باڈی شیمنگ: ’موٹی، ڈرم۔۔۔ مجھے ان ناموں سے ساری زندگی ذلیل کیا گیا‘


انڈیا
’اگر آپ پلس سائز خاتون ہیں تو انڈیا میں رہنا آسان نہیں۔ میں 15 سال کی تھی جب مجھے پتا چلا کہ مجھے PCOS نامی بیماری ہے۔ تب سے میرا وزن زیادہ ہے۔ موٹی، ڈرم۔۔۔ نہ جانے کیا کیا کہا گیا مجھے۔ ساری زندگی ذلیل کیا گیا۔ شرمندگی کی وجہ سے میں نے خود کو کافی عرصے تک بدصورت سمجھا۔‘

چترا بنگلور میں رہنے والی ایک پلس سائز خاتون ہیں، یعنی ان کا وزن زیادہ ہے اور اس کی وجہ سے ان کی زندگی شدید متاثر ہوئی۔

چترا کہتی ہیں ’میرے لیے جیون ساتھی تلاش کرنا میرے والدین کے لیے ایک ڈراؤنے خواب کی طرح تھا۔ انھوں نے مجھے کبھی کچھ نہیں بتایا لیکن میں نے ان کا خوف محسوس کیا ہے۔‘

’لیکن پھر مجھے ایک بہت اچھا جیون ساتھی ملا جس نے میری مدد کی۔ میری منگنی کے دن بھی میرے رشتہ دار مجھے لیکچر دے رہے تھے کہ وزن کم کر لو ورنہ شوہر کی دلچسپی ختم ہو جائے گی۔ یہ سن کر میں اتنی دکھی اور پریشان ہوئی کہ کئی دن تک کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔‘

’معاف کیجیے گا آپ بہت صحت مند لگ رہی ہیں‘

کچھ دن پہلے موبائل پر میں نے ’ڈبل ایکس ایل‘ نامی فلم کا ٹریلر دیکھا جس میں سوناکشی سنہا اور ہما قریشی کا وزن بہت زیادہ ہے۔

ڈبل ایکس ایل فلم میں ہما قریشی کا کردار سپورٹس پریزنٹر بننا چاہتا ہے لیکن اسے کہا جاتا ہے کہ ’معاف کیجیے گا، آپ ہمیں کچھ زیادہ ہی صحت مند لگ رہی ہیں۔‘

یعنی ٹی وی پر نمودار ہونے کے لیے ایک خاص قسم کی باڈی ٹائپ ہونا ضروری ہے۔

یہ مکالمہ فلمی ضرور ہے لیکن باڈی شیمنگ بہت سے لوگوں کی زندگی کی حقیقت ہے جس کا جسمانی اور نفسیاتی سطح پر گہرا اثر پڑتا ہے۔

باڈی شیمنگ سے پلس سائز ماڈل کا سفر

نیہا پارولکر ایک پلس سائز ماڈل ہیں۔ آج ان کا ایک مقام ہے لیکن اس کے پیچھے باڈی شیمنگ کی ایک لمبی کہانی ہے۔

’مجھے بچپن سے ہی اپنے آپ پر بالکل اعتماد نہیں تھا۔ موٹا ہونا اکثر شرمندگی کا باعث بنتا ہے۔ وزن کم کرنے کے لیے، میں بھوکی رہتی تھی۔ یہ تب کی بات ہے جب میں نے کالج جانا شروع کیا تھا۔ میں دن بھر صرف سلاد کھاتی تھی۔ میں اتنی کمزور ہو گئی کہ کالج جانے کی طاقت نہیں بچتی تھی۔‘

نیہا اکیلی نہیں۔ ہمارے اردگرد بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کی ایسی ہی کہانی ہے۔ خوشی بھی ان میں سے ایک ہیں۔
’ایک وقت تھا جب میرا وزن بہت بڑھ گیا تھا۔ اس سے نمٹنے کے لیے میں نے غلط طریقہ اختیار کرنا شروع کر دیا جسے ایٹنگ ڈس آرڈر کہا جاتا ہے جس میں جسم میں کیلوریز نہیں جاتیں تھیں۔ میں نے کہیں جانا چھوڑ دیا۔‘

’ایک دن میں گھر میں اکیلی تھی اور دروازے کی گھنٹی بجی۔ جب میں دروازہ کھولنے کے لیے اٹھی تو میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ میں بے ہوش ہو گئی۔ جب مجھے ہوش آیا تو میرے سر سے خون بہہ رہا تھا۔ یہ بہت خوفناک تھا کہ اگر کسی دن مجھے کچھ ہو گیا تو کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا کہ ایسا کیوں ہوا کیونکہ میں سب سے چھپا رہی تھی۔ پھر میں نے پہلی بار اپنی دوست کو بتایا۔‘

بی بی سی کے پروگرام ورک لائف انڈیا میں جب خوشی جین نے یہ بات شیئر کی تو وہ بتاتے ہوئے بہت جذباتی ہو گئیں۔

کچھ ایسے ہی سوالات سوناکشی سنہا فلم میں بھی پوچھتی ہیں۔ جب ان کے کردار کو مسترد کیا جاتا ہے تو وہ کہتی ہیں کہ ’ان لوگوں نے ہمارے خوابوں کا سائز نہیں دیکھا، صرف ہمارا سائز دیکھا۔ کچھ لوگوں نے مل کر ایک معیار بنا لیا اور پتا نہیں کب وہ نارمل قرار دے دیا گیا۔‘

فلموں میں دوہرا میعار

پرانے زمانے میں بالی وڈ میں شمی کپور جیسے ہیرو قابل قبول ہوتے تھے جو مناسب وزن کے ہوتے تھے لیکن ان کی ہیروئنوں کو چست چوڑی دار اور کرتہ پہننے والی پتلی لڑکیاں بننا پڑتا تھا۔

یہ وہ وقت تھا جب گڈی ماروتی کو صرف ان کے وزن کی وجہ سے مزاحیہ کردار کے لیے چنا جاتا تھا اور جیسے ہی وہ سکرین پر آتیں، پس منظر میں ہاتھی جیسی آواز سنائی دیتی۔

حالیہ برسوں میں ’دم لگاکے ہیشا‘ جیسی فلم ضرور آئی ہے جس میں ہیروئن سندھیا (بھومی پیڈنیکر) ایک ایسی لڑکی ہے جس کا وزن زیادہ ہے لیکن ہیرو (ایوشمان کھرانہ) اسے بیوی کے طور پر قبول نہیں کرتا بلکہ کھلم کھلا اس کی توہین کرتا ہے۔

وہ دوستوں کے سامنے کہتا ہے ’میرے باپ نے اتنا موٹا سا بیل میرے گلے میں ڈال دیا۔۔۔ چھونے کا احساس نہ ہو۔‘

انڈیا

لیکن ایسی فلمیں بہت کم ہیں جہاں عورت کا موٹا ہونا یا زیادہ وزن ہونا اس کی پہچان نہیں بلکہ یہ ایک عام سی بات ہے۔ جیسے ودیا بالن کی چند فلمیں۔

تاہم، ایک بحث یہ بھی ہے کہ کسی کو ان کے سائز زیرو پر ٹرول کرنا بھی باڈی شیمنگ کی ایک شکل ہے۔

جب ودیا سے پوچھا گیا ’کیا آپ نے وزن کم کرنے کے بارے میں سوچا ہے؟‘

ودیا بالن

حیرت کی بات یہ ہے کہ گلیمرس سمجھی جانے والی ان ماڈلز اور ہیروئنوں کو بھی اپنی عمر اور وزن کی وجہ سے برسوں باڈی شیمنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

فلم ڈبل ایکس ایل کی ہیروئن سوناکشی سنہا کو بھی اپنے وزن کی وجہ سے مسلسل ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑا۔

سوناکشی کہتی ہیں کہ ’آج بھی کئی بار ایسا ہوتا ہے، جب فلم سے پہلے کہا جاتا ہے کہ آپ تھوڑا وزن کم کریں اور گانا شوٹ کریں۔ یہ لوگوں کے لیے ایک عام سی بات ہے۔‘

’میرے کیرئیر کی سب سے بڑی ہٹ اس وقت ہوئی جب میرا وزن زیادہ تھا۔ جب ناظرین کو کوئی اعتراض نہیں تو پھر فلمساز کے طور پر آپ کو کس بات کا ڈر ہے۔‘

دوسری جانب ہما قریشی کا تجربہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’گینگز آف واسے پور میں میرے ساتھ نواز تھا جو دبلا پتلا تھا اور لوگ مجھے کہتے تھے کہ میرا وزن زیادہ ہے۔ جب وہ فلم میں میرا ہاتھ پکڑتا تھا تو میں خود کو دیکھتی تھی لیکن آج لوگ یاد کرتے ہیں۔‘

ہما قریشی کہتی ہیں ’ہم نے سوچا کہ ہم ہر لڑکی کو یہ احساس دلا سکتے ہیں کہ آپ کسی بھی سائز یا شکل و صورت کی ہوں، لیکن آپ خاص ہیں۔‘

مجھے یاد ہے کہ چند سال پہلے ایک رپورٹر نے ودیا بالن سے پوچھا ’کیا آپ خواتین پر مبنی فلموں میں نظر آتی رہیں گی یا آپ کا وزن کم ہو گیا ہے؟ کچھ سوچا بھی ہے؟‘

ودیا بالن سوال سن کر حیران رہ گئیں لیکن ان کا جواب تھا کہ وہ جو کام کر رہی ہیں اس سے وہ بہت خوش ہیں۔

بھارتی سنگھ

بھارتی سنگھ

بھارتی سنگھ نے اپنے لیے کامیڈی کوئین کا خطاب حاصل کیا ہے۔ حال ہی میں ایک بیوٹی برانڈ نے بھارتی کو پلس سائز ماڈل کا روپ دیا۔

اس اشتہار میں بھارتی کہتی ہیں ’موتی، ہاتھی، لڈو وہ نام تھے جو مجھے بچپن سے ملتے تھے۔ میں نے اس تعارف کو شناخت میں بدل دیا اور کامیڈی کی ملکہ بن گئی لیکن ایک کمپلیمنٹ ہمیشہ غائب تھا، خوبصورت بھارتی کا۔ لیکن پرسوں کسی نے کہا کہ تم خوبصورت لگ رہی ہو۔ اب لگتا ہے دنیا کا نظارہ بدل رہا ہے ورنہ میں باڈی لوشن کا انتخاب کرتی۔‘

بھارتی کی طرح چترا اور خوشی جیسی خواتین نے بھی مشکلات کے درمیان اپنا راستہ تلاش کیا۔

خوشی، جو اب ڈیفیٹنگ ڈس آرڈر کے نام سے ایک ویب سائٹ چلاتی ہیں، کہتی ہیں ’میرے اور میرے جسمانی امیج کے درمیان تعلق اب مثبت ہے۔ اسے کم کرنے کے لیے غلط طریقے اپنانے کے بجائے، میں نے ماہر غذا کی مدد لی۔ اب میں اپنی بھوک کا خیال کرتی ہوں۔‘

یہ بھی پڑھیے

’خواتین کمر کی چربی گھلائیں، ٹانگوں کی خیر ہے‘

بچوں میں موٹاپا: انڈین بچے بہت زیادہ موٹے کیوں ہو رہے ہیں؟

وزن کم کرنے کا آپریشن لائپوسکشن اور انڈین اداکارہ کی موت

انڈیا میں موٹاپے کا مسئلہ

تاہم اس بحث کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ اگر آپ کسی سے اس کے بڑھتے ہوئے وزن پر بات نہیں کر رہے تو کیا آپ غلط طرز زندگی کو فروغ دے رہے ہیں؟

نئے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (2019-21) کے مطابق انڈیا میں 23 فیصد مردوں اور 24 فیصد خواتین کا باڈی ماس انڈیکس 25 یا اس سے زیادہ ہے۔ 2015-16 کے مقابلے میں یہ چار فیصد کا اضافہ ہے۔ پانچ سال سے کم عمر کے 3.4% بچے موٹے ہیں، جو کہ 2015-16 میں 2.1% سے زیادہ ہیں۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق جسم میں زیادہ چربی کا ہونا بہت سی بیماریوں جیسے کینسر کی کئی اقسام، ٹائپ ٹو ذیابیطس، دل اور پھیپھڑوں کے امراض کا خطرہ بڑھاتا ہے۔ گزشتہ سال دنیا بھر میں موٹاپے سے 2.8 ملین افراد ہلاک ہوئے۔

انڈیا

باڈی شیمنگ کرنا یا غلط طرز زندگی کو فروغ دینا؟

تو باڈی شیمنگ اور صحت مند طرز زندگی میں کہاں اور کیسے فرق کیا جائے؟

شیمپی ماتھرو ایک ماہر غذائیت ہیں۔
شیمپی کا موٹاپے کی مختلف وجوہات کے بارے میں کہنا ہے کہ ’موٹاپے کی ایک وجہ جینیاتی ہے، یعنی آپ کے جین ایسے ہیں کہ جسم میں چربی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت دوسرے لوگوں کے مقابلے زیادہ ہے۔ اس لیے کھانے کا میٹابولزم سست ہوتا ہے، ایسے لوگوں میں یہ چربی کے طور پر جمع ہو جاتا ہے۔‘

’خراب طرز زندگی بھی موٹاپے کے لیے ذمہ دار ہے – جیسے کہ اگر آپ کی خوراک درست نہیں۔ میرے موٹاپے کی وجہ غلط کھانے پینے کی چیزیں تھیں۔ میں بچپن میں موٹا تھا اور لوگ موٹا موٹا کہتے تھے۔ یہ بہت برا لگا۔ یہ جسم میں تناؤ کے ہارمونز کو بڑھاتا ہے اور کورٹیسول جیسے تناؤ کے ہارمونز چربی کو بڑھاتے ہیں۔کچھ لوگوں میں موٹاپا جینیاتی بھی ہوتا ہے۔‘

شیمپی کا کہنا ہے کہ باڈی شیمنگ اور کسی کو اچھا طرز زندگی گزارنے کی ترغیب دینے میں فرق ہے۔ شیمپی کے مطابق، منفی محرک شاذ و نادر ہی کام کرتا ہے۔ ’اگر آپ واقعی اس بات کی پرواہ کرتے ہیں کہ آپ کے دوست یا پیارے کا موٹاپا ان کی صحت کے لیے اچھا نہیں ہے، تو اس سے نمٹنے میں ان کے ساتھی بنیں۔‘

’اگر انھیں ورزش کی ضرورت ہو تو ان کے جم کے دوست بنیں، اگر انھیں ڈاکٹر یا غذائیت کے ماہر کی ضرورت ہو تو انھیں لے جائیں۔ انھیں الگ تھلگ نہ ہونے دیں۔‘

چیلنجز بہت ہیں لیکن چترا کہتی ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ انھوں نے خود کو سمجھا دیا ہے کہ وزن کم زیادہ ہو سکتا ہے، اس میں تبدیلی آ سکتی ہے، لیکن جو چیز نہیں بدلتی وہ آپ کی اصل شخصیت ہے۔

چترا کہتی ہیں ’میں نے اپنے اعتماد کو بڑھانے کے لیے بہت کام کیا، میں نے اپنی شخصیت کو بہتر بنانے کے لیے کام کیا، اپنے عدم تحفظ کو دور کرنے کی کوشش کی۔ اب مجھے اس بات کا بہت زیادہ احساس ہوا ہے کہ مرد پراعتماد خواتین سے خوفزدہ ہوتے ہیں، ان کا سائز کچھ بھی ہو۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32489 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments