ڈجکوٹ کی یادیں – 2


ہمارا ”نکریاں والا احاطہ“ ڈجکوٹ کے اس حصے میں تھا جسے ہم دیہی ڈجکوٹ کہ سکتے ہیں، ڈجکوٹ کے بیچوں بیچ ایک پکی سڑک جاتی تھی جو کہ شہر کے اندر ہی گول مسجد والے چوک میں پہنچ کر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی تھی۔ اسے گول مسجد والا چوک کہتے تھے۔ ہماری گلی کو جانے کے لیے گول مسجد سے پہلے والے چوک سے شمال کی جانب جانا پڑتا تھا، اس چوک کی نکر پر امبرسریے ڈوگروں کے گھر تھے، آگے جا کر تلونڈی گاؤں والے امبرسریے راجپوت تھے۔ شمال کی جانب جا کر پہلے چوک کی شمال مشرقی نکر پر ”نکریاں والا احاطہ“ تھا۔ یہاں سے چاروں طرف کو گلیاں جاتی تھیں

مشرق کی جانب جانے والی گلی ایک چوک کے بعد ڈجکوٹ کے پرانے حصے سے جا ملتی تھی۔ اسی طرف ہمارے احاطے کا دروازہ اور کم چوڑی دیوار تھی۔ مغرب کی جانب جانے والی گلی میں رڈالہ، اور تلونڈی کے راجپوت اور اس سے اگلے بازاروں میں منڈیالہ کے ڈوگر، بشوہی کے گجر اور آدم پور کے شیخ /بھرائی تھے۔ یہیں بعد کے سالوں میں بنے ہمارے دوست محمد صدیق عرف ببی کا گھر تھا جس کے والد فضل دین شہر میں درزی کا کام کرتے تھے۔

جنوب کی جانب گلی کے ساتھ ہمارے احاطے کی لمبی دیوار تھی۔ احاطے کے آگے امبرسر کے شاہ مقیم تھے۔ خاندان کے بزرگ سید ناظر حسین شاہ تھے۔ امبرسریوں کی طرح ان سیدوں کا مزاج بھی جٹکا تھا۔ اگرچہ ختم درود کے لیے کھانا اور سیپارہ پڑھنے کے لیے بچے ان کے ہاں جاتے تھے مگر اس خاندان نے مذہب کو کمائی کا وسیلہ نہیں بنایا تھا۔ سید ناظر شاہ اور ان کے بیٹے اپنا کما کر کھاتے تھے۔ خود ان کی تھانے سے متصل حقے مرمت کرنے کی دکان تھی۔

ان کے سب سے چھوٹے بیٹے خادم شاہ کام میں ان کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ ان سے آگے راجپوت خاندان کا احاطہ تھا جسے بعد کے سالوں میں میں ہمارے ایک عزیز بابا چراغ دین کے بیٹوں نے خرید لیا تھا۔ یوں گلی کی ایک جانب سوائے ناظر شاہ کے سارا ہمارا شریکا تھا۔ اسی گلی دوسری جانب رڈالیے راجپوتوں میں سے بابا ناظر خاں کا گھر تھا، یہ بڑے پیارے بزرگ تھے، بچوں سے خوش گپیاں اور مذاق ان کی عادت تھی۔ ان کے مکان کے باہر ایک گیٹ تھا جس پر ہندی یا گرمکھی میں کوئی عبارت ہوا کرتی تھی۔ وہ گیٹ انہوں نے اینٹیں لگا کر بند کیا ہوا تھا مگر خوش نما نیلگوں پھول اور عبارت ہمارے لیہ شفٹ ہو جانے کے بعد تک موجود رہی۔

غالبا 2018 کے آس پاس کچھ سکھ سردار اس مکان کو دیکھنے کے لیے آئے بھی تھے۔

ہمارے احاطے کے سامنے حاضر خان کا گھر تھا۔ حاضر خان چھوٹے قد کے تھے۔ راجپوتی مونچھیں ان پر پھبتی تھیں۔ مختصرالوجود ہونے کے باوجود ان کی شخصیت میں دبدبہ موجود تھا۔ امانت خان کے گروپ کے تھے، امانت خان کو اردگرد کے لوگ امانت خونی بھی کہتے تھے۔ کہا جاتا تھا کہ انہوں نے کئی قتل کیے تھے

ہمارے ہوش سنبھالنے سے سالوں پہلے حاضر خان کے دو واقعات زبان زد عام تھے۔ وہ اپنی دھرم پتنی کو ”محبت سے لائے تھے“ اور انہوں نے اپنی سموں والی ڈانگ سے تلونڈی والوں کے سرکڈھ بندے ہدایت خان تھانیدار کی ٹانگیں توڑی تھیں۔ ہوش سنبھالنے کے بعد کے سالوں میں جب بھی ہدایت خاں سے آمنا سامنا ہوتا، میں ان کی ٹانگوں کی طرف دیکھتا۔ وہ چنگی بھلی ہوتیں

اور جب حاضر خان نظر آتے تو میں ان کے نکے نکے ہاتھوں کی جانب دیکھتا اور حیران ہوتا کہ انہوں نے ان میں سموں والی ڈانگ کیسے پکڑی ہوگی

طارق گجر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

طارق گجر

طارق گجر بنیادی طور پر پنجابی شاعر اور افسانہ نگار ہیں، تقسیم پنجاب ان کی تخلیقی شخصیت کا ہمیشہ سے محرک رہا ہے۔ وہ ان پنجابی لکھاریوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے 1947 کے بعد پنجابیوں کو درپیش شناختی بحران کے حوالے سے قابل قدر تخلیقی کام کیا ہے۔ اس حوالے سے ان کی شاعری کی کتاب ”رت رلے پانی“ قابل ذکر ہے۔ پچھلے چند سالوں سے انہوں نے پنجاب کی تقسیم کے عینی شاہدین کے انٹرویوز کے ذریعے تقسیم پنجاب کے سلیبسی نقطہ نظر کے متوازی پنجاب کے عوام کا نقطہ نطر سامنے لانے کے سلسلے میں بھی کام کیا ہے۔ طارق گجر جمہوریت، مکالمے، صنفی برابری اور آزادیٔ رائے پر کامل یقین رکھتے ہیں اور پاکستانی میں بسنے والی اقوام کے درمیان مکالمے کے لیے کوشاں رہتے ہیں

tariq-mahmood-gujjar has 10 posts and counting.See all posts by tariq-mahmood-gujjar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments