جواب دیا تھا۔

” جی، سفر میرے لیے واقعتاً وسیلہ ظفر ثابت ہو رہا ہے۔“

یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنی کلائی گھڑی پر ایک نظر ڈالی، کافی کا آخری گھونٹ گلے سے اتارا، بیگ بائیں کاندھے پر لٹکایا اور شہر کے مرکزی ٹرین سٹیشن کی طرف روانہ ہو گئیں اور میں وہیں بیٹھا کافی دیر اپنی زندگی کے سفر اور اس کے پڑاؤ کے بارے میں سوچتا رہا۔

ادھر کیفے ٹیریا کی شیشے کی دیوار سے پار باہر سیاہ لیمپ پوسٹ سے لپٹی سبز بیل شام کے قمقمے کی زردی مائل روشنی میں بھیگ چلی تھی اور دریائے رائین کے ساتھ ساتھ محو سفر ٹرین کے گزرنے کی خیالی آواز ویران ہوتے ماحول کو پراسرار سا بنانے لگی تھی۔
کسی نے میرے تخیل کو مہمیز کر دیا تھا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments