آ نی بھڑی کجھ وین پا لیئؔے


بات فیس بک پہ ایک بظاہر برائے تفنن طبع پوسٹ سے شروع ہوئی۔ ”اپنے مسئلے، تکلیفیں ٹینشن، وغیرہ کی پوری فہرست دیتے بطور دوست و مشیر رابطہ کرنے کی درخواست“ کے ساتھ ہر مسئلے کا غبار نکالنے کی فیس بھی درج تھی۔ آخری آئٹم “ساتھ رونا دھونا” تھی۔ اب یہ خدمات تو مختلف رنگوں اور شکلوں میں رضاکارانہ یا معاوضہ پر دنیا کے اکثر علاقوں میں مہیا ہیں۔ تاہم، رونا دھونا، پھر بہت پیچھے لے جا چکا تھا۔

چنیوٹ کی تنگ سی گلی میں ماں کا ہاتھ پکڑے اندر داخل ہوا تو خواتین جنازہ سامنے رکھے کچھ آہستہ کچھ اونچی آواز میں بین کرتے مرحومہ کے محاسن اور اپنے غم کا اظہار فرما رہی تھیں۔ اور کچھ گپ شپ میں مشغول تھیں۔ اچانک ان گپ شپ کرتی خواتین میں سے ایک ساتھ بیٹھی خاتون کو مخاطب ہوئی ”آ نی بھڑی ہن کجھ وین پا لیے“ (آؤ بہن اب کچھ بین بھی کر لیں) اب دونوں خواتین نے آمنے سامنے بیٹھ ٹانگیں سامنے پھیلا لیں، اس طرح کہ ہر ایک کے پاؤں سامنے والی کے کولہے کو چھو رہے تھے۔ اب ہاتھ پھیلائے گئے اور دونوں کے ہاتھ ایک دوسرے کے کندھوں پہ رکھے جا چکے تھے۔ اچانک دونوں نے اس زور سے چیخ ماری کہ سب کی توجہ مبذول ہو گئی۔ اس چیخ کے بعد دونوں اسی طرح کندھوں پہ ہاتھ رکھے آگے پیچھے جھولنا شروع ہوئیں اب ان کے رونے کی آواز ابھر رہی تھیں اور ساتھ ہی مرحومہ سے تعلق، مرحومہ کے محاسن، ان کے چلے جانے کا دکھ، ان کے بیٹوں بیٹیوں بہنوں اقارب کے فردا ”فردا“ نام لے اپنی ہمدردی کا اظہار پوری لے کے ساتھ فرما رہی تھیں۔

چند منٹ بعد وہ خاموش ہو چکی تھیں۔ اب سات آٹھ سالہ بچے کی جس کو اس عمر میں اس سانحہ کی نوعیت کا ادراک نہ تھا، پہلی چیخ اور باہیں دوسری کے کندھے پر اور پاؤں سامنے والی کے کولہے پہ ٹکا آگے پیچھے جھولا لینا شروع کرتے دیکھتے ہی ہنسی چھوٹ چکی تھی اور ماں کی گھورتی نظروں سے ڈرتے صحن کی دیوار کے ساتھ جا لگا تھا جہاں ہم عمر بھانجے، کزن، اور دوسرے بچے پہلے ہی منہ پر ہاتھ رکھے ہنسی ضبط کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ آخر ہر طرف سے گھورتی نظریں ہمیں گلی میں نکال چکی تھیں۔

” بھڑی“ کا لفظ چنیوٹ کی خالص بولی میں خواتین اپنے ساتھ یا قریب بیٹھی کسی بھی خاتون کو مخاطب کرنے کے لئے استعمال کرتیں۔ اور اس فقرے کا مطلب یہ سمجھئے کہ آؤ بہن یا ساتھی یا سہیلی اب ہم اپنے غم کا اظہار کرنے کے لئے بین ڈال لیں، اونچی آواز میں رو دھو لیں۔ اس طرح شاید اہل خانہ کی توجہ حاصل کرنا بھی مقصود ہو کہ ان کو اپنے شریک غم کی آگاہی ہو جائے۔

چنیوٹ میں یہ تعزیتی واحد اس رسم کے ساتھ مجلس تھی جس میں شرکت کرنے، دیکھنے کا موقع ملا۔ کچھ عرصہ بعد جب پورا خاندان دو تین تانگے بھر دریائے چناب کنارے مندر کی دریا کے پانی میں ڈوبی سیڑھیوں والی بالکونی میں ( مندر معدوم ہو چکا اور بس نظارہ دل میں نقش رہ گیا ) پک نک منا رہا تھا تو ہم، ہم عمر بچے اپنے فقرے ایجاد کرتے سوگ کے اس انداز کو دہراتے رہے۔

اس کے بعد جو پہلی مجلس اس قسم کی یاد ہے وہ شاید انیس سو چھپن میں نانا مرحوم کی وفات کے وقت کی تھی۔ خواتین پرسہ کے لئے آتیں۔ سب سے پہلے ہماری نانی، پھر ماں خالہ، ممانی یعنی حفظ مراتب کے لحاظ سے اسی طرح ٹانگیں کولہوں سے چپکائے ہاتھ کندھوں پہ رکھے آگے پیچھے جھولے کی طرح ہوتے درد بھرے فقرے لے کے ساتھ بولتے تعزیت کرتیں۔ اب ہم شعور کی عمر کو پہنچ چکے اس درد کو محسوس کر سکتے تھے اور ان کی باتیں سن مجلس میں موجود تمام خواتین کی چیخوں اور رونے کے درد محسوس کر رہے تھے اور بچپن کی بے وقوفی پر افسوس ہو رہا تھا۔ یہاں بھی مجلس میں بیٹھی خواتین میں سے یک دم چیخ کی آواز ابھرتی اور دو خواتین اسی انداز میں نوحہ کرتی نظر آتیں اور پھر بعد میں تعزیتی مجلس سے اٹھ کر نکلتے بھی کوئی کوئی گھر کی بزرگ سے اسی انداز میں نوحہ کر کے نکلتیں۔

پنڈی بھٹیاں میں اس کے بعد بھی جب کوئی سانحہ ہمارے ننھیال میں ہوا تو گو ہمارا زنانہ میں داخلہ محدود ہو چکا تھا یہ تعزیتی انداز نظر سے گزرتا رہا لیکن بتدریج صرف بزرگ خواتین تک محدود ہوتا گیا اور اور نوجوان اور درمیانی عمر کی نئی نسل اس سے اجتناب کرتی نظر آئی۔ آخری بار جب اپنے ماموں کے انتقال پر نوے کی دہائی کے بالکل اواخر میں جانا ہوا تو شاید ایک دو ہی بہت بزرگ خواتین کا اس انداز میں اظہار تعزیت کرنے کی اطلاع ملی پھر ہم پاکستان ہی چھوڑ چکے تھے۔

میرا اندازہ ہے کہ ”بھڑی“ کا لفظ جس کی اپنی مٹھاس تھی اور جس کا بہترین متبادل انگریزی ”ہائے گائیز“ سے سمجھ آ سکتا ہے۔ پنڈی بھٹیاں میں نسبتاً کم استعمال ہوتا تھا اور اب تو چنیوٹ برادری کی موجودہ نسلیں اس رسم یا انداز کے ساتھ اکثر ہمارے انتہائی بچپن میں استعمال ہونے والے شیریں الفاظ اور رشتے داریوں کے القاب تک بھول چکیں۔ تعزیت کا یہ انداز چنیوٹ پنڈی بھٹیاں اور ان کے نواح کے علاوہ کہاں کہاں رائج تھا یا اب بھی کہیں ہے، میرے علم میں نہیں۔ البتہ ”بھڑی“ کا لفظ تو پچھلی چار پانچ دہائیوں میں شاید ہی سنا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments