عورت اور ہمارا فکری فریب


عقل کا ایک سادہ سا اصول ہے کہ کسی بھی قائم رائے یا نقطہ نظر کے رد کے لیے اس نقطہ نظر میں موجود تمام دعووں کو فرداً فرداً سمجھا جاوے اور پھر ان کے منطقی و عقلی سقم کی بنیاد پر اس نظریے کی لنکا ڈھائی جاوے۔ مگر محسوس یوں ہوتا ہے کہ یہ کام بہت مشقت طلب ہے سو کسی بھی ایسی تحقیقی روش کے بجائے سنے سنائے چند ضابطوں پر ایمان لے آنا عام طرز عمل بن چکا۔ یہی کچھ معاملہ مذہب اور سیاست کے بعد تیسرے سب سے زیادہ قابل بحث موضوع یعنی ”عورت“ میں بھی پیش آیا۔

مذاہب کے تارکین نے سب سے نمایاں مذہب یعنی اسلام کی چند ضعیف اور کچھ مستند روایات کو ٹائم اور سپیس کے فریم سے آزاد کر کے عصر حاضر کی منطق پر دانستاً پرکھا سو نتیجتا انہی کے حق میں ٹھہرا اور تمام مذاہب کو یکسر پدر شاہی اپروچ سے جوڑ دیا گیا۔ دنیا میں موجود دس ہزار مذاہب کو ایک یا دو بڑے مذاہب کی بوسیدہ گردانوں سے مورد الزام ٹھہرانا تو بہر کیف فکری خیانت ہے پر اگر بدترین مفروضوں میں بھی اس خیانت کو قبول کر لیا جاوے تو حقوق نسواں کے روشن خیال حامی اپنی نظریاتی اساس کا کس صورت دفاع کر سکتے جبکہ جس روشن فکر کے یہ بائیں بازو کے دوست داعی ہیں اسی فکر کے ستون قدیم یونان میں سقراط سے لے کر ارسطو اور افلاطون تک اور جدید مغرب کے روسو، ہیگل سے لے کر امینول کانٹ اور مارکس تک عورت کے معاملے میں بغض و نفرت سے بھرے شعلے دکھائی دیتے ہیں۔

عورت کو جسمانی ساخت کی بنیاد پر کمزور، بیکار، ناقص اور آدھا انسان سمجھتا انسانی انٹلیکٹ کا بنیادی ماخذ ارسطو ہو یا ری پبلک میں خود کو فیمینسٹ ثابت کر کے ”The Laws“ میں عورت کو گھر کی چار دیواری تک محدود رہنے کا وعظ دیتا افلاطون ۔ مابعد جدیدیت فکری انقلاب کے موجد ہونے کا سہرا سجاتے ہیگل سے لے کر امیناول کانٹ تک قابل دماغ عورت کو حق خود ارادیت اور ووٹ سے محروم رکھنے کی سفارت کر کے کن تقاضوں کے تحت آج کی نسوانی تحریکوں کے منتظمین روشن خیال سوچوں کے ترجمان اور فکری اساس کے وارث کہلائے جا سکتے۔

کیا عورت کو نجی دائروں تک محدود کر کے عمرانی معاہدہ کو مردانہ وجاہت بخشتا جین جیکس روسو قابل جرح نہیں؟ عورت کے موضوع پر پدر شاہت کو فروغ دینے کا خمیازہ فقط مذاہب اور بالخصوص اسلام ہی کیوں ادا کرے؟ کوئی بھی عام ذہن جب کتاب سے تعلق جوڑے گا تو اس پر روشن خیالی کے ان زعموں کی حقیقت وا ہوتی چلی جائے گی اور تب تلک شاید آپ کے لیے ، میرے لیے اور کسی بھی کتاب دوست شعوری دماغ کے لیے خود کو روشن خیال کہلوانا جوکھوں کا کام جیسا عذاب ثابت ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments