پاکستان کے اصل حکمران


کل بروز جمعرات کو جب پاکستان تحریک اتحاد کے لانگ مارچ پے فائرنگ ہوئی اس کے بعد ہی پاکستان میں مختلف جگہوں پے مظاہرین باہر نکل آئے اور ملک کے مختلف جگہوں پے انھوں نے احتجاج کیا اور ملک کا نظام وقتی طور پے درہم برہم کر دیا۔

فائرنگ کرنے والے شخص نے پولیس کے سامنے یہ موقف رکھا کہ عمران خان ملک میں چونکہ انتشار پھیلا رہا تھا جس پے بقول فائرنگ کرنے والے شخص کو برا لگتا تھا اور اس نے عمران خان کو قتل کرنے کا پلان بنایا اور اسی وجہ سے اس نے عمران خان پے گوجرانوالہ کے نزدیک اس وقت فائرنگ کی جب وہ لانگ مارچ کے کنٹینر پے کھڑے ہو کر مارچ کی شرکا سے ہاتھ ہلا رہا تھا۔

اس فائرنگ کے نتیجے میں پاکستان تحریک اتحاد کے بانی عمران خان سمیت چودہ افراد معمولی زخمی ہوئے اور ایک بد قسمت کارکن کی موت واقع ہوئی۔

کل جو ہوا اس عمل کی ہر سیاستدان نے، چاہے وہ عمران اور اس کے پارٹی سے کتنا ہی اختلاف رکھتا ہو ، پرزور مذمت کی اور عمران خان کے صحت کے حوالے سے نیک خواہشات کا بھی اظہار کیا جو ایک بہت ہی اچھا عمل تھا مگر واقعے کے فورا بعد سوشل میڈیا، ڈجیٹل میڈیا کے مختلف ٹی وی چینلز پے مختلف قسم کے رائے تجزیے نشر ہونا شروع ہو گئے جو لوگ عمران خان اور اس کے پارٹی کے مخالف تھے۔ اس کو فیس سیونگ سے جوڑ کر یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے تھے اور ہیں کہ یہ واقعہ ہوا نہیں بلکہ کروایا گیا ہے جبکہ دوسری طرف تحریک انصاف سے منسلک پارٹی عہدیدار، مفکر صحافی اور ہمدرد اس کے جڑ راولپنڈی میں قائم اسٹیبلشمنٹ کے مضبوط قلعے والوں سے جوڑ رہے تھے اور ساتھ ساتھ پارٹی کے اہم عہدے داروں نے آخر میں ٹی وی پے آخر تین ناموں کا ذکر کیا جس میں پاکستان کے موجودہ وزیراعظم، وزیر داخلہ اور اسلام آباد میں تعینات ایک جنرل کا نام شامل کیا

دوسری طرف حکومت کے ترجمان وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے میڈیا سے بات کی اور یہ موقف رکھا کہ پنجاب میں حکومت ہی تحریک انصاف کی ہے پنجاب انتظامیہ کا تمام کنٹرول صوبے کے وزیر اعلی کے پاس ہوتا ہے اور وہ ہی ان کے اصل ذمے دار ہیں

میرے خیال میں سیاستدانوں کے الزامات کے برعکس حقیقی طور پے دیکھا جائے تو پاکستان کی تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہے کہ چاہے وہ کوئی بھی صوبہ ہو جن لوگوں کی اصل حکومت ہے وہ کسی بھی صوبے میں کچھ بھی کر سکتے ہیں جیسے کہ ماضی میں 2020 میں سندھ میں ایک نجی ہوٹل کے دروازے توڑ کر مریم نواز کے خاوند کیپٹن صفدر کو گرفتار کر لیا گیا تھا اس وقت بھی اسی طرح کا ماحول تھا اور اسی طرح کی بیان بازی ہو رہی تھی یعنی اس وقت خلیفہ وقت عمران حکومت کے وزیروں کا بھی یہ ہی موقف تھا کہ چونکہ سندھ میں حکومت پی پی پی کی ہے تو اس کی ذمے داری سندھ کی انتظامیہ اور وزیر اعلی پے عائد ہوتی ہے

مگر حقیقت میں اس وقت بھی ہمیں معلوم ہوا کہ اصل حقیقت اور حکومت کس کے ہاتھ میں ہوتا ہے یعنی اس وقت بھی آئی جی سندھ نے بھی قلعے کے احکامات ماننے سے انکار کیا تو اس کو قلعے والے زبردستی اپنے ساتھ اغوا کر کے لیے گئے تھے پھر ڈرا دھمکا کے ہوٹل کے دروازے پولیس سے تڑوائے گئے اور کیپٹن صفدر کو گرفتار کیا گیا تھا

پاکستانی معاشرے کی بدقسمتی ہے کہ کل کے سیاستدان، لکھاری، مفکر جو راولپنڈی کو برا بھلا کہنے تھے اور مظلوموں کی آواز بنتے رہے تھے مظلوموں اور ظلم کے خلاف آواز بن رہے تھے ان میں سے بیشتر آج کل یا تو اسی قلعے والوں کی متعلق نرم گوشہ رکھتے ہیں یا پھر کچھ بولتے ہی نہیں اور دوسری طرف مدینہ ریاست کے پیروکار سیاستدان، لکھاری اور مفکر جو ماضی میں اسی قلعے والوں کے خلاف ایک لفظ بھی گوارا نہیں کرتے تھے آج انہیں کو میر جعفر اور صادق کے لقب سے نواز کر کرسی کے حصول کے لیے ناجائز اور غیر قانونی طور پے آواز دے رہے تھے جب اس سے بات نہیں بنی تو یہ لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا

میں نہیں سمجھتا اگر خلیفہ عمران دوبارہ آیا یا پھر یہ حکومت رہے گی تو حالت تبدیل ہونگے اس معاشرے کی بدقسمتی یہ ہے دونوں صورت میں حالت وہی ہونگے جو آج ہیں کیونکہ قلعے کا ہاتھی جمہوریت اور جمہوری اداروں کو پروان چڑھنے نہیں دے رہا ہے

مالک نے بس کا ڈرائیور اور مسافر (لکھاری، مفکر، صحافی، میڈیا، انسانی حقوق کے علمبردار) تبدیل کر دیے یعنی بس کا ڈرائیور پہلے خلیفہ عمران خان تھا اور ابھی شہباز شریف ہے۔

میرے خیال میں اگر سیاستدانوں، مفکرین اور صحافیوں کو اس معاشرے کو بچانا ہے تو سب سے پہلے سب مل کر بس کی اصل ملکیت حاصل کرنی ہے، یعنی چوکیدار کا کام ملکیت نہیں بلکہ ملکیت کی حفاظت ہے تمام سیاستدانوں کو مل کر بیٹھ کر چائے وہ خلیفہ کیوں نہیں ہو سب کو ایک ساتھ مل کر یہ فیصلہ کرنا ہے کہ بہت ہو چکا اب ہم کسی بھی صورت میں اصل جمہوریت کی اصول سے ایک انچ بھی دستبردار نہیں ہونگے یقین مانیے اس معاشرے کا اول اور آخری بنیادی مسئلہ حقیقی اور صرف حقیقی جمہوریت ہی ہے نہیں تو آج بھی پچھلے ستر سالوں سے جمہوریت تو ہے مگر برائے نام ہے اصل حکومت کسی اور کے پاس ہے کل کوئی اور آ جائے گا جمہوریت کا صرف دعویدار ہو گا مگر پھر بھی اصل حکومت انہیں کے پاس رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments