عمران خان پر حملہ، پاکستان اور جمہوری آمریت


پاکستان کی سیاست سن 1947 سے ہی تنازعات کا شکار رہی ہے۔ لیاقت علی خان سے شہباز شریف تک ہمارے ملک نے صرف تنازعات، جھوٹ اور فریب کی ہی سیاست دیکھی ہے۔ مگر اب ہماری ملکی سیاست ایک خوفناک دور میں داخل ہو چکی ہے جہاں اندھیر نگری چوپٹ راج کا کالا قانون ہے۔ جہاں انصاف محض آئین کی محافظ کتب ہی میں دیکھنے کو ملتا ہے، جہاں ڈیموکریسی کے نام پر بادشاہت کا نظام متعارف کروایا جا رہا ہے۔

ابھی قوم شہید ارشد شریف کے سوگ سے نکلی نہیں کہ ایک اور سانحہ رونما ہو گیا۔ پرامن حقیقی آزادی مارچ کو لہو لہان کر دیا گیا۔ ارشد شریف کا اٹھایا سوال ”وہ کون تھا“ اب اور مقبول ہو گیا۔ حاکم وقت اور نیوٹرلز کو اب اس راز پر سے بھی پردا اٹھانا ہو گا۔ کپتان کی عوام میں مقبولیت سے ہرگز انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اتنی مقبولیت کے ساتھ اگر معمولی سی بصیرت بھی ہم رکاب ہو جائے تو قیادت ایک قوم کو کھڑا کر سکتی ہے۔ یہی وجہ تھی کچھ ملک دشمن عناصر کپتان سے اتنا خوف زدہ تھے کہ ایسے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتار آئے۔ یہ قاتلانہ حملہ عمران خان پر نہیں بلکہ پاکستان کی جمہوریت پر تھا۔ یہ سانحہ 2007 میں کیا جانے والے جمہوریت کے قتل جس کے قاتل آج بھی کھلی فضا میں سانس لے رہے ہیں کی یاد دلاتا ہے۔

سابقہ وزیر اعظم عمران خان پر قاتلانہ حملہ کرنے والا شخص موقع پر پکڑا گیا، اعتراف جرم بھی ہو گیا، بیان بھی ریکارڈ کر لیا گیا۔ کیا یہ سب اتنا آسان تھا یا پھر عوام کے ساتھ کوئی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ کیا بیان ایسے ریکارڈ کیے جاتے ہیں؟ ایسے میڈیا پر نشر کیے جاتے ہیں؟ کیا ایک سکرپٹیڈ بیان قابل قبول ہے؟ 9 ایم ایم کی پستول سے کلاشنکوف کا برسٹ کیسے ممکن ہے۔ یہ سول اس سانحہ کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔ سوال بہت مگر تاہم جواب کوئی نہیں۔ اس کی سکرپٹیڈ فائرنگ کے پیچھے اصل نشانہ کھنچنے والے نے ٹریگر دبایا مگر اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا۔

بظاہر عوامی رائے کے مطابق اس سانحہ کا ذمہ دار حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو ٹھہرا جا رہا ہے۔ یہ کوئی عام واقعہ نہیں اس کی مکمل اور شفاف تحقیقات ہونا ضروری ہے بصورت دیگر، شکوک و شبہات عوام الناس کے دلوں میں اپنی جگہ بناتے چلے جائیں گے۔

اتنا سب کچھ ہو جانے کے بعد صرف مذمت کافی نہیں۔ اس مارچ کے مطلق خونی مارچ ہونے کی پیشگوئی کرنے والی کٹھ پتلی منظر عام پر کیوں نہیں آ رہا؟ اس سانحہ کے بعد اس بات سے پردہ اٹھ گیا کہ آخر اس پریس کانفرنس کا مطلب کیا تھا۔ کیا اب بھی ہمارے ڈی۔ جی آئی۔ ایس۔ آئی پریس کانفرنس کریں گے یا اس مرتبہ خاموشی اختیار کی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments