سیاسی گورکھ دھندا
پاکستان میں سیاست ایک ایسا گورکھ دھندا ہے جس کے اچھے اثرات سے حکمران طبقہ مستفید رہتا ہے اور عوام اس سیاسی گورکھ دھندے کو پچھتر سال سے سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں تاحال ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عوام سیاست دانوں کے گورکھ دھندے کو سمجھنے سے قاصر ہیں عوام ان کو ووٹ تو دیتے ہیں لیکن یہ عوام کو اقتدار میں شریک کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں جیسے ہی ان کا عوام سے ووٹ لینے کا عمل ختم ہوتا ہے یہ اقتدار کی جانب پانچ سال کے لیے نو دو گیارہ ہو جاتے ہیں اور عوام پانچ سال تک ہاتھوں میں درخواستیں لیے ان کے در پر حاضری دیتے ہیں یہاں بھی ان سیاست دانوں کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ اپنی رونمائی کروائیں یا اپنے اہلکاروں کے ذریعے گیٹ پر ہی طفل تسلیاں دے کر درخواست گزار کو واپس روانہ کر دیں۔
سیاست دانوں کے اس طرز عمل نے عوام کو مایوس کر دیا ہے اور وہ کسی مسیحا کی تلاش میں ہیں جو ان کے حقوق کا تحفظ کر سکے جو ان کے مسائل گھر کی دہلیز پر حل کرے سیاست دانوں کے گورکھ دھندے کو سمجھنا تو عوام کے بس میں نہیں لیکن سیاست دان بھی عوامی مسائل سے نا اشنا ہو چکے ہیں سیاست دان حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ان کے مفادات مشترکہ ہوتے ہیں یہ اپنی غرض کے لیے عوام کے حقوق روند دیتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں ہر سال بجٹ پیش ہونے کے بعد تنقید کرنے والے گورکھ دھندا کے لفظ سے اپنی بات کا آغاز کر کے نقطہ نظر بیان کرتے ہیں اصل میں بات کچھ یوں ہے کہ بجٹ پر تنقید کرنے والے بھی بجٹ کا بغور مطالعہ نہیں کرتے اور یہ ان کے لیے بھی گورکھ دھندا ہی رہتا ہے یعنی وہ سمجھ ہی نہیں پاتے اس لیے وہ عوام کو سچ سچ بتا دیتے ہیں کہ یہ گورکھ دھندا ہے اور عوام ان کی سادگی کو سمجھ نہیں پاتی اور گورکھ دھندے پر غور کرتی رہتی ہے کہ شاید یہ بجٹ کی ہی کوئی اہم شق ہے۔
اب پاکستان کی سیاست پر نظر ڈالی جائے تو یہ عوام کے لیے گورکھ دھندا بن چکی ہے عوام کے لیے بجٹ ہو یا سیاست کی راہداریاں ان کو انتخابات میں جب ووٹ کی پرچی دی جاتی ہے تو وہاں سے ہی سیاست دانوں کا عوام کے ساتھ گورکھ دھندے کا کھیل شروع ہو جاتا ہے عوام کو جب ووٹ کی پرچی دے کر شناختی کارڈ لے لیا جاتا ہے تو یہ سیاست دانوں کے گورکھ دھندے کا آغاز ہے جو عوام کی سمجھ سے باہر ہوتا ہے عوام سیاست دانوں کی اس پہلی چال کو ہی نہیں سمجھ پاتے جہاں ان کا ووٹ خرید کر ان کے ضمیر کی قیمت لگا دی جاتی ہے اور اس گورکھ دھندے میں بکنے والے ووٹر کی امیدوں کا بے دردی سے خون کیا جاتا ہے اور پھر ایسا ہوتا ہے کہ وہ بار بار بکتا ہے یہاں تک کہ اگر کوئی اس سے ضمیر فروشی کی وجوہات جاننے کی کوشش کرے تو وہ بھی یہ کہہ کر اگے نکل جاتا ہے کہ یہ سب گورکھ دھندا ہے۔
اگلے مرحلے میں سیاست دان منتخب ہونے کے بعد جس طرح اپنے انتخاب پر آنے والے اخراجات کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ بھی گورکھ دھندا ہے اس گورکھ دھندے کا آغاز حلقے میں ترقیاتی کاموں میں کمیشن حاصل کرنے سے ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ تعمیر ہونے والی سڑک ہو یا عمارت وہ ٹوٹنے اور گرنے میں دیر نہیں لگاتی سرکاری فنڈز سیاست دانوں کی سیاست کا حسن کہہ لیں یا پھر زیور بھی کہا جا سکتا ہے ان سرکاری فنڈز کے بغیر ان کا وسیع کچن جسے عام لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ سائیں بہت سخی ہیں اور ان کا ڈیرہ چلتا ہے سیاست دانوں کے ڈیرے ایسے گورکھ دھندے سے ہی آباد ہوتے ہیں۔
اگلے مرحلے میں اسمبلی اجلاس کی حاضری سے ہی گورکھ دھندا شروع ہو جاتا ہے ویسے تو کبھی کبھار ہم بھی کالج دور میں کسی ساتھی کو کہہ کر حاضری لگوا لیا کرتے تھے لیکن روزانہ ایسا کرنا ممکن نہیں تھا شکایت اگر گھر تک پہنچ جاتی تو وہ اس گورکھ دھندے کو بہت اچھے انداز میں سمجھانے کا فن جانتے تھے خیر بات ارکان اسمبلی کی حاضری میں گورکھ دھندے کو سمجھنے کی ہے اسمبلی قومی ہو یا صوبائی حاضری اس لیے ضروری ہوتی ہے کہ ان کو سرکار کی جانب سے پیسے ملتے ہیں اور اگر حاضری نہ لگے تو پیسے کٹ جاتے ہیں اس لیے کئی ایسے ارکان بھی ہیں جو نظروں سے سال بھر اوجھل رہتے ہیں پر حاضری رجسٹر پر ان کا نام بولتا ہے جسے زمین کی رجسٹری میں اپ کے نام کی فرد پر نام بولتا ہو تو آپ کو حصہ ملے گا اس طرح حاضری لگے گی تو پیسہ ملے گا یہاں حاضری کے ساتھ پیسہ بولتا ہے ذرا سوچئے ایسے لوگ آپ کے حقوق کا کیا تحفظ کریں گے جو جعلی حاضری لگا کر پیسے وصول کر رہے ہیں۔
ارکان کا اگلا ہدف میڈیکل بل کی وصولی ہوتا ہے یہ بھی ایک چھوٹا سا سمجھنے والا گورکھ دھندا ہے بس میڈیکل نسخہ بنا ہو میڈیسن بھی ملے گی علاج کے لیے فنڈز بھی ملیں گے اگر آپ کا دل چاہے تو بیرون ملک بھی علاج کے لیے رقم دی جائے گی بس آپ کی وقت کے حکمران سے محبت کا رشتہ ہونا چاہیے اور اگر اللہ نے اپ کو بیماریوں سے محفوظ بھی رکھا ہے اور آپ کا بیرون ملک کے صحت افزا مقام پر جانے کو دل للچا رہا ہے تو یہ بھی ممکن ہے ایک پارلیمانی وفد تشکیل دیا جائے گا اور متعلقہ ملک سے سفارتی تعلقات بہتر بنانے کے لیے سیر سپاٹے کا ایسا پروگرام تشکیل دیا جائے گا کہ عوام کو اپنے ٹیکس کا پیسہ لٹنے کے گورکھ دھندے کی سمجھ نہیں آئے گی۔
اسی میدان میں تھوڑا مزید سفر کریں اور کسی رکن کے نام کے ساتھ سینئر لگ جائے تو پھر وزارت بھی ضروری ہو جاتی ہے بس ادھر وزیر بنے تو زندگی کی ہر سہولت گھر، گاڑی، بجلی، گیس، پیٹرول، فضائی سفر کے ٹکٹ سے لے کر زندگی کی ہر آسائش آپ کی دہلیز پر ہی سرکار کی جانب سے مہیا کی جائے گی اور اگر یہ سب کچھ حاصل کر کے بھی اپ کا من نہ بھرے تو سرکاری زمین پر بھی قابض ہو سکتے ہیں یہاں بھی آپ کو تسکین نہ ملے تو اپ کے دل کی مرادیں پوری کرنے کے لیے اور بھی بہت کچھ میسر ہو گا بس کار خاص سیانا ہونا چاہیے جو عقاب کی نظر رکھتا ہو۔
موجودہ دور میں تو ویسے ہی جدید ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ آپ کے پاس اختیار ہو حکومت کا حصہ بھی ہوں بس ایک آڈیو ویڈیو آپ کے پاس ہو تو ضمیر کا سودا کرنے میں آسانی رہتی ہے آج کے پاکستان کو آڈیو ویڈیو سے جس طرح تباہ کیا جا رہا وہ ایسا بحران ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تباہی کا جو راستہ سیاست دانوں نے اپنایا ہے اور اخلاقی اقدار کو جس نہج پر لے گئے اس سے آگے اندھیرے کے سوا کچھ نہیں یہ ہیں وہ چند گورکھ دھندے جو عوام سمجھنے سے قاصر ہیں ابھی سیاست کے ایوانوں میں کیا نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں وہ بتاتے بتاتے کئی صاحب گولی کا نشانہ بھی بنے اور ننگے بھی ہوئے۔
بولوں اگر میں جھوٹ تو مر جائے گا ضمیر۔ کہہ دوں اگر میں سچ تو مجھے مار دیں گے لوگ۔ پستی کے اس دور میں زندگی کو واپس لانے کے لیے قوم کے رہنماؤں کو اخلاقیات کے اصول اپنانا ہوں گے ہمیں کسی میثاق معیشت یا میثاق جمہوریت کی نہیں صرف میثاق اخلاقیات کی ضرورت ہے لیکن پاکستان کی سیاست کو سمجھنے کے لیے گورکھ دھندے کے معنی جاننے کی اشد ضرورت ورنہ تو یہ سب کچھ گورکھ دھندا ہی رہے گا
- میڈیا اور اندرونی کہانی - 24/01/2023
- کون بچائے گا پاکستان - 15/11/2022
- سیاسی گورکھ دھندا - 08/11/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).