محبت یا عادت


ہمارا خمیر محبت سے گوندھا گیا ہے اسی لیے محبت ہماری ذات کی تکملیت کے لیے ناگزیر ہے مگر ساتھ ہی یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ہماری ذات کے گرد رقص کرتی ہر محبت محبت ہی ہوتی ہے یا محض ہماری وقتی عادت۔ یہ حقیقت ہے کہ کچھ محبتیں، محبتیں نہیں ہوتیں بلکہ وہ ہماری عادتیں ہوتی ہیں اور کسی نشئی کی طرح ہم ان کے عادی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ نشہ ٹوٹا، ساتھ چھوٹا، عادتیں بھی ختم۔ اور پھر محبت کا نعرہ اپنی تمام تر جذباتیت کے ساتھ کہیں حلق میں ہی اٹکا رہ جاتا ہے۔ نہ اگلتے بنے، نہ نگلتے بنے۔ شش و پنچ میں مبتلا کردینے والے تعلق ہمیشہ سے نظر ثانی چاہتے ہیں۔

درحقیقت یہ وہ محبتیں نہیں ہوتیں جو ہماری زندگی میں ضروری ہوتی ہیں بلکہ یہ وہ محبتیں ہوتی ہیں جنہیں ہم غیر ضروری نبھا رہے ہوتے ہیں اور ان غیر ضروری محبتوں کو نبھانے کی فکر میں اپنی زندگی میں شامل ان ضروری محبتوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں جو ہمارے وجود کی بقا کے لیے ناگزیر ہوتی ہیں۔

یہ عادتیں بھی تو ہماری ذات میں مجبوراً قید اس بے صبر قیدی کی طرح ہوتی ہیں جو بیڑیاں توڑ کر زنداں سے فرار چاہتا ہے۔ جبکہ محبت برف میں دبے ان پودوں کی مانند ہوتی ہے جو اپنی دوبارہ نمو کے لیے سخت سرد موسم کے گزرنے کا انتظار کرتی ہے اور ہمیں برداشت کرنا سکھاتی ہے۔ اپنی پسند یا ناپسند کو قربان کرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ اپنی ضرورت کو دوسرے کی خوشی پر قربان کر دینے کی توانائی دیتی ہے۔ عادتیں خودغرض ہوتی ہیں ان کو ایثار و قربانی سے کوئی غرض نہیں ہوتی کیونکہ وہ آپ کی ضرورت بن جاتی ہیں گر پوری نہ ہوں تو بدن ٹوٹنے لگتا ہے اور دنیا تہس نہس کر دینے کا من کرتا ہے۔ جبکہ محبتیں برداشت کی چاک پر گھوم کر اپنی تکمیلیت کے مراحل طے کرتی ہیں۔ یہ آپ کی برداشت کا امتحان لیتی ہیں۔ محبت کی شدت وقت کے ساتھ کم یا زیادہ تو ہو سکتی ہے مگر ختم نہیں ہو سکتی۔ اگر ختم ہوئی تو وہ عادت تھی محبت ہرگز نہیں۔

کیا ستم ہے کہ کچھ عادتوں کو ہم محبتوں کا پیراہن اڑھا کر کسی بوجھ کی طرح اپنی پیٹھ پر لادے لادے پھر رہے ہوتے ہیں اور ان لاحاصل محبتوں کو کسی فرض کی طرح نبھانے میں ہم اپنی ساری توانائیاں صرف کر دیتے ہیں اور پھر نتیجتاً خود ہی ہلکان ہو جاتے ہیں مگر سمجھ نہیں پاتے کہ یہ محبت نہیں فقط عادت ہے اور وقتی دلچسپی رکھتی ہے۔

اپنی ذات سے منسلک رشتوں اور ان پیارے رشتوں سے وابستہ غیر مشروط محبتوں کی سمجھ اور پھر خود کی پرکھ اہم ہے۔ نت نئی راہوں پر چلنے کی خواہش دل میں لیے ان شوق کے مارے لوگوں کو اکثر یہ عادتیں جنہیں وہ غلطی سے محبتیں سمجھ بیٹھتے ہیں، مجبور کر دیتی ہیں اور پھر ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو مفلوج کر دیتی ہیں۔ یہ عادتیں انہیں جلد یا بدیر اس مقام تک لے آتی ہیں جہاں پہنچ کر وہ اپنی زندگی میں شامل رشتوں کی چاشنی میں گھلی پرخلوص محبتوں کی سمجھ کھو بیٹھتے ہیں اور ان کو شک کی نگاہوں سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ عادتیں اتنی پر فریب ہوتی ہیں کہ پھر یہ محبتیں ان کو اپنے پاؤں کی بیڑی اور گلے میں پڑا طوق لگنا شروع ہو جاتی ہیں۔

دراصل یہ عادتیں کھلا دھوکہ ہوتی ہیں۔ مگر چونکہ عقل پر پردہ پڑا ہوتا ہے اس لیے اس دھوکے کی اس وقت تک سمجھ نہیں آتی جب تک اس کو کھا نہ لیا جائے۔ اب دھوکے کی تو خاصیت ہی یہی ہوتی ہے کہ دھوکہ نہایت خوبصورتی سے اعتماد و اعتبار کے لفافے میں لپیٹ کر سامنے والے کے منہ پر دے مارا جاتا ہے۔ جب تک چوٹ کا احساس ہوتا ہے اور زخم دکھائی دینے لگتا ہے یہ دھوکہ کھایا جا چکا ہوتا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ ہر عادت بری ہوتی ہے یا نقصان ہی دیتی ہے مگر محبت کے نقاب میں یہ وہ عادتیں ہوتی ہیں جو آہستہ آہستہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو سلب کر ڈالتی ہیں اور نتیجتاً عام زندگی میں کارکردگی متاثر ہوتی جاتی ہے۔ دل بغاوت کرتا ہے، شخصیت کا معیار پہلے جیسا نہیں رہ پاتا، وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔ کہیں دل نہیں لگتا، بے چینی اور بے خیالی کی بنیادی وجہ سوچ کے دھاروں کا بے سمت ہو جانا ہوتا ہے اور کسی بھی کام پر پہلے جیسی توجہ مرکوز نہیں رہ پاتی۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ان غیر اہم محبتوں کے سنگ بتائے لمحاتی خوشیوں کی قیمت ہمارے اپنے اطراف موجود پرخلوص محبتوں کے ساتھ رویوں کی تبدیلی اور لہجوں کی ترشی و کڑواہٹ پر طے ہوتی ہے۔ عموماً یہ قیمت بھاری پڑتی ہے۔

کسی جونک کی طرح وجود سے چمٹی یہ غیر ضروری محبتیں دھیرے دھیرے دل و دماغ کی تمام تر توانائیاں چوس رہی ہوتی ہیں اور دن بدن لاغر کرتی جاتی ہیں مگر نشے کی طلب ختم ہو کر ہی نہیں دیتی۔

نظریہ ضرورت عموماً ایسی محبتوں کا بنیادی ماخذ ہوتا ہے۔ جو کچھ ہمیں چاہیے یا جو بھی ہماری طلب ہوتی ہے اگر وہ ہمیں کہیں سے ملنے لگے تو ہم اندھا دھند اس کی طرف بھاگتے ہیں۔ بغیر کچھ سوچے سمجھے حتی کہ کبھی کبھی یہ طلب توجہ کی شکل میں بھی اپنا احساس دلاتی ہے اور محبت ہونے کا دھوکہ دیتی ہے۔ اب کیونکہ طلب کی فراہمی سکون دیتی ہے اور پھر جب اسی طلب کو توجہ اور وقتی قربت کی شکل میں بھرپور رسد ملنے لگے تو ہم دنیا و مافیہا سے گم ہو کر اس وقتی محبت میں ڈوب جاتے ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ بس یہی سب کچھ ہے۔ مگر درحقیقت ایسا ہوتا نہیں ہے۔ محبتوں کا یہ جوار بھاٹا جس تیزی سے اٹھتا ہے اسی تیزی سے بیٹھ بھی جاتا ہے۔

کبھی کبھی دل اور دماغ کی طلب اتنی بڑھ جاتی ہے کہ پھر ذرا سی بھی توجہ یا محبت اپنے جلوے بکھیرنا شروع کر دیتی ہے اور اپنے طلسم میں جکڑ لیتی ہے۔ اک نئے دماغ کو جاننے کی بھوک اور اندر دبے مچلتے جذبات کی تسکین، یہ محبت کے دو ایسے دروازے ہیں جن پر جب بھی کوئی دستک دے ہم اپنے اندر کے دروازے کھولتے چلے جاتے ہیں۔

اور جب اندر کے در کھلنے لگیں تو پھر انسان کب کیسے کون سی بھول بھلیوں میں گم ہو جائے کہاں پتہ لگتا ہے۔ پتہ تو جب لگتا ہے کہ جب اس کے گرد اس سے محبت کرنے والے لوگ اس سے مایوس ہو کر اس بھیڑ میں گم ہو جاتے ہیں اور وہ خود کو بھیڑ میں بھی تنہا پاتا ہے۔ پھر یہی وقت ہوتا ہے جب وہ اپنا محاسبہ کرتا ہے کہ وہ محبتیں بانٹنے والا تھا یا انہیں اپنا حق سمجھ کر وصول کرنے والا۔ اور جب انسان اپنا محاسبہ کرنے لگے تو پھر اکثر وہ اپنے خلاف ہی جاتا ہے۔

دیر سے ہی سہی مگر جب آنکھیں کھلتی ہیں تو محبتیں سمجھ آنا شروع ہوجاتی ہیں، ان کی قدر محسوس ہوتی ہے۔ بس پھر یہی وہ اسٹیج ہوتا ہے جب وہ اپنی خود ساختہ عادت نما محبتوں کو چھوڑ کر ان پرخلوص محبتوں کا اک نئی شدت سے بھرپور انداز میں جواب دینے لگتا ہے۔ وہ محبتیں جن کی توجہ اور خلوص کا محور ہمیشہ سے وہ خود رہا ہوتا ہے۔

محبت ہو یا عادت، چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو اگر وہ زندگی میں اپنے توازن کا پیمانہ کھو دے تو وہ نہ صرف ہماری ذات بلکہ ہماری ذات سے وابستہ رشتوں کے لیے بھی نقصان دہ ہو جاتی ہے۔

محبت زندگی کی اساس ہے مگر یہ ضروری ہے کہ جن محبتوں کی بنیاد پر جذبات و احساسات کی عمارت تعمیر ہو رہی ہے ان محبتوں کی بنیاد بھی سمجھی جائے تاکہ ان محبتوں سے صحیح معنوں میں زندگی کا لطف حاصل کیا جا سکے نہ کہ ان محبتوں کے باعث زندگی ہی بے کیف و بد مزہ ہو کر رہ جائے اور اپنوں کی دل آزاری کا باعث بنے۔ لہٰذا عادتوں کو بس عادتوں کے فریم میں ہی سجائیے اور پرخلوص محبتوں کو اپنے دل کی مسند پر نہایت اہتمام و احترام سے بٹھایے کیوں کہ سچی اور حقیقی محبتوں کا توڑ کوئی نہیں، کہیں نہیں، کسی کے پاس نہیں۔

لبنیٰ مقبول
Latest posts by لبنیٰ مقبول (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments