بت شکن عمران خان


ڈوب کر ابھرنا کوئی عمران خان سے سیکھے۔ ہر بار جب وہ ابھرتا ہے تو ہم جیسے پرانے فین ایک بار پھر اس کے ساتھ ہو جاتے ہیں، پرانی محبت عود کر آتی ہے مگر جب وہ ڈگمگا رہا ہوتا ہے تو ہم بھی اسے کوسنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ ہر بار وہ غلط ہو کر پھر صحیح ثابت ہو جاتا ہے اور ایسا متعدد مرتبہ ہو چکا ہے۔ ہم سے زیادہ کون اس بات سے واقف ہو گا جو اسی کی دہائی کے ابتدائی برسوں سے اس کے فین کلب میں شامل ہیں۔ جو لوگ اس کے بارے میں غلط اندازے لگاتے ہیں یا اسے بھی دوسرے سیاسی لیڈروں کے پیمانے سے جانچنے کی کوشش کرتے ہیں اسی لیے ہر بار منہ کی کھاتے ہیں کہ وہ غالباً ماضی کے اس فین کلب کا حصہ نہیں رہے۔

اس کی زندگی ناقابل حصول اہداف کو بالا آخر حاصل کر لینے کی ایک مسلسل داستان ہے۔ کرکٹ میں اس نے انگریزوں کی نفسیاتی غلامی کا جوا نہ صرف اپنی گردن سے اتار پھینکا بلکہ الٹا آقاؤں کی گردن پر سواری کی نئی روایت متعارف کرائی۔

سیاست میں آیا تو صرف اس لیے کہ کرکٹ اور سماجی خدمت کے میدان میں کامیابی سمیٹنے کے بعد اسے اس سے بڑا ہدف درکار تھا۔ بظاہر ناقابل حصول ہدف! پندرہ بیس سال ان سنگلاخ دیوا روں سے سر ٹکرانے کے بعد جب ذرا سا راستہ ملا تو اس نے اس محاذ کو بھی فتح کر لیا۔ مگر یہ اس کی منزل نہ تھی۔ وہ تو ایک بت شکن ہے جو گھسی پٹی روایتوں کے بتوں کو پاش پاش کرتا ہوا مسلسل آگے بڑھتا جا رہا ہے۔

اسی اور نوے کی دہائی کے اولڈ بوائز بخوبی جانتے ہیں کہ ان دنوں تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں کی فعالیت کا کیا عالم تھا اور ان جملہ تنظیموں میں بھی اسلامی جمیعت طلبہ کا کیا مقام اور مرتبہ تھا۔ مختلف تعلیمی ادارے مختلف تنظیموں کے گڑھ سمجھے جاتے تھے جہاں ان کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہ ہلتا تھا۔ اداروں کے اساتذہ اور تنظیمی سربراہ تک ان کے سامنے بھیگی بلی بنے رہتے۔ ایسے ماحول میں ملک کی سب سے بڑی درسگاہ پنجاب یونیورسٹی کی قسمت ”جمیعت“ کے شکنجے میں جکڑی ہوئی تھی۔

ان کی بدمعاشی کی داستانیں زبان زد عام تھیں۔ خاص طور پر لڑکے لڑکیوں کی آپس میں گفتگو سخت سزا کی مستحق سمجھی جاتی تھی۔ طلبہ تنظیموں پر پابندی لگی تو رفتہ رفتہ تعلیمی اداروں کا ماحول بدلنا شروع ہوا مگر پنجاب یونیورسٹی کی حد تک اس میں قطعاً کوئی تبدیلی واقع نہ ہو سکی۔ وہاں جمیعت کی گرفت برقرار رہی یہاں تک کہ عمران خان نے قدم رنجہ فرمایا اور جمیعت کے کار پردازوں اور ہتھ چھٹوں نے اپنا آخری جلوہ دکھایا۔ اس کے ساتھ ہی ان کے خوف کی پر شکوہ عمارت جو اندر سے کھوکھلی تھی، آن کی آن میں زمیں بوس ہو گئی اور طلبہ و طالبات نے آزاد فضا میں سانس لیا۔

ایسے ہی کراچی اور حیدرآباد میں الطاف حسین کے بت کی پوجا کسے یاد نہیں۔ تفصیل میں کیا جانا سب جانتے ہیں کیسے ”بھائی“ کی بے سروپا باتیں سارے چینل الف سے ہے تک سنوارتے تھے اور کیسے پارٹی کے ذمہ داران کاٹھ کے الووں کی طرح ”خطاب“ سننے کے لیے زبردستی کے بندھنوں میں بندھے پہلی صفوں میں براجمان ہوتے تھے۔ کیسے بھائی کے حکم پر شٹر ڈاؤن، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ ہوتی تھی۔ کس کی مجال تھی کہ اس بت سے ٹکرانے کا سوچ بھی سکتا۔

بڑے بڑے پھنے خان گھگیاتے ہوئے نائن زیرو پر حاضری بھرتے تھے۔ معمولی سرکاری اہلکاروں سے لے کر بنفس نفیس سرکار تک خوف کی ایک ہی زنجیر سے بندھے ہوئے تھے۔ عمران کی باری آئی تو اس نے خوفزدہ ہونے سے انکار کر دیا۔ اس کی اس للکار نے قیامت ڈھا دی۔ کراچی کی دیواریں مغلظات سے بھر گئیں مگر اس نے وہاں جا کر برسوں سے ایستادہ اس بت کی بنیادیں ہلا دیں۔ اگرچہ بعد میں اسے گرا کر اور اس پر ایک پاؤں جما کر فتح کا جھنڈا اسٹیبلشمنٹ نے لہرایا مگر پھر جب اس مہیب خلا کو پر کرنے کا وقت آیا تو بازی ایک بار پھر تحریک انصاف کے ہاتھ رہی۔

جب سے ہوش سنبھالا ہے یہی سنتے آئے ہیں کہ پاکستان پر بائیس خاندانوں کی حکمرانی ہے۔ حکومت چاہے کسی کی بھی ہو اختیار انھی کے پاس کے پاس رہتا ہے۔ نواز شریف سیاست میں آیا تو شروع میں سمجھا گیا کہ یہ ان کی اجارہ داری کو ختم کرے گا مگر اس نے تو ان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ یہاں تک کہ اب یہ سب اسی کے دستر خوان کے خوشہ چیں ہیں۔ عمران نے ان سے بھی ٹکر لی بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ یہ اس کے راستے میں آ گئے۔ پھر چشم فلک نے دیکھا کہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے والے اور سرکاری اداروں کو جوتے کی نوک پر رکھنے والے عدالتوں اور کچہریوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔

اس سیاسی مافیا کو پہلی بار کسی نے صحیح معنوں میں خوفزدہ کیا۔ ورنہ یہ تو بڑے مزے سے حکومت پاکستان میں اور جائیدادیں بیرون ملک بناتے تھے۔ کس نے ان کو روکنا تھا؟ پبلک کی تو جرآت نہیں تھی ان کے سامنے آنکھ بھی اٹھا سکے۔ ابھی بھی ان کی طاقت برقرار ہے۔ ان کی جڑیں دور تک پیوست ہیں۔ بد عنوانی سے آلودہ جڑیں! اوپر سے نیچے تک سارے بد عنوان ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ ان سے ٹکر لینا کوئی آسان کام نہیں۔ مگر اس اکیلے نے ماتھا لگا رکھا ہے۔ بزدل اور مصلحت کوش قوم کا نڈر اور بے باک لیڈر! اگر وہ منظر سے ہٹ جائے تو پھر سب کچھ ویسے کا ویسا ہو جائے گا۔ کوئی انھیں پوچھنے والا نہ ہو گا۔ وہی ہے جو مافیا کے اس بت سے مسلسل برسر پیکار ہے۔

بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ عمران وہ مرد قلندر ہے جسے ڈپلومیسی چھو کر بھی نہیں گزری۔ بیک وقت بہت سے محاذ کھول لینا اور پھر ان سب پر داد شجاعت دینا بس اسی کا کام ہے۔ جو اس کے ریڈار میں آ گیا اسی کو اس نے دعوت مبارزت دے ڈالی۔ ایسا ہی ایک اور بت طناز امریکہ بھی ہے۔ امریکہ کے بارے میں بچپن سے ہم نے جو سنا اس کا خلاصہ یہی تھا کہ پاکستان میں جو کچھ ہوتا ہے وہ امریکہ ہی کرواتا ہے۔ یہ تاثر عوام الناس میں کائناتی سچائی کی طرح راسخ تھا۔

سن شعور میں داخل ہو کر جب منٹو صاحب کے ”چچا سام کے نام خط“ پڑھے تو ان کی مستقبل بینی کو داد دی کہ کیسے انہوں نے اس نوزائیدہ مملکت خداداد کو جڑوں سے ہی پہچان لیا تھا۔ امریکہ کا پاکستان کے ساتھ تعلق اردو کے کلاسیکی شاعروں کے محبوب کا سا ہے جو ظالم ہے، جفاکار ہے، ہر جائی ہے اور انھیں بالکل گھاس نہیں ڈالتا مگر وہ ہیں کہ اس کی کج ادائیوں سے صرف نظر کر کے اسی کے آستانے پر ماتھا پھوڑے ڈالتے ہیں۔ اس کی ایک ہلکی سی نظر کرم پر لوٹ پوٹ ہو جاتے ہیں۔

وہ ناراض ہو جائے تو ان کی دنیا اندھیر ہو جاتی ہے اور وہ بھولے سے مسکرا دے تو وہی دن ان کے لیے عید کا دن ٹھہرتا ہے۔ وہ سامنے آ جائے تو ان کی نظر اس کے پاؤں سے اوپر نہیں اٹھتی، منہ میں گھنگنیاں بھر جاتی ہیں اور سر اثبات میں ہلانے کے سوا اور کوئی حرکت نہیں کر پاتے۔ مجہول عاشق اور سفاک بے پرواہ معشوق کا یہ تعلق عشروں سے ( بھٹو کے استثنا کو چھوڑ کر ) یونہی چلا آ رہا تھا۔ انگریزی زبان، سفارتی آداب اور اسلحے کی چمک کی آڑ میں امریکیوں نے ہمیں آگے لگایا ہوا تھا۔

نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی حملے سے پہلے کولن پاول اور مشرف کی مشہور زمانہ فون کال پاک امریکہ تعلقات کو سمجھنے کی بہترین مثال ہے۔ بعد میں محترم آصف علی زرداری کے دور پادشاہی میں بلیک واٹر کی در اندازی بھی کون بھول سکتا ہے۔ عمران آیا تو امریکیوں کو ان ہموار راستوں پر چلتے ہوئے پہلی بار ٹھوکر لگی۔ تب انھوں نے بھی پہلی بار نظر بھر کر عام پاکستانیوں سے مختلف اس شخص کو دیکھا۔ اور فیصلہ کیا کہ اس سے جان نہ چھڑائی تو ہموار راستے یقیناً دشوار ہو جائیں گے۔ بہرحال امریکیوں کو اپنا راستہ بنانا آتا ہے لیکن وہ پہلا سا بھرم شاید اب نہ رہے۔

ایسے ہی اسٹیبلشمنٹ کا بت غالباً امریکہ سے بھی زیادہ طاقتور اور خطرناک گردانا جاتا ہے اور اب تو کسی کو شک شبہ تھا بھی تو یقیناً رفع ہو گیا ہو گا۔ مگر ہمارے سر پھرے ہیرو نے اس سے متھا لگانے میں بھی ذرا ہچکچاہٹ نہ دکھائی۔ پنڈی والے پچھلوں کے عادی تھے۔ پہلی بار انھیں بھی دانتوں تلے پسینہ آیا اور ہم جیسے مطالعہ پاکستان پڑھنے اور پڑھانے والے جو ان کے مفت کے حامی بنے پھرتے تھے پہلی مرتبہ برگشتہ ہوئے۔ پہلی بار ہم نے انھیں بنظر تشکیک دیکھا۔

کس کس کا ذکر کریں۔ لوٹا کریسی کو ہی لے لیں۔

لوٹے کی اصطلاح بھی اگرچہ پہلے سے مستعمل تھی مگر کبھی کسی کو کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ البتہ جب یہ خان کے ریڈار میں آئے تو پھر کہیں کے نہ رہے۔ بڑے بڑے طرم خان، اے ٹی ایم، الیکٹیبلز در بدر ہو گئے۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے بت بھی ہیں جو ابھی تک رام نہیں ہو پائے۔ حکمرانی کا بت بھی ایک ایسا بت ثابت ہوا جس نے خان کو چوکڑی بھلا دی۔ بھلا ہو پی ڈی ایم کا اور جو بھی ان کے سہولت کار تھے، انھوں نے اسے اس جھنجھٹ سے نکال باہر کیا۔ دوبارہ موقعہ ملنے پر امید واثق ہے کہ وہ اس اڑیل گھوڑے کو بھی لگام ڈال لے گا۔ پھر رہ جائے گا وہ سب سے بڑا بت جس کا منحوس سایہ عشروں سے ملک عزیز پر چھایا ہوا ہے، جس کی بانہوں میں بانہیں ڈالے اپنا ہیرو بھی ابھی تک ہلارے لے رہا ہے اور جس کا نام لینے کی جرات مجھ جیسے آوارہ گرد میں بھی عنقا ہے۔ عمران کے ساتھ ہم اسی امید پر جڑے ہوئے ہیں کہ بالآخر سارے مسائل کی جڑ اس بت کے ٹکڑے بھی اسی کے ہاتھوں ہوں گے۔ اگر ایسا نہ ہو سکا تو ہم بھی چپ چاپ سید مجاہد علی، نصرت جاوید اور ایک آدھ کو چھوڑ کر ”ہم سب“ کے سبھی لکھنے والوں کی صف میں جا کھڑے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments