زرعی ملک میں گندم درآمد کیوں ہو رہی ہے؟


اڑتی اڑتی خبر سن لیجیے، حکومت نے روس سے 2.6 ملین ٹن گندم درآمد کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ اب یہ بھاشن مت دیجیئے گا کہ سیلاب کی وجہ سے گندم کی پیداوار کم ہوئی، گندم کی درآمد کا سلسلہ پچھلی دو تین حکومتوں سے چلا آ رہا ہے۔

پاکستان میں گندم کی کمی کی بڑی وجہ کم پیداوار ہونا تو ہے ہی، بے ہنگم آبادی کے پھیلاؤ کی وجہ سے مانگ میں اضافہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ہو رہا ہے، جبکہ ہماری مجموعی پیداوار اتنی ہی ہے جتنی آج سے دس بیس سال پہلے تھی۔ ہماری تمام حکومتوں سے ایک غلطی ہوئی وہ تھی کسان کو سبسڈی نا دینے کی، ہم نے زراعت کو جدید ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے پر کوئی کام نہیں کیا۔ 2020 میں بھی کسان وہی 1980۔ 90 کی دہائی والے طریقوں سے کاشتکاری کر رہا ہے۔

مسلسل مہنگائی میں کسان کی لاگت میں تو بے انتہا اضافہ ہوا ہے، لیکن اس کی آمدن اس حساب سے نہیں بڑھ رہی۔ کسان محنت تو کرتا ہے، لیکن اسے معاوضے کے لیے سرمایہ کار کی طرف چکر لگانا پڑتے ہیں، جس کی وجہ سے کسان بددل ہوتا گیا۔ ایسے کئی واقعات رپورٹ ہوئے کہ شوگر ملز مالکان نے کسان کو حکومتی ریٹ سے کم ادائیگی کی اور وہ بھی بہت تاخیر سے کی۔ اس پر باقاعدہ حکومتی سطح پر تحقیقات بھی کروائی گئیں۔

جو سب سے بڑی غلطی ہم سے ہوئی وہ زرعی زرخیز زمین پر ہاؤسنگ سوسائٹیز و کالونیوں کی بھرمار کر دی گئی، جہاں جہاں سے نیشنل ہائی وے / موٹروے گزری، سرمایہ دار نے کسان کو اونے پونے دام دے کر زمین خرید کر کمرشل مارکیٹس اور ہاؤسنگ سوسائٹیز بنا ڈالی، حکومت و اپوزیشن کے لیڈران ان میں شیئر ہولڈر بن گئے۔ فائدہ دیکھتے دیکھتے کسانوں نے بھی مل بیٹھ کر زمینیں بیچنا شروع کر دی۔ یوں زرعی زمینوں پر کمرشل مارکیٹس کی بھرمار کر دی گئی۔

کچھ ہمارے پیارے اسلام آباد کے ہمسایہ کو پراپرٹی ڈیلنگ کا اتنا شوق تھا (اور ہے ) کہ اولیاء اللہ کے شہر میں نئی کالونی بنانی تھا، پتا نہیں کتنے سو ایکٹر آموں کے باغات اور زرعی اراضی تباہ کر اپنی فتح کا پرچم لہرا ڈالا۔ اوکاڑہ کے کسانوں نے تھوڑی مزاحمت دکھائی، تو ان کا وہ حشر کیا گیا کہ خدا کی پناہ۔ کچھ ہمارے پیارے بحریہ ٹاؤن والے ہیں، جہاں زرعی اراضی و خالی رقبہ دیکھتے ہیں نیا ٹاؤن بنا ڈالتے ہیں، اگر کسان روئے تو خبر تک نہیں چلنے دیتے۔ ابھی پرویز الہی کی حکومت نے صوبہ کی پولیس کے ذریعے زرعی زمین ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کو دلوائی ہے۔

اب ہمارے دو مسئلے ہیں، ایک زرعی زمین کم ہوتی جا رہی ہے، دوسرا جو زمین بچی ہوئی ہے، وہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اپنی زرخیزی کھوتی چلی جا رہی ہے۔ پوری دنیا میں زرعی اراضی کی زرخیزی برقرار رکھنے کے لیے جدید سائنسی تحقیق سے کاشت کاری کو فروغ دے رہی ہے، جبکہ وطن عزیز میں اس پر کوئی کام نہیں ہو رہا۔ کاشتکاری کو جدید ٹیکنالوجی پر منتقل کرنا تو دور کی بات ہے، ہم اپنی بچی کچھی زرعی اراضی کو بھی بنجر بنا رہے ہیں۔

دو جھوٹ جو مطالعہ پاکستان میں پڑھ پڑھ کر ہمارے کان پک چکے ہیں، ایک پاکستان زرعی ملک ہے، دوسرا یہ کہ دنیا کا جدید ترین نہری نظام پاکستان میں ہے۔ اگر پہلا جھوٹ سچ ہوتا تو آج ہم گندم درآمد نا کر رہے ہوتے، دوسرا سچ ہوتا تو ہم سیلاب سے نا دوچار ہوتے۔

باقی دنیا کسانوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے چھوٹے ڈیم بنا رہی ہے تاکہ کاشتکاری کے لیے قدرتی پانی کو محفوظ کر کے اسے کاشتکاری کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ بارش کے پانی کو محفوظ کر کے اسے بھی کاشتکاری کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک نے، نہروں کے اوپر سولر پینل لگا دیے ہیں، اس کے دو فائدے ہو رہے ہیں، ایک شمسی توانائی سے بجلی پیدا ہو رہی ہے، دوسرا نہری پانی بخارات کی شکل میں ضائع نہیں ہو پا رہا۔ کیا ہم نے اس بابت کوئی قدم اٹھایا؟ جواب نفی میں ہو گا۔ ہماری اجتماعی ناکامی کی اس سے بڑی مثال کیا ہو گی، اگر ہمارے ہاں معمول سے زیادہ بارشیں ہو جائیں، تو ہم اس پانی کو ذخیرہ نہیں کر سکتے، یہ سارا پانی سمندر میں جا گرتا ہے، اور سیلاب کے بعد خشک سالی ہماری منتظر ہوتی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک کسان کو ہر چیز پر سبسڈی دیتے ہیں، خواہ وہ کھاد ہو، زرعی آلات ہوں یا کم مارک اپ پر زرعی قرضے، ان سے کسان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، اور وہ ملکی معیشت میں اپنا بھرپور حصہ ڈالتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کسان پیکج کا اعلان تو کیا ہے، کیا اس ہر عمل درآمد ہو گا؟ یہ سوال جواب طلب ہے۔

اس سارے مسئلے کا حل کیا ہے؟ ہمیں سب سے پہلے آبادی کو کنٹرول کرنا ہو گا۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ آپ کے وسائل ختم ہوتے جا رہے ہیں جبکہ مانگ میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

زرعی اراضی پر ہاؤسنگ سوسائٹیز میں مکمل پابندی عائد کی جائے۔ حکومت قانون سازی کرے کہ کسی کو بھی زرعی زمین کو تباہ کر کے نئی ہاؤسنگ سوسائٹی بنانے کی اجازت نہیں ملے گی۔

کسان کو فل سبسڈی دی جائے۔ کسان کو آسان اقساط اور مارک اپ پر زرعی قرضے دیے جانے چاہیے۔ کسان کو وقت پر معاوضے کی ادائیگی کا مربوط نظام وقت کی اشد ضرورت ہے۔

اگر ہم نے یہ کام نا کیے، تو وہ دن دور نہیں، جب کسی ہاؤسنگ سوسائٹی میں بیٹھ کر ہم سب یہ سوچ رہے ہوں گے کہ اب ہم گندم کہاں سے کھائیں کیونکہ جو زمین گندم دیتی تھی وہاں اب کنکریٹ کی دیواریں ہمارا منہ چڑا رہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments