محبت مجھے ان جوانوں سے ہے


یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ مستقبل کی تشکیل کا انحصار ہمیشہ آنے والی نسلوں پر ہوتا ہے۔ اور جو کہا جاتا ہے کہ مستقبل نوجوانوں کا ہے تو خلاف واقعہ نہیں۔ مستقبل واقعی ان لوگوں کا ہے جو آج نو عمر ہیں اور زندگی کا سفر شروع کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔

گوئٹے نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ نوجوانوں میں ہماری دلچسپی کا سبب یہ ہے کہ ان کے سامنے ایک درخشاں مستقبل ہوتا ہے۔ ان کی آنکھوں میں آنے والے دنوں کے خواب اور ان کی باتوں میں آنے والی بہاروں کے نا شگفتہ پھولوں کی مہک ہوتی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مستقبل کی دنیا کی تشکیل نوجوان نسلوں کے انداز نظر اور طرز فکر پر ہے۔ یہاں تک کہ بزرگ نسلیں فکرو تہذیب اور علوم و فنون کا جو ورثہ اپنے پیچھے چھوڑتی ہیں، اس کی بقا، اس کی تشریح و تعبیر اور اس کی تہذیبی قدرو قیمت کا انحصار بھی نوجوان نسلوں پر ہوتا ہے۔ اسی لئے ہر سنجیدہ مفکر اور با شعور معاشرہ نوجوان نسلوں کی تعلیم و تربیت کی اہمیت پر زور دیتا چلا آیا ہے۔

اقبال جیسا عظیم شاعر اور مفکر جو پوری انسانیت کے سامنے ایک درخشاں اور تابناک مستقبل کا خاکہ پیش کرتا ہے، وہ نسل نو کو کس طرح نظر انداز کر سکتا ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے کلام اور ان کی نثری تصانیف کے بیشتر حصوں کے مخاطب نوجوان لوگ ہی ہیں۔ انسان کامل، مرد مومن، تکمیل خودی اور تسخیر کائنات کے جو نصب العینی مقاصد اقبال عالم انسانیت کے سامنے پیش کرتے ہیں، ان کی تکمیل کا انحصار خود اقبال کے نزدیک بھی آنے والی نسلوں ہی کے ذوق عمل پر ہے۔ اقبال نے معاشرے کے کسی طبقے کے افراد کے بارے میں نہیں کہا کہ مجھے ان سے محبت ہے، سوائے نوجوانوں کے :

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

اس شعر میں ان کی مراد ان جوانوں سے ہے جن کے حوصلے بلند ہیں، جن کے مقاصد بلند تر ہیں اور جو اپنے بلند تر مقاصد کی تکمیل کے لئے ہر دم کوشاں ہیں۔ ایک اور جگہ پر وہ فرماتے ہیں :۔

وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ، ضرب ہے کاری
اگر ہو جنگ تو شیران غاب سے بڑھ کر
اگر ہو صلح تو رعنا غزال تاتاری

ستاروں پہ کمند ڈالنے والے، بے داغ شباب اور ضرب کاری کے حامل، جنگ میں شیران غاب اور صلح میں رعنا غزال تاتاری۔ یہ ہے مثالی نوجوانوں کی وہ تصویر جو اقبال کے ذہن میں ابھرتی ہے۔ اس تصویر کے پس منظر میں وہ خودی ہے جو فولاد سے زیادہ مضبوط ہے

اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پر دم ہے اگر تو تو نہیں خطرہ افتاد

اقبال کو اپنے عہد کے نوجوانوں سے شکایات بھی تھیں اور وہ ان کے لئے دعا گو بھی تھے۔
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں

اقبال کی شاعری میں شاہین کا بہت تذکرہ ہے۔ ان کے ہاں شاہین بنیادی طور پر نسل نو کا استعارہ ہے۔ وہ اپنی ایک نظم میں نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں :۔

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

اقبال کی اکثر نظموں کا مرکزی خیال یہ ہے کہ نوجوانوں کو اپنے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کا ادراک حاصل کرنا چاہیے اور اپنے جوش کردار اور قوت عمل سے ایک نیا طرز زندگی پیدا کرنا چاہیے۔ جس کی بنا تعمیر خودی اور تسخیر کائنات کے تصور ات پر ہو۔

علامہ اقبال نے شاہین کو نوجوانوں کے لئے آئیڈیل قرار دیا ہے تاکہ وہ اپنے اندر جفا کشی، سخت کوشی، بلند ہمتی اور بیباکی جیسے اعلٰی اوصاف پیدا کریں۔ اقبال نے نسل نو کو اخلاص اختیار کرنے اور اللہ کے سوا ہر خوف سے آزاد ہونے کی تلقین کی ہے۔

غرض نوجوان نسل کے نام اقبال کے پیغامات ان کی ساری شاعری میں بکھرے پڑے ہیں۔ یہ پیغامات ساحلوں کے موتی اور آسمان کے ستارے ہیں جن کی چمک کبھی ماند پڑنے والی نہیں۔ کیونکہ نئی نسلیں ہر دور میں پیدا ہوتی رہیں گی اور اقبال کا پیغام ہر عہد کے نوجوانوں کے لئے معنی خیز رہے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ اقبال کی تمام تر شاعری در اصل ہر عہد کی نوجوان نسل کے لئے ایک پیغام ہے :۔

جستجو کا پیغام، زندگی کا پیغام اور خود آگہی کا پیغام۔

‎‎‎ ‎


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).