خان بھی یوسف کے خریداروں میں اپنا نام لکھوا چکا ہے!


کہنے والے کہتے ہیں کہ انقلاب لانے والے مزاج کے پکے ہوتے ہیں یعنی بیساکھی کا استعمال نہیں کرتے، قول و فعل کا تضاد بھی نہیں رکھتے اور سب سے اہم یہ کہ انقلاب کے لیے مذاکرات تو بالکل نہیں ہوا کرتے خصوصاً رات کی تاریکی میں اور چھپ چھپا کر چار دیواروں کے حصار میں تو بالکل نہیں ہوا کرتے۔

کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ انقلاب کا نعرہ لگانے کا اختیار ان لوگوں کو تو قطعی حاصل نہیں جو خود کبھی سامراج کا حصہ رہے ہوں یا ان کے پیرو ہوں۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ انقلاب جمہوریت دو متضاد اشیا ہیں اور ان کا امتزاج دھوکے سے زیادہ کچھ اہمیت نہیں رکھتا۔ خیر کہنے والے تو بہت بہت کچھ کہتے ہیں مگر قابل اعتبار وہی بات جو فعل کی دلیل ساتھ لے کر چلے۔ اگر میری مانیں تو گلستان نا پائدار میں کہنے والوں کی بہتات ہے اور کرنے والے ندارد۔ پھر اپنا کہا ہی اگر کوئی کر لے تو میں اسے انقلاب کا نام دیتا ہوں اور سر کفن اس کے ساتھ چلنے کے لیے آمادہ رہتا ہوں۔

بغداد، دہلی، روم، سندھ، لاہور، استنبول، ہسپانیہ، غرناتا اور ماسکو کی مثال سمجھانے والے بتاتے ہیں کہ ان ریاستوں کے انہدام کی وجہ کوئی نظریہ، انقلاب یا پھر کوئی جنگجو نہیں تھا بلکہ وہاں چوکوں چوراہوں میں بیٹھے خود ساختہ فلسفی تھے جو سوئی کے نکے سے اونٹ نکال کر داد سمیٹ رہے تھے اور آنے والے انقلاب کو دہلی دور است کا نام دیتے تھے۔ یہ ہمارا امتیاز ہے کہ ان فلسفیوں سے کہیں زیادہ دور اندیش فلسفی اور کہیں زیادہ سرعت کے ساتھ سوئی کے نکے سے اونٹ نکالنے والے جانباز آج ہمارے نہ صرف گلی کوچوں میں موجود ہیں بلکہ ہر شاخ پہ بذات خود تشریف فرما ہیں۔ میں اس بات سے کتنا اتفاق کرتا ہوں اس سے زیادہ اہم اس بات کا گواہ وہ تاریخی پس منظر ہے جو اس بات کے مدلل ہونے کا شاہد ہے۔

خان نے بھی اپنی جدوجہد کا آغاز انقلابی نعروں سے کیا اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ وہ انقلاب کس کس گملے میں نشوونما پاتا آج اپنی جگہ اس فلسفیانہ معاشرے میں اپنی جگہ بنا چکا ہے۔ ویسے بھی سوشل میڈیا دور نے ایک نئے ہتھیار کو متعارف کروایا ہے اور وہ ہتھیار معلومات کا ہتھیار ہے جس کو کنٹرول کرنے والے نت نئے بیانیے میدان میں اتارتے ہیں اور پھر ان کو استعمال میں لا کر مختلف کرتب پیش کرتے ہوئے شائقین سے داد وصول کرتے ہیں۔ بلا شبہ ففتھ وار جنریشن کا دار و مدار انھی بیانیوں اور معلومات کے ذخائر پہ ہے جن کے سچ جھوٹ ہونے کی بحث بذات خود ایک فتح کا اعلان ہے۔

میری نا چیز رائے میں انقلاب خونی ہی ہوا کرتے تھے اور عمر مختار، چی گویرا جیسے کئی لوگ اس کی مثال کے طور پر دیکھے جا سکتے ہیں لیکن ایک بات جو ان ادوار کے انقلابات کو آج سے مختلف بناتی ہے وہ سوشل میڈیا کا غیر معمولی کردار ہے۔

خان نے پاور میں آنے سے پہلے اس ہتھیار کو مزید مضبوط کیا، اس کی نوک تیز کی اور دوران اقتدار بھی اس کے استعمال سے چنگاری کو الاؤ بناتا رہا۔ وقت نے دیکھا کہ اس موجودہ انقلابی ہتھیار سے خان نے بہت سوں کو نہ صرف شکست دی بلکہ اس مقدس گائے کو بھی ذبح کر دیا جس کی طرف اشارے کرنے پہ پورا بازو کاٹ لیا جاتا تھا۔ جیسے کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ اس بات پہ بے شمار آراء ہو سکتی ہیں کہ خان کا انقلاب جھوٹا ہے، دھوکہ ہے یا کہ اس کے مقاصد سطحی ہیں اور انقلاب کی تعریف پہ پورا نہیں اترتے لیکن یہ بات اپنے آپ میں خود ایک ننگا سچ بن کر سامنے آئی ہے کہ انقلاب جیسا بھی ہے مگر ہے اور اس نے اپنی زد میں آنے والی ہر شے کو ملیا میٹ اگر نہ بھی کیا ہو بھی کسی لائق نہیں چھوڑا۔ فاطمہ جناح سے لے کر سید منور کو غدار کہنے والے اور قلم کو بزور طاقت تابع بنانے والے خود منظر عام پر آ کر اپنے غدار نہ ہونے کی دلیل دیتے پائے گے۔

میں خان کا حامی ہوں یا نہ ہوں اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ خان کے اس انقلاب نے کم از کم تمام فلسفیوں، فریبیوں اور ازلی طاغوتوں کو ایک صف میں کھڑے ہونے پہ مجبور کر دیا ہے۔ خان کا مقصد جو بھی ہو سو ہو مگر اس کی ہٹ دھرمی اور مستقل مزاجی نے اسے یوسف کے خریداروں میں شامل ضرور کر دیا ہے۔

آپ اور میں جتنا بھی انکار کریں سچ یہی ہے کہ آج یا تو خان پہ بات ہو رہی ہے یا پھر خان کی بات پہ بات ہو رہی ہے۔ میں خان کے انقلاب کو نہ بھی مانوں تو بھی اسے فرق نہیں پڑتا اور وہ اپنے اہداف کی طرف بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ اس پہ جتنے بھی وار ہوئے وہ اس سے زیادہ شدت کے ساتھ پلٹا اور وار کرنے والے ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔

خان منہ زور ہے، بد تہذیب ہے، فریبی ہے، فتنہ پرور ہے، جھوٹ بولتا ہے یا جو جو بھی برا بھلا کہیں مگر وہ ڈٹا ہوا ہے اور اس دو رنگی معاشرے کا تمام ہتھیار چاہے مذہبی ہوں یا سیاسی یا اینٹی امریکہ اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ، سب کو ایک ساتھ لے کر میدان میں اترا ہے اور میدان بھی وہ جو اس نے خود تیار کیا اور اپنے مخالفین کو جنگ ہونے سے پہلے ہی باہر نکال پھینکا ہے۔ فرض کیا کہ خان کے سارے حامی بھی خان کی طرح منافق ہیں، مکار ہیں اور تہذیب سے ان کا کوئی واسطہ نہیں لیکن پھر بھی اس دو موئی جعلی مہذب معاشرے کی اشرافیہ کے لیے وبال جان بن چکے ہیں۔

ایک پرانی داستان ہے کہ یوسف کو جب مصر کے بازار میں بیچنے کے لیے لایا گیا تو یوسف کی شہرت کی وجہ سے بازار میں بڑے بڑے خریداروں کی بھیڑ لگ گئی۔ وہیں ایک بوڑھی اماں بھی گرتی پڑتی پہنچی اور خریداروں کی لائن میں لگ گئی۔ کسی پوچھنے والے نے پوچھا کہ اماں کیوں اپنی نحیف جان پہ ظلم کر رہی ہو اور دوسرا تمھارا اس بازار میں کیا کام تو وہ گویا ہوئی میں بھی یوسف کو خریدنے آئی ہوں۔ پوچھنے والے نے حیرتاً کہا کہ اماں جہاں اتنے پائے کے خریدار آپس میں پنجہ آزما ہیں تم کہاں اپنی جان ہلکان کرتی ہو تو مائی نے اطمینان سے جواب دیا کہ جانتی ہوں میں یوسف کو خرید نہیں سکتی لیکن کم از کم خریداروں میں میرا نام تو آ ہی جائے گا!

کہانی مختصر یہ کہ خان کا انقلاب ہے یا نہیں، مقصد ہے یا نہیں لیکن یوسف کے خریداروں میں اس کا نام لکھا جا چکا ہے اور پبلک اس کی جرات خریداری کو داد دے رہی ہے نہ کہ اس کے انقلاب کی حامی ہے! انقلاب کا مزہ لیں داد دیں زیادہ سیریس ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ میں بھی اس انقلاب کا حامی نہیں۔ شکریہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments