قسطوں میں قتل ہونے والے صحافی (مکمل کالم)


پہلے کسی نے ٹویٹ کی، کچھ دیر بعد ٹی وی پر خبر چلی اور پھر تفصیلات آنی شروع ہوئیں۔ ایک ’نجی‘ چینل کی رپورٹر صدف نعیم ’کنٹینر‘ تلے آ کر ہلاک ہو گئیں، وہ لانگ مارچ کی رپورٹنگ کر رہی تھیں، اس دوران انہوں نے کنٹینر پر چڑھنے کی کوشش کی، ہجوم میں ان کا پاؤں اکھڑ گیا یا انہیں دھکا لگا جس سے وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکیں اور یک دم گر گئیں، کنٹینر ان کے اوپر سے گزر گیا، موقع پر ان کی ہلاکت ہو گئی، مرحومہ کے دو بچے تھے، ایک بیٹا اور ایک بیٹی، شوہر فوٹو گرافر تھا۔ صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے مرحومہ کے لیے بالترتیب پچیس اور پچاس لاکھ کی امداد اور ان کے بچوں کو نوکری دینے کا اعلان کیا ہے، لوگوں نے انہیں شہید کہا، ان کے درجات بلند کرنے کی دعا کی، آج انہیں فوت ہوئے تیسرا دن ہے، دنیا چل رہی ہے اور ایسے ہی چلتی رہے گی۔ سچ پوچھیں تو صدف نعیم خوش قسمت تھی، وہ جان دے کر اپنے بچوں کے لیے چار پیسوں اور نوکری کا بندوبست کر گئی، زندہ رہتی تو اپنی پوری زندگی میں بھی یہ کام نہ کر پاتی۔
اس المناک واقعے کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ ہمارے ملک میں رپورٹر کی زندگی بہت عجیب ہے، بظاہر اس کے ہاتھ میں مائیک ہوتا ہے اور وہ نہایت اعتماد کے ساتھ بڑے بڑے لوگوں سے سوال کر رہا ہوتا ہے۔ ٹی وی دیکھنے والوں کو یوں لگتا ہے جیسے یہ کوئی آئیڈیل قسم کی نوکری ہے جس میں مزے سے بس مائیک لے کر گھومنا ہے اور چلتے چلتے پھرتے خبر بنا دینی ہے جبکہ حقیقت میں ایک عام ٹی وی یا اخبار کا رپورٹر، خاص طور سے اگر وہ کسی چھوٹے میڈیا گروپ سے وابستہ ہو، تقریباً بغیر تنخواہ کے ہی کام کرتا /کرتی ہے، اگر وہ خوش قسمت ہے تو اس کی تنخواہ تیس سے چالیس ہزار روپے ہوگی لیکن یہ اسے کبھی وقت پر نہیں ملے گی اور اکثر اوقات تنخواہ ملنے میں کئی ماہ کی تاخیر بھی ہو سکتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ سرے سے تنخواہ ہی نہ ملے۔ چھوٹے ٹی وی چینل کے رپورٹر کے پاس کوئی کیمرہ یا سواری نہیں ہوتی، اسے دفتر کی طرف سے ایک مائیک دیا جاتا ہے تاکہ ٹی وی پر جب یہ مائیک کسی کے آگے رکھا جائے تو چینل کا نام جلی حروف میں پڑھا جا سکے۔ یہ غریب رپورٹر کسی ساتھی کے ہاتھ میں اپنا موبائل فون پکڑا کر انٹرویو ریکارڈ کرتے ہیں، کہیں آنا جانا ہو تو لفٹ مانگتے پھرتے ہیں اور اگر بیمار پڑ جائیں تو ان کے پاس کوئی بیمہ پالیسی نہیں ہوتی جس کے بل پر یہ اپنا علاج کروا سکیں۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ بیس تیس ہزار کی ملازمت کیوں کرتے ہیں، جواب یہ ہے کہ وہ میڈیا کی طاقت کی وجہ سے کرتے ہیں، یہ طاقت نجی شعبے کی کسی اور نوکری میں نہیں، یہ ایک ایسا نشہ ہے جو انہیں چین نہیں لینے دیتا، کچھ لوگوں نے یہ نوکری چھوڑنے کی کوشش کی مگر چند ماہ بعد وہ اس نشے کے ہاتھوں مجبور ہو کر دوبارہ اسی تنخواہ اور کام پر واپس آ گئے۔ اس ضمن میں میڈیا کی تنظیموں کا کردار بھی قابل رشک نہیں، اس وقت ملک بھر میں صحافیوں کی درجنوں تنظیمیں ہیں، ان میں سے کوئی ایک تنظیم بھی اب تک صحافیوں کے لیے ڈھنگ کی بیمہ پالیسی کا بندوبست نہیں کر سکی، اصولاً تو یہ کام میڈیا مالکان کو کرنا چاہیے، انہیں نہ صرف اپنے ملازمین کا بیمہ کروانا چاہیے بلکہ لیبر قوانین کے تحت انہیں سال میں کم ازکم دو ہفتوں کی چھٹیاں دینی چاہئیں، ان کے گریجوایٹی فنڈ میں تنخواہ کا دس فیصد حصہ ڈالنا چاہیے اور مستقل بیماری یا ناگہانی موت کی صورت میں انہیں یکمشت رقم کی ادائیگی کرنی چاہیے۔ لیکن یہ سب باتیں تو دیوانے کا خواب ہیں، یہاں تو غریب رپورٹر کو وقت پر پوری تنخواہ نہیں ملتی، گریجوایٹی کیا خاک ملنی ہے! ایسے میں میڈیا تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کم ازکم دو کام کریں، ایک، تمام صحافیوں کا بیمہ کروائیں تاکہ بیماری یا موت کی صورت میں ان کے خاندان والوں کو پریشانی نہ ہو، یہ تنظیمیں اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے بہت مناسب شرح کے ساتھ بیمہ کروا سکتی ہیں جس کے کم تنخواہ والے رپورٹر بھی متحمل ہو سکتے ہیں۔ دوسرا، ان تمام صحافیوں کو جو، فیلڈ رپورٹنگ کرتے ہیں، حفاظتی تدابیر کی تربیت کروائیں، یہ کوئی مشکل کام نہیں، اگر یہ تنظیمیں چاہیں تو یہ کام مفت بھی ہو سکتا ہے، بہت سے ادارے اس کام کے لیے نہ صرف تعاون کر سکتے ہیں بلکہ ایسے صحافیوں کو وہ سامان بھی مہیا کر سکتے ہیں جو فیلڈ رپورٹنگ میں ان کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔
اب آتے ہیں اس واقعے کے دوسرے پہلو کی طرف جس کا تعلق صحافت سے نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کے عمومی غیر ذمہ دارانہ رویے سے ہے۔ ہم کسی بھی قسم کی احتیاطی تدابیر اپنانے کے سرے سے قائل ہی نہیں۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی تو پہلے بھی معمول تھا مگر اب یہ خوفناک حد تک بڑھ گیا ہے، لوگ رات گئے بغیر بتی کے موٹر سائیکل چلاتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے سڑک کے غلط طرف سے آنے کی بھی پروا نہیں کرتے، ہیلمٹ پہننے کا تکلف نہیں کرتے، ریلوے پھاٹک کو جلدبازی میں پار کرتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، بچوں سے لدی ہوئی وین کسی ٹرک سے جا ٹکراتے ہیں، چلتی ہوئی بس یا ٹرین سے چڑھنے اور اترنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ تمام باتیں ہمیں بالکل نارمل لگتی ہیں حتیٰ کہ اگر بچے ساتھ ہوں توبھی ہم یہ تمام غیر ذمہ دارانہ حرکتیں کرنے سے نہیں گھبراتے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمیں اپنے بچوں سے پیار نہیں ہے، ہم بس یہ سمجھتے ہیں کہ جس حفاظتی اصول کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اس کے نتیجے میں جان جانے کا امکان ایک فیصد سے بھی کم ہے حالانکہ یہ ایک غلط فہمی ہے اور اس کا ثبوت وہ اندوہناک حادثات ہیں جن کی خبریں ہم آئے روز سنتے ہیں۔ صدف نعیم کی موت ایسے ہی ایک حادثے کے نتیجے میں ہوئی مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی موت کی ایف آئی آر درج نہ کی جائے یا اس کی لاش کا پوسٹ مارٹم نہ کیا جائے۔ اس قسم کی حادثاتی موت کے بعد تمام ایس او پیز پر عمل ہونا چاہیے مگر ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہو گا کیونکہ ہم ہلاک ہونے والے کو فوراً شہادت کے مرتبے پر فائز کر دیتے ہیں اور اس کے پسماندگان کو صبر کی تلقین اور مرنے والے کے درجات بلند کرنے کی دعا کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے جبکہ ریاست کا فرض قانون کے مطابق عمل کرنا ہے نہ کہ مرنے والے کے جنت میں مقام کا تعین کرنا۔
کنٹینر کے پہیوں کے نیچے آ کر ہلاک ہونے والی صحافی ہو یا کسی ٹریکٹر پر لدے ہوئے سریے سے ٹکرا کر مرنے والا نوجوان، ایسے حادثات تب تک ہوتے رہیں گے جب تک ہم حفاظتی تدابیر کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے۔ ہمارے کسی اسکول میں بچوں کو حفاظتی تدابیر کے بارے میں نہ پڑھایا جاتا ہے اور نہ بتایا جاتا ہے اور بچوں کی بات کیا کریں جب ملک میں ہنڈا جیسی کمپنی بغیر ائر بیگ کے گاڑیاں بنا کر بیچتی رہی ہے اور کسی نے اس سے پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ ایسی صورتحال میں ہمارے پاس ماتم کے سوا کوئی چارہ نہیں، بیدل حیدری کے الفاظ میں کہوں تو: ’ایسے ظالم سماج میں بیدل، یعنی ظلمت کے راج میں بیدل، میرے جیسے غریب شخص کئی، اور ان میں ادیب شخص کئی، چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لیے، کبھی کاغذ کبھی خطوں کے لیے، کبھی مہمان دوستوں کے لیے، اور کسی وقت سiگرٹوں کے لیے، کبھی بس کے کرائے کی خاطر، کبھی دو گھونٹ چائے کی خاطر، خون میں انگلیاں ڈبوتے ہیں، روز قسطوں میں قتل ہوتے ہیں۔ ‘

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments