بوسنیا کی چشم دید کہانی (18)۔


ویانا کو کسی من چلے نے کعبۂ موسیقی کہا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پچھلے کئی قرنوں سے یہ شہر موسیقی کے دل دادوں کے لیے حرز جاں رہا ہے۔ مورخین کے خیال میں اس کی بڑی وجہ یہ رہی کہ ڈینیوب کے ساحلوں تک پہنچنے والے نگر نگر کے رنگ برنگے مسافروں کی بدولت مختلف النوع لوک گیت یہاں پہنچے جنھوں نے اہل ویانا کے طرز زندگی میں موسیقی سے لگاؤ کو ایک بنیاد کی حیثیت دی۔ بارہویں صدی عیسوی میں شاہی خاندان بابن برگز کے دربار مشتاقان موسیقی کی آماج گاہ تھے اور ہاپس برگ حکم ران تو موسیقی کے خاص شیدائی مانے جاتے تھے۔

وہ ازخود بھی اس فن میں خوب مہارت رکھتے تھے۔ کارل ششم کی مہارت کو دیکھ کر خوشگوار بسمے ایک درباری نے یہاں تک کہا تھا کہ ”حضور تو اس فن میں اس قدر یکتا ہیں کہ اگر چاہیں تو بہ آسانی اسے ذریعہ معاش کے طور پر اپنا سکتے ہیں۔“ اس خاندان کے دوسرے سنگیت نواز حکمرانوں میں لیوپولڈ اول اور ماریہ تھریسا کے نام قابل ذکر ہیں۔ ماریہ تھریسا نے اپنے تمام سولہ عدد بچوں کو موسیقی کی باقاعدہ تعلیم دلوائی تھی۔

جس طرح ایک پوٹھوہاری محاورے کے مطابق کانٹے کی دھار ابتدا ہی سے تیکھی ہوتی ہے اسی طرح ایک بڑی شخصیت کے تیور بچپن ہی سے مختلف ہوتے ہیں۔ ایک ایسا ہی بڑا شخص، فن موسیقی کی دنیا کا سربلند نام موزارٹ ہے۔ وہ سالزبرگ میں پیدا ہوا۔ اس نے لڑکپن ہی میں ایسی یکتائی حاصل کی کہ یورپ کے کئی بڑے شہروں میں اپنے فن کا مظاہرہ کر کے خوب داد سمیٹی۔ 12 سال کی عمر میں اس نے ملکہ تھریسا کے محل میں اپنے فن کا کچھ ایسا جادو جگایا کہ ملکہ اور تمام اہل دربار کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ موزارٹ 1781 ء سے تا دم آخر ویانا میں مختلف مقامات پر کوئی بارہ گھروں میں مقیم رہا۔ ان میں سے کئی گھر اب ویانا میں موجود نہیں لیکن ایک گھر جو محلہ ڈومگاسی میں سینٹ سٹیفن چرچ کے عقب میں واقع ہے، ایک خاص عرصہ تک اس کی آماجگاہ رہا۔ یہ آج موزارٹ میوزیم کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

تھوڑی ہی دیر میں ہم اس گھر کے دروازے پر کھڑے تھے۔ یہ گھر ایک نسبتاً کم کشادہ گلی کے وسط میں واقع تھا۔ موزارٹ اس گھر کی پہلی منزل میں رہائش پذیر رہا تھا۔ یہ ایک عام چھوٹا سا گھر تھا جس میں کل چار کمرے تھے، تین کمروں میں موزارٹ کی مختلف تصاویر اور اس کے فن کا تعارف فریموں میں محفوظ، دیواروں پر آویزاں تھا۔ جب کہ ایک نسبتاً بڑے ہال نما کمرے کے وسط میں ایک وسیع میز پر کئی ہیڈ فون پڑے ہوئے تھے جنھیں کانوں سے لگا کر آپ موزارٹ کی ترتیب دی ہوئی مختلف دھنوں سے لطف اندوز ہو سکتے تھے۔

گھر ایک عجیب طرح کا اداسی بھرا ماحول لیے ہوئے تھا۔ شاید یہ اب بھی اپنے باسی کی ان محرومیوں کا گواہ رہنا چاہتا تھا جو 35 سال کی عمر میں دنیا سے عجلت میں رخصت ہونے سے پہلے قدم بہ قدم اس کا مقدر رہیں۔ 1791 ء میں جب اس نے وفات پائی تو اس کی تجہیز و تکفین کے لیے اس کی بیوی سے مناسب رقم کا بندوبست بھی نہ ہو سکا۔ سخت سردی کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت نے اس کی میت کے ہمراہ سینٹ مارکس کے قبرستان تک جانا بھی باعث تکلیف سمجھا۔ یوں ویانا کا یہ عظیم سپوت غریب الدیار کی طرح ابدی نیند سو گیا۔

چنگ و نے رنگ پہ تھے اپنے لہو کے دم سے
دل نے لے بدلی تو مدہم ہوا ہر ساز کا رنگ

موزارٹ کے گھر سے باہر نکلے تو سہ پہر ڈھل چکی تھی۔ ہم نے قریب ہی واقع ویانا کے مرکز کا رخ کیا۔ ہماری شام زندگی سے بھرپور اس کے بازار کی نذر ہوئی۔ ہمارے ایک دوست کے بقول آوارہ گردی کے حوالے سے جن لوگوں کی تربیت گاہ راجہ بازار راولپنڈی رہی ہو ان کی سیاحت کے شیڈول میں ایسا پروگرام شامل ہونا ناگزیر ہے۔

بلغراد کے مرکز کنیز مہیلیہ سٹریٹ کی طرح یہاں بھی جگہ جگہ سیاحوں کے جھرمٹ میں موسیقاروں کے طائفے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے پائے گئے ان میں سے ایک بینڈ کو دو تین دن یہاں ہر شام باقاعدگی سے نغمے بکھیرتے پایا۔ اس کا سربراہ ایک ضعیف العمر شخص تھا جس نے اپنے کوٹ کے سامنے کے حصہ پر مختلف طرح کے تمغے کچھ اس طرح سجائے ہوئے تھے کہ تل دھرنے کو بھی جگہ نہ بچی تھی۔ شام ڈھلے ہم نے ہاسٹل زہرر کی راہ لی۔

ویانا کی سیر اگر اس شہر کے کسی مقام کو دیکھے بغیر ناممکن کہی جا سکتی ہے تو وہ شان برن پیلس ہے۔ اگلی صبح ہماری منزل یہی محل ٹھہری۔ شان برن ویانا سے کافی باہر واقع ہے۔ اس تک پہنچنے کے لیے ہم نے ٹورسٹ گائیڈ کا سہارا لیتے ہوئے 4 نمبر زیر زمین گاڑی پکڑی اور کوئی آدھا گھنٹہ کے سفر کے بعد وہاں پہنچ گئے۔

شان برن، آسٹرین لفظ شان برنن سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ ”چشمہ بہار“ بنتا ہے۔ اس پرشکوہ محل کا سنگ بنیاد لیوپولڈ اول  نے 1694 ء میں رکھا۔ مؤرخین کے بقول اس نے اس محل کی تعمیر کی ذمہ داری مشہور ماہر تعمیرات فشر فان ارلاخ کو سونپتے ہوئے یہ ہدایت کی کہ شان برن ایک ایسا محل ہونا چاہیے کہ جس کے سامنے ورسائی خزاں رسیدہ دکھائی دے۔ یہ محل 1730 ء میں پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ اس میں 1441 کمرے اور 139 باورچی خانے ہیں۔ شان برن کی اندرونی تزئین میں ماریا تھریسا کے ذوق کی جھلک نمایاں ہے جو آج بھی گردش مہ و سال سے بے نیاز اپنی سج دھج برقرار رکھے ہوئے ہے۔ یہ اس کا محبوب محل تھا جہاں اس کی عمر کا بیشتر حصہ گزرا اور اسی محل میں اس کا سولہ عدد بچوں کو جنم دینا اس فراغت کو بھی ظاہر کرتا ہے جو اسے اس دوران حاصل رہی۔

ویانا کی یہ ایک چمکتی صبح تھی۔ جس وقت ہم شان برگ پیلس میں داخل ہوئے اس وقت کوئی گیارہ بجے کا عمل ہو گا۔ محل کے ارد گرد پانچ سو ایکڑ کا کھلا خطہ ہے۔ اس کا سامنے کا حصہ کھلی شکل میں ہے جب کہ عقبی اور بغلی حصے باغات پر مشتمل ہیں۔

اس محل کو اندر سے دیکھنے کے لیے اس کے بائیں حصے کے ایک بڑے ہال میں پانچ کھڑکیوں سے ٹکٹ فروخت ہو رہے تھے۔ ہر کھڑکی پر ٹکٹ حاصل کرنے والوں کی ایک لمبی قطار پہلے سے موجود تھی۔ اس قدر بھیڑ کو دیکھ کر پہلے تو ہم سٹپٹا گئے اور اپنی فطری عجلت پسندی کے نتیجے میں اس امر کا جائزہ لینا شروع کیا کہ آیا کسی قطار کے بیچ میں گھسنے کے کتنے امکانات ہیں۔ لیکن جلد ہی دوسروں کے صبر کو مثال بناتے ہوئے ایسی حرکت کا ارادہ ترک کر دیا اور ایک ایسی قطار میں کھڑے ہو گئے جس میں اپنے اندازے کے مطابق سیاحوں کی تعداد کم تھی۔ کوئی آدھا گھنٹہ کے انتظار کے بعد ہمارا نمبر بھی آ گیا اور ہم محل میں داخل ہو گئے۔

شان برن کا ہر گوشہ اس جاہ و جلال کی تصویر تھا جو شاہوں کی پہچان ہوا کرتی تھی۔ محل کو دیکھ کر میں نے سوچا، یہ بھی کیا گورکھ دھندا ہے کہ اسی جہان رنگ و بو میں کچھ لوگ ایسی عشرت بھری زندگی بسر کرتے ہیں جب کہ اکثریت کی زندگی کا معاملہ ایسا ہوتا ہے کہ۔

کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمیں تو کہیں آسماں نہیں ملتا

آج کے شان برن کا چپہ چپہ اس کے طلسماتی ماضی کی یادگار ہے۔ اس طلسم کدہ نے اپنے سحر سے بہت مشکل سے چھٹکارا حاصل کرنے دیا اور آخر سہ پہر کو ہم اپنے مسکن پر لوٹ آئے۔

مرزا صاحب نے چونکہ اپنی راہنمائے سیاحت کتاب سے ویانا کے ایک پاکستانی ریستوران کا بھی کھوج لگا رکھا تھا لہٰذا انھوں نے اعلان کیا کہ ہم آج شام ایک عرصہ بعد پاکستانی کھانے کی لذت کا مزہ اٹھائیں گے۔ یہ ریستوران بگاسی میں واقع تھا اور اس کا نام کیفے لاہور تھا۔ ریستوران نسبتاً چھوٹا تھا اور اس کی نشان دہی بھی کچھ واضح نہ تھی، اس لیے اسے تلاش کرنے کے لیے کچھ تگ و دو کرنا پڑی۔ ریستوران میں داخل ہوئے تو رات کے آٹھ بج رہے تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی ہوٹل کے مالک اقبال صاحب کاؤنٹر سے باہر آ کر بڑے تپاک سے ملے۔ علیک سلیک ہوئی اور بیٹھنے کے لیے کہا۔ مرزا صاحب کو چوں کہ کھانے میں دیر گوارا نہ تھی لہٰذا انھوں نے تکلف برطرف سب سے پہلے زائچہ خورد و نوش لانے کی فرمائش کی۔ اقبال صاحب نے ہمارے پاس بیٹھے بیٹھے آواز دی

یسنا۔ یسنا

اور پھر اگلے ہی لمحے کاؤنٹر سے ملحقہ کمرے سے ایک لڑکی برآمد ہوئی اقبال صاحب نے اسے مینیو کارڈ لانے کو کہا اور وہ جلدی سے کاؤنٹر سے دو عدد کارڈ اٹھا کر ہمارے پاس آ گئی۔ یسنا پر پہلی نظر پڑتے ہی ہم میں سے ہر ایک کھانا تو کیا اپنا آپ بھی بھول گیا اور کیفیت کچھ یوں ہوئی کہ

ع۔ میں عالم امکان کے امکاں میں نہیں ہوں

ہمارے قریب آنے پر اقبال صاحب نے یسنا اور ہمارا باہمی تعارف کروایا۔ اس کا تعلق سلووینیا سے تھا۔ جرمنی کی ایک یونیورسٹی کی طالبہ تھی آج کل چھٹیوں میں اپنا جیب خرچ نکالنے کی غرض سے ویانا آئی ہوئی تھی۔ یہاں جز وقتی ملازمت کر رہی تھی۔ ہمارے تعارف کے حوالے سے جب اسے پتہ چلا کہ ہم بوسنیا سے آئے ہیں اور اس کی زبان بھی کچھ کچھ جانتے ہیں تو وہ جلد ہی بے تکلف ہو گئی۔ سب نے مینیو کارڈ کو بس تکلفاً ہی دیکھا اور بغیر کسی بحث کے مرزا صاحب کے انتخاب مرغ کڑاہی اور فرائی دال پر اتفاق رائے ہو گیا۔

آرڈر ملتے ہی اقبال صاحب نے کھانے کا انتظام کرنے کی اجازت چاہی اور یسنا (Yesna) کے ہم راہ باورچی خانے کی طرف بڑھے۔ اسی دوران ایک فیملی ریستوران میں داخل ہوئی اور یسنا پلٹ کر انھیں خوش آمدید کہنے آ گئی۔ اقبال صاحب نے ریستوران میں ہماری موجودگی کو مد نظر رکھتے ہوئے ڈیک پر نصرت فتح علی خان کی ایک کیسٹ لگا دی پھر مدھم سروں میں ہال میں یہ غزل گونجنے لگی

خنجر ہیں تیری آنکھیں، تلوار تیری آنکھیں
زندہ نہ رہنے دیں گی اے یار تیری آنکھیں

یسنا کی موجودگی میں یہ مطلع کچھ زیادہ ہی معنی خیز محسوس ہونے لگا اور ایسے لگا کہ شاعر کی ممدوح وہی صورت تھی جو ہال میں موجود ہے۔ ہاں اتنا فرق ضرور تھا کہ آنکھیں ہی کیا وہ تو سراپا خنجر و تلوار تھی۔ کھانا جلد ہی تیار ہو گیا جو یسنا نے بڑے سلیقے کے ساتھ میز پر چن دیا۔ کھانا انتہائی لذیذ تھا اور اس کا لطف وہ گرما گرم چپاتی دو بالا کر رہی تھی جو وقفے وقفے سے میز پر پہنچ رہی تھی۔

کھانا کھانے کے بعد سبز چائے کا دور چلا۔ جب یسنا نے برتن سمیٹتے ہوئے پوچھا کہ کھانا کیسا تھا اور کیا پاکستان میں اس سے بہتر کھانا ریستورانوں میں دستیاب ہوتا ہے تو اس سے پہلے کہ کوئی اور جواب دیتا میں بول پڑا۔

پاکستان میں اس سے بہتر کھانا تو دست یاب ہوتا ہے لیکن آپ سے خوب صورت میزبان وہاں دست یاب ہونا ناممکن ہے۔

اس تعریف پر اس کا چہرہ گلاب ہو گیا۔ وہ بار بار شکریہ ادا کرتی رہی۔ مرزا اور میمن صاحب نے آنکھیں چار کیں اور پھر مسکرا دیے۔ ریستوران سے باہر نکل کر ٹرام اسٹیشن کی طرف جاتے ہوئے مرزا اور میمن صاحب نے چھیڑ خانی شروع کر دی۔ بولے خان صاحب بندے کو آپ جتنا دل پھینک بھی نہیں ہونا چاہیے

دل تو آپ کا بھی وہی گواہی دیتا ہے جو میری زبان پر آیا لیکن شاید آپ کے دل کی بات زبان تک آنے میں آپ کی افسری حائل ہو جاتی ہے۔ میں نے کہا

میمن تو ہنسنے لگا اور مرزا صاحب کچھ خفا سے ہو گئے۔ بولے یسنا میں آخر ایسی کیا بات تھی کہ آپ کی افسری ہوا ہو گئی۔ میں نے جواب دیا کہ وہ ایک ایسی لڑکی تھی جس پر شاعر کا یہ مصرعہ صادق آتا ہے

ع۔ بنا کے مصور نے توڑا قلم
اس مصرعے کی تصویروں کی تو اپنے ہاں بھی کمی نہیں ہے۔ مرزا صاحب بولے

ممکن ہے آپ کا خیال درست ہو جب کہ مجھے تو اکثر حالتوں میں اپنے ہاں کے حسن کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ مصور کو حسن کی تکمیل کی نسبت قلم توڑنے کی زیادہ جلدی تھی۔

ان کے غصے کو ہوا دینے کی خاطر میں نے جواب دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments