پریم چند کے افسانے ”حج اکبر“ کا تجزیہ


حج پیکج پر 7 لاکھ روپیہ لاگت آتی ہے! کیوں اتنا مہنگا ہے؟ مجھے معلوم ہے کہ اگر میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کر بھی لیتا ہوں اور مجھے بی پی ایس۔ 17 گریڈ کی تنخواہ ملتی ہے، تب بھی میں حج کا متحمل نہیں ہو سکوں گا۔ میں کلفٹن میں نہیں رہتا ہوں۔ جبکہ میں کبھی حج پر نہیں گیا، نہ ہی مجھے ایسا کرنے کا حق ہے، میں ”حج اکبر“ پڑھنے سے حج کے جمال کو سمجھ سکتا ہوں۔ اسلامی روایت میں حج سب سے اہم زیارت ہے جو تمام مسلمانوں کو اپنے مالی اور ذاتی حالات کے لحاظ سے اس فرض کو ادا کرنا چاہیے کہ وہ اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار مکہ شریف جا سکیں۔ حج کبھی تفریح کا سفر ہرگز نہیں ہے۔ حج لگن، اعتراف اور تسلیم کا سفر ہے۔

پریم چند ”حج اکبر“ میں فکر کی موزونیت، اسلوب کی نفاست اور تشبیہات کی فنکاری کی ہم آہنگی کر کے زیارت کے حوالے سے اس جوہر کو بیان کرتے ہیں کہ اگر انسان، زندگی کے تغیرات میں الجھا ہونے کے باوجود، اپنی روحانی ایثار و فداکاری کی صفت کو بیدار کرتے ہیں، پچھتاؤے، بے چینی اور تلخی کے تیز و تند باد کو روک سکے اور انسان متانت کی شمع بنتے ہوئے انسانیت کو منور کر سکے۔ پریم چند کو ایک مہتواکانکشی مصنف کہنے کے نسبت ہم اسے ایک باکمال پسند مصنف تصور کر سکتے ہیں جو اس بات سے واقف ہے کہ مصنف کو ادبی صناع و بدائع کے ذریعہ انسانی جذبات کی تال اور انسانیت کی لہروں کو جوڑ کر اعلی جمالیاتی معیار تک پہنچنے کے مقصد کو پورا کرنا چاہیے۔

یہ کہنا غلط ہو گا کہ ”حج اکبر“ صرف حج کے متعلق ایک مذہبی کہانی ہے۔ اس کے بجائے، ہمیں اسے انسانی رشتوں کی نزاکت اور نجات کے امکانات کے حوالے سے ایک افسانہ سمجھنا چاہیے۔ اگرچہ اس افسانے کا پلاٹ بہت سادہ ہے، یہاں پریم چند ایک احساس رفتار پیدا کرتے ہیں جو چار کرداروں کے درمیان ہونے والی الجھن اور کشمکش کی شدت کو ظاہر کرتی ہے۔ اس افسانے میں کوئی بیانیہ خلا اور موڑ نہیں ہے اور قارئین کو تمام کرداروں کی ہیئت اور ارادے کا اندازہ لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ یہ افسانہ پھیکا اور حیران کن ہے۔ اس کے بجائے، کردار نگاری کے بارے میں مصنف کی مہارت قارئین پر ایک گہرا جمالیاتی تاثر چھوڑتی ہے۔ صابر حسین ایک خلوت پسند شوہر ہے جو اپنی ذات اور شخصیت کے بارے میں فکر مند ہونے کے باوجود اپنے خاندان کے لئے قربانی دے سکتا ہے۔ بیوی شاکرہ اپنی ہی حماقتی، جارحانہ اور قابل ملامت شخصیت کا شکار ہو چکی ہے۔ آج کے حسابی بچوں کے مقابلے میں نصیر معاشرے میں ایک نایاب جو ہر ثابت ہوتا ہے جو اپنی معصوم کردار کے باوجود انسانی رشتوں کی نزاکت کو سمجھتا ہے۔ عباسی ایک عاجز، مہربان اور ظرف دل سے ملا مال خاتون ہیں جو اپنی بد قسمتی کے باوجود شکرگزاری اور لگن کے جذبہ سے بھری ہوئی ہیں۔

افسانے کا مرکزی پیغام یہ ہے کہ صرف اعتراف کی ہمت و شجاعت سے ہی ہم روحانی نجات پا سکتے ہیں۔ بیوی اپنے غرور کی وجہ سے معافی مانگنے کو تیار نہیں۔ اس کے بر عکس، عباسی، بیوی کے الزامات کے باوجود، نصیر کی محبت اور لگاؤ میں کمی نہیں کرتی۔ اگر چہ عباسی کے پاس صابر حسین کے خاندان کو اپنی زندگی میں محض ایک راہگیر سمجھنے کا جواز ہے، لیکن عباسی کے پاس اس خاندان کی طرف احساس شکرگزاری کے سوائے کوئی دوسرے احساس نہیں ہیں۔ عباسی کا خیال ہے کہ ایثار و فداکاری کا ہر موقع اسے دنیاوی فکر سے آزاد کر کے اسے آسمانی عشق کا راستہ دکھاتا ہے۔

میری رائے یہ ہے کہ ”حج اکبر“ کا اختتام پریم چند کے بیانیہ کی طاقت کا نمونہ ہے۔ افسانے میں ادا کیے جانے والے کہی اور ان کہی باتوں کو ان دو جملوں میں پوری طرح سے سمیٹ دیا گیا ہے۔

عباسی بولی، ”کیوں بیٹا! مجھے تو تو نے کعبہ شریف نہ جانے دیا۔ میرے حج کا ثواب کون دے گا؟“
صابر حسین نے مسکرا کر کہا، ”تمہیں اس سے کہیں زیادہ ثواب ہو گیا۔ اس حج کا نام حج اکبر ہے۔“

حج صرف اپنی اصلاح کا سفر ہرگز نہیں، بلکہ ہم عبادات کے ذریعہ اللہ پاک کے سامنے اپنے اطاعت کا اعلان کرتے ہیں۔ حج کا اخری پیغام یہ ہے کہ نجات ممکن ہے اگر ہم نبی پاک ﷺ کے نقش قدم پر چلیں۔ عباسی نے اپنا حج مکمل نہ کرنے کے باوجود حضور کے نقش قدم پر چلنے کا انتخاب کیا۔ عباسی صرف ایک عام عورت یا ایک افسانوی کردار ہرگز نہیں، بلکہ وہ ایک ”ہیرو“ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments