کتا بلا


گٹر کے اندر اترنے سے پہلے ٹھرے کی پوری ایک بوتل اپنے اندر اتارنا ضروری ہوتا ہے تاکہ سونگھنے کی حس کا سارا نظام بند ہو جائے اور گٹر کھل جائے۔ اگر کوئی بھنگی پئے بغیر اترے گا تو گٹر میں سالوں سے بند گیس اور بدبو اکٹھی ہو کر اسے مار دے گی۔ یہ ٹوٹکا مجھے اپنے ان بڑوں سے ملا تھا جو اپنے اندر کے انسان کو ٹھہرے سے مدہوش کر کے دوسرے انسان کا گند صاف کرتے تھے۔ بڑوں کے ٹوٹکے پر عمل کرتے ہوئے میں نے حاجی رفیق سے سو روپے میں اس کا گٹر صاف کرنے کی بات پکی کرنے کی کوشش کی ’پچاس گٹر کھولنے کے اور باقی کے پچاس دو بوتلوں کے لئے۔ لیکن سودا ہو ہی نہیں ہو رہا تھا کیوں کہ حاجی رفیق پیدائشی حاجی تھا۔ حج والے دن پیدا ہوا اس لئے حاجی کہلاتا تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں تو اس میں حاجیوں والی کوئی بات نہیں دیکھی وہ تو بس سارا دن اپنی دکان پر بے ٹھا تیرے میرے کی مردانہ کمزوری کا علاج اور بواسیر کے آپریشن کرتا رہتا تھا۔ اس کے بڑے کبھی بہت بڑے حکیم ہوا کرتے تھے۔ نوابوں اور سرداروں کی نبضیں دیکھا کرتے تھے لیکن اب حاجی کی دکان میں لٹکتی ان بزرگوں کی فریم شدہ تصویریں شیشے کے مرتبانوں میں قید مردہ سانڈوں اور گرگٹوں کو دیکھتی رہتی ہیں۔ سب کی طرح میں بھی جانتا تھا کہ حاجی کی جیب سے پیسے نکلوانا کتنا مشکل کام ہے لیکن پھر بھی بحث کیے جا رہا تھا۔ آخر کافی مغز ماری کے بعد اسی بدبخت نے طے کیا کہ وہ مجھے مزدوری کی بجائے چھ بوتلیں لا کے دے گا۔ میرے لئے یہ بھی وارے کا سودا تھا۔ میں نے سوچا اگلے ہفتے کرسمس آ رہی ہے دو بوتلیں ابھی کام آ جائیں گی اور باقی چار کو کرسمس کی خوشیوں میں شریک کر لوں گا۔ اس لئے میں نے آمین کہہ دی۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ اس کام کے لئے اپنے پولیس کانسٹبل سالے کی خدمات لے گا جو وردی کی طاقت دکھا کر بھولے فنکار سے چھ بوتلوں کی وصولی کر لائے گا۔ بھولا ہمارے محلے کا شراب فروش اور فنکار ٹھرا میکر تھا۔ اس کے بڑے بھی کسی زمانے میں عطر بناتے تھے لیکن اب بڑوں کی جگہ ٹھروں نے لے لی تھی۔ عطروں والے قبروں میں جا سوئے اور بھولے فنکار نے انہی کی لگائی بھٹیوں پر گلاب کی بجائے شراب کشید کرنا شروع کر دی۔ اس کا بنایا ٹھرا انگریزی شرابوں کو بھی شرماتا تھا۔

اتوار کی صبح میں اپنے آلات صفائی لے کر حاجی کے گھر پہنچ گیا جو اس وقت اپنے دروازے کے باہر تھڑے پر آلتی پالتی مارے راجے نائی سے شیو بنوا رہا تھا۔ راجے نے شیو کے بعد اس کی قلمیں برابر کر کے اپنا کام ختم کیا۔ حاجی نے مزدوری دینے کی بجائے لال رنگ کے کیپسولوں کی ایک چھوٹی سی شیشی اس کے ہاتھوں میں تھما دی۔ راجے نے خوش ہو کر وہ شیشی جیب میں ڈالی اور تیز تیز قدم اٹھاتا چل دیا۔ اس کی چال بتا رہی تھی کہ اس شیشی میں وہی کیپسول بند ہیں جو مرد کو سر اٹھا کے چلنے کی طاقت دیتے ہیں۔ جنہیں کھا کر سر تو اٹھ جاتا ہے لیکن گردے بیٹھ جاتے ہیں۔ حاجی مجھ پر ایک نظر ڈال کر اندر گیا اور کچھ دیر بعد کپڑے کے تھیلے میں بند چھ بوتلیں تھما کر نہانے چلا گیا۔ میں نے ایک بوتل کی گردن مروڑ کر ڈھکن کھولا اور وہیں تھڑے پر بیٹھے بیٹھے بھولے فنکار کی فنکاری آہستہ آہستہ پیٹ میں اتارنے لگا۔ تاکہ حاجی کے آنے سے پہلے میرے سونگھنے کی حس مر جائے اور میں تسلی سے گٹر میں اتر جاؤں۔ جب تک حاجی نہا دھو کر باہر نکلا ٹھرا اپنا وہ کام کر چکا تھا جو اسے نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ادھر حاجی نے دروازے سے باہر پیر نکالا، ادھر میں تھڑے سے گرا اور اپنی رہی سہی طاقت جمع کر کے چلایا

”خدا تجھے برباد کرے حاجی۔ کچی شراب پلا دی تو نے۔ میری آنکھیں جا رہی ہیں۔ میں تجھے نہیں چھوڑوں گا۔ پاسٹر میتھیو۔ پاسٹر میتھیو۔“

میں گلا پھاڑ پھاڑ کے پاسٹر میتھیو کو آوازیں دے رہا تھا۔ پاسٹر میتھیو سلیم ایڈوکیٹ ہماری برادری کا اتنا بڑا اور عزت دار آدمی تھا کہ ہمارے لوگ اس سے اپنے بچوں کے نام رکھوانے جاتے تھے۔ مجھے بھی بنیامین کا نام اسی نے دیا تھا۔ یہ الگ بات کہ اب مجھے سب لوگ بلا کہتے اور اسی نام سے جانتے ہیں۔ اپنا اصل نام تو میں خود بھی بھول گیا ہوں۔ جب بھی ہماری جان پر بنتی ہم پاسٹر میتھیو کو پکارتے تھے۔ وہ پاکستان کے ان چند خوش قسمت مسیحیوں میں سے تھا جس کا نام اس کے مذہب کا پتہ دیتا تھا۔ ورنہ ہمارے زیادہ تر مسیحی ایسے درمیانے نام رکھنے پر مجبور ہو گئے ہیں جو اکثریت کے کانوں میں نہ چبھیں۔ ہم نے نام تو بدل لئے لیکن قسمت پھر بھی نہیں بدلی۔ پاسٹر میتھیو کی دوسری بڑی خوش قسمتی یہ بھی تھی کہ اس نے ہمارے پوپ جان پال کے ساتھ اٹلی جا کے ملاقات بھی کر رکھی تھی۔ وہ تصویر جس میں پاسٹر میتھو پوپ جی کے مقدس ہاتھ کو بوسہ دے رہا ہے ہمارے گرجے کی باہری دیوار پر آج بھی لٹک رہی ہے۔ ہر سال اسے کرسمس پر اٹلی کے سب سے بڑے چرچ سے پوپ جی کے دستخطوں کے ساتھ مبارک بادی کا خط بھی آتا تھا جو اس کے اپنے اخبار ’مسیح کی آواز‘ میں چھپتا تھا۔ پاسٹر میتھیو ہمارا وہ ہتھیار تھا جس سے بڑے بڑے دبتے تھے اس کا نام سن کر حاجی رفیق بھی دب گیا۔

اس سے پہلے کہ میری آوازیں کسی تیسرے کے کانوں تک پہنچتیں حاجی نے میری دونوں بغلوں میں اپنے ہاتھ ڈالے اور گھسیٹ کر بیٹھک میں لے آیا۔ وہ خدا کے واسطے دے کر مجھے خاموش ہو جانے کا کہہ رہا تھا۔ میری چیخوں سے تنگ آ کر اس نے میرے بازو میں وہی ٹیکا لگا دیا جو بواسیر کا آپریشن کرتے وقت اپنے مریضوں کا نچلا دھڑ سن کرنے کے لئے لگاتا تھا۔ مجھے بیہوش کر کے وہ کافی دیر تک میری آنکھیں واپس لانے کی کوشش کرتا رہا لیکن کچی شراب اپنا پکا کام کر چکی تھی۔ اس سے پہلے کہ میں دوبارہ ہوش میں آ کر شور مچاتا حاجی نے سوچ لیا کہ وہ میرا آپریشن کر کے میری پرانی کی جگہ نئی آنکھیں لگا دے گا۔ لیکن کس کی لگائے گا؟ ابھی وہ اس مدعے پر سوچ ہی رہا تھا کہ اس کے کانوں میں چھت پر لڑتی بلیوں کی آواز آئی۔ وہ بھاگ کے چھت پر گیا اور فیروزی آنکھوں والے ایک آوارہ بلے کو پکڑ لایا۔ اس نے پہلے میری ایک آنکھ نکالی اور اس کی جگہ بلے کی فیروزی آنکھ لگا دی اس کے بعد اس نے میری دوسری آنکھ کو جڑ سے اکھاڑ کے نیچے پھینکا۔ اس سے پہلے کہ وہ بلے کی دوسری آنکھ نکالنے کے لئے اس کی طرف ہاتھ بڑھاتا، وہ بدبخت ہوش میں آ گیا اور اپنی دوسری آنکھ دینے کی بجائے زمین پر پڑی میری آنکھ لے کر بھاگ گیا۔ اتنے لمبے آپریشن سے تھک چکے حاجی نے بلے کے پیچھے جانے کی بجائے میری دوسری آنکھ کے کھڈے میں روئی بھر کے ٹانکے لگا دیے۔ دو دن بعد میں ہوش میں آیا تو میری ایک آنکھ ہمیشہ کے لئے بند ہو چکی تھی اور دوسری میں بلے کی فیروزی آنکھ لگی تھی۔ مجھے سب کچھ صاف صاف نظر آ رہا تھا۔ بلکہ اندھیرے میں بھی دن جیسا اجالا دکھائی دینے لگا تھا۔ میں نے پاسٹر میتھیو کی صلاح پر پچاس ہزار کے راضی نامے میں حاجی پر کیس کرنے کی بجائے اسے معاف کر دیا کیوں کہ اس کے بروقت آپریشن نے مجھے اندھیروں سے بچا لیا تھا۔ پہلے میں صرف بلا تھا فیروزی آنکھ لگنے کے بعد بلا فیروزی کے نام سے مشہور ہو گیا۔ خدا کی قسم اگر وہ بلا نہ بھاگتا تو آج اس کی دوسری آنکھ بھی مجھے لگ چکی ہوتی۔ چلو کوئی بات نہیں میں نے اس کی آنکھ لگائی بدلے میں اس نے میری آنکھ کھائی حساب برابر دعا کرو کہیں مل جائے تو اس کی دوسری آنکھ نکال کے اپنی جوڑی پوری کر لوں۔ تمہیں میرے چہرے پر یہ کھڈا برا لگتا ہے ناں کاکے یار؟

چاچے بلے فیروزی نے یہ ساری کہانی سنانے کے بعد کالے چشمے سے اپنی ایک آنکھ اور دوسرے کھڈے کو ڈھانپتے ہوئے مجھ سے پوچھا۔

’مجھے تم اچھے لگتے ہو چاچا میرا کیا لینا دینا تمہارے کھڈے سے‘ میں نے بھی کوئی لگی لپٹے رکھے بغیر جواب دیا

یہ بات سچ بھی تھی مجھے چاچے کے ساتھ کوئی خاص ہمدردی تھی وہ ایک اچھا آدمی تھا اس لئے مجھے اچھا لگتا تھا۔ جب وہ اپنے خاص انداز میں مجھے ”کاکے یار“ کہتا تو مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے اس دنیا میں صرف وہی میرا پکا دوست ہے۔ ہوش سنبھالتے ہی میرا اس سے ابا کے خدمت گار اور قابل بھروسا آدمی کے طور پر تعارف ہو چکا تھا۔ ابا کے مطابق وہ میری پیدائش سے پہلے کسی ٹرک کے ساتھ مزدوری کرنے آیا تھا اور پھر یہیں کا ہو کے رہ گیا۔ وہ ہمارے گودام میں ہی سوتا تھا وہیں ایک کونے میں اس کی چھوٹی سی لوہے کی الماری تھی جس میں اس کے کپڑے اور روزمرہ کا سامان تھا۔ مجھے نہیں معلوم اس کی تنخواہ کتنی تھی، مجھے تو لگتا ہے اسے ابا کے ساتھ تنخواہ نے نہیں، دوستی نے باندھ رکھا تھا۔ اس کی ایمانداری کی وجہ سے ابا اس کا بہت خیال رکھتے تھے اسے دوسرے ملازموں سے زیادہ عزت دیتے تھے۔ ہمارے کباڑ کے سارے کاروبار پر اپنی ایک آنکھ رکھنا چاچے بلے کی ذمے داری تھی۔ اس کے علاوہ مجھے سکول پہنچانا اور واپس لے آنا بھی اسی نے اپنے سر لے رکھا تھا۔ اس نے میرے لئے خصوصی طور پر اپنی سائیکل کے ڈنڈے پر ایک چھوٹی سی فوم بھری گدی لگوائی ہوئی تھی۔ سکول جانے اور آنے کے سارے سفر میں میں اس آرام دہ گدی پر بیٹھا سارا راستہ بے تکے سوال کر کے اس کا دماغ کھاتا رہتا تھا۔ ایک آنکھ ہونے کی وجہ سے وہ بہت آہستہ سائیکل چلاتا اور مجھے ہمیشہ گیٹ بند ہونے سے ایک منٹ پہلے ہی سکول پہنچاتا تھا۔ لیکن ایک دن تو اس نے ایسی تیز رفتاری دکھائی کہ سکول کھلنے سے پہلے ہی مجھے بند گیٹ پر پہنچا دیا۔ ہوا کچھ یوں کہ راستے میں مجھے اچانک یاد آیا کہ اسلامیات کے استاد قاری یاسین نے دوسرا کلمہ زبانی یاد کر کے آنے حکم دیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ جسے یاد نہیں ہو گا اسے سخت سزا ملے گی۔ قاری یاسین کی سزا کا خیال آتے ہی میں نے چاچے بلے سے کہا کہ وہ مجھے سارا رستہ دوسرا کلمہ یاد کراتا جائے۔ یہ سنتے ہی اس کے دونوں پاؤں سائیکل کے پیڈلوں پر اتنی تیزی سے چلے کہ دو میل کا فاصلہ دو منٹ میں طے کر کے اس نے سکول کے سامنے جا بریک لگائی جہاں میرے دو ہم جماعت بند گیٹ کھلنے کے انتظار میں کھڑے تھے۔

اوئے بچو تمہیں دوسرا کلمہ آتا ہے؟ چاچا نے پھولی ہوئی سانس میں ان سے پوچھا تو دونوں نے اقرار میں سر ہلایا

”شاباش۔ اگر تم کاکے کو بھی یاد کرا دو گے تو میں دو نوں کو ایک ایک روپیہ دوں گا۔ بولو کرا دو گے؟“ چاچے کی پیشکش پر دونوں نے ایک بار پھر اقرار میں گردنیں ہلائیں

”چل کاکے یار اتر گدی سے۔ چھٹی کے وقت اگر تو نے بتایا کہ ان کی محنت نے تجھے استاد کی مار سے بچا لیا ہے تو ان کو ایک ایک روپیہ ملے گا ورنہ کچھ نہیں ملے گا“

چاچا مجھے اتار کر وہاں سے چلا گیا اور میرے دونوں ہم جماعت مجھے دوسرا کلمہ رٹانے پر شروع ہو گئے۔ اسلامیات کا پیریڈ آتے آتے مجھے نہ صرف پورا کلمہ بلکہ اس کا ترجمہ بھی یاد ہو چکا تھا۔ وعدے کے مطابق چاچے بلے نے چھٹی کے وقت میرے دونوں ہم جماعتوں کو ایک ایک روپیہ تھمایا اور مجھے میری گدی پر بٹھا کر گھر کے لئے روانہ ہو گیا۔ میں جان چکا تھا کہ چاچے کو دوسرا کلمہ نہیں آتا۔ لہذا ایک ذمے دار مسلمان ہونے کے ناتے میں نے جو سیکھا تھا اسے بھی سکھانا شروع کر دیا۔ اور وہ بیچارہ بھی سکول سے گھر تک کا سارا راستہ میرے پیچھے اشہد ان لا الہ الا اللہ دہراتا آیا۔ گھر واپسی پر جب میں نے فخر سے ماں کو بتایا کہ میں نے چاچے بلے کو دوسرا کلمہ یاد کرا دیا ہے تو اسے ہنسی کا دورہ چھوٹ گیا۔ مجھے اس دن معلوم ہوا کہ چاچا بلا عیسائی ہے جسے میں نے زبردستی کلمہ پڑھا کے مسلمان کر دیا تھا۔ اس وقت میں نے اپنے آپ کو ایک ایسا خوش قسمت بچہ سمجھنا شروع کر دیا جسے اتنی چھوٹی عمر میں ہی خدا نے غیرمسلموں کو مسلمان بنانے کے لئے چن لیا ہے۔ اگلے دن میں نے چاچے بلے سے کہا کہ اب وہ میرے ہاتھ پر اسلام قبول کر چکا ہے اس لئے آج کے بعد بتوں کی پوجا نہیں کرے گا پانچ وقت نماز پڑھے گا زکوةٰ دے گا روزے رکھے گا اور ہر سال حج پر بھی جائے گا۔

”اوئے کاکے یار حج پر جانے میں تو بہت پیسہ لگتا ہے میں کہاں سے لاؤں گا اتنی رقم“ چاچے بلے نے مسکین بننے کی اداکاری کرتے ہوئے مجھ سے سوال کیا۔

”نیت ہو تو خدا پیسوں کا بندوبست بھی کر دیتا ہے۔ بس تم آنکھ بند کر کے نیت کرو“ میں نے ضد کی
”چل کر لی نیت“ چاچے نے اپنی ایک آنکھ بند کر کے گہری سانس لی
اس کی آنکھ کھلنے سے پہلے ہی میں نے اس کے سامنے دو روپے کا نوٹ لہرایا

” دیکھو اللہ نے بندوبست کرنا شروع کر دیا ہے۔ میں روزانہ تمہیں دو روپے دوں گا۔ تم یہ جمع کرتے جاؤ۔ بہت جلد تمہارے پاس اتنے ہو جائیں گے کہ روزانہ حج پر جا سکو گے“ میں نے نوٹ اس کی ہتھیلی پر رکھتے ہوئے اعتماد سے کہا

”یار کاکے اتنی ساری رقم میں کہاں رکھوں گا۔ میری ایک آنکھ ہے۔ کوئی چور میری اس کمزوری کا فائدہ اٹھا کے مجھے لوٹ سکتا ہے اس لئے میری مانو تم ہی اپنے پاس یہ روپے جمع کرنا شروع کر دو۔ جب پورے ہو جائیں تو مجھے حج پر بھیج دینا۔ مجھے تمہاری ایمانداری پر بھروسا ہے“

چاچے نے ایک آنکھ کا بہانہ بنا کر اپنی ساری ذمے داری میرے کندھوں پر ڈال دی۔

رات کو جب میں نے ابا کو اپنی اس کامیابی کے بارے میں بتایا تو وہ اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے مجھے سمجھانے لگے

” اگر بلا حج پر چلا گیا تو پیچھے کاروبار کون سنبھالے گا۔ ابھی اسے کام کرنے دو۔ جب بوڑھا ہو جائے گا تو اس کو حج پر بھیج دیں گے“

ان کے اس وعدے نے مجھے اپنی ذمے داری سے سبکدوش کر دیا۔ مجھے یقین تھا کہ وقت آنے پر ابا اپنا وعدہ ضرور نبھائیں گے۔ اس واقعے کے کچھ عرصے بعد ایکشن فلموں کے شوقین ابا نے وی سی آر خرید لیا جسے وہ اور ان کے سارے مزدور گودام میں گرمی کی لمبی دوپہریں کاٹنے کے لئے استعمال کرنے لگے۔ چونکہ ہمارا گھر اور گودام ہم دیوار ہی تھے تو میں بھی روزانہ سکول سے آنے کے بعد گودام کا رخ کر لیتا اور اپنے نو مسلم چاچے بلے کے ساتھ بیٹھ کر فلمیں دیکھتا۔ اب میرے اور اس کے درمیان اسلامی نہیں فلمی باتیں ہونے لگی تھیں۔ چھٹی کے وقت گدی پر بیٹھتے ہی میرا اس سے پہلا سوال یہی ہوتا تھا کہ آج گودام میں کون سی فلم چلے گی۔ انہی سوالوں جوابوں اور فلموں میں میں اتنا بڑا ہو گیا کہ ابا نے مجھے ایک سائیکل دلا دی جسے میں خود ہی چلا کے سکول جانے لگا۔ چاچے بلے نے اپنی سائیکل کے ڈنڈے سے میری گدی اتار کر اللہ جانے کہاں رکھ دی۔

جب میں میٹرک میں تھا تو سکول سے گھر لوٹنے پر معلوم ہوا کہ چاچا بلا اپنے بہنوئی کے جنازے میں شرکت کرنے اوکاڑے چلا گیا ہے۔ سب کی طرح میرا بھی خیال تھا کہ وہ ایک دو ہفتے تک واپس آ جائے گا لیکن نہیں آیا۔ بڑے بھائی نے اندازہ لگایا کہ اس کی بہن تین چار جوان بیٹیوں کے ساتھ اوکاڑے میں اکیلی ہو گئی ہے اس لئے اب وہ وہیں رہے گا اسی دوران بورڈ کے امتحانوں کی ڈیٹ شیٹ آ گئی اور میں سب کچھ بھول کے پرچوں کی تیاری میں لگ گیا۔ تھرڈ ڈویژن میں میٹرک پاس کر کے کالج پہنچا اور بچپن کی ساری یادوں کو بھولنے لگا۔ لیکن جب کبھی کینٹ گیٹ کے قریب سینٹ تھامس چرچ اور گورے قبرستان کے پاس سے گزرتا تو چاچے بلے کی یاد آتی وہ بھی اس لئے کہ میں ان دونوں جگہوں پر اس کے ساتھ آ چکا تھا۔

یہ بھی میٹرک کے انہی دنوں کی بات ہے جب مجھ میں جسمانی تبدیلیاں کے ساتھ ساتھ داڑھی مونچھ بھی آنے لگی تھی میں نے کرسمس سے کچھ دن پہلے چاچے سے کہا کہ وہ مجھے اپنے چرچ لے جائے مجھے کرسمس پر ایک مضمون لکھنا ہے۔ مضمون لکھنا تو بس ایک بہانہ تھا مجھے تو وہاں لڑکیاں دیکھنی تھیں مجھے یہ غلط فہمی تھی کہ عیسائیوں کی لڑکیاں بہت کھلی ڈلی ہوتی ہیں مسلمانوں کی طرح پردے کی پابند نہیں ہوتیں اور انہیں لڑکوں کے ساتھ دوستی کرنے میں کوئی شرم بھی نہیں آتی۔ میرے اندر کے گند سے بے خبر چاچے بلے نے حامی بھر لی اور کرسمس پر مجھے سینٹ تھامس چرچ لے کر چلا گیا۔ جہاں جا کے میرے سارے خواب ٹوٹ گئے وہاں ایک بھی لڑکی نہیں تھی بلکہ ایک جوان فادر اپنے دادا پردادا کے ہم عمر پندرہ بیس انتہائی بوڑھے مرد اور عورتوں کے سامنے کھڑا انہیں میرے بچو میرے بچو کہہ کر خدا سے بالکل ویسے ہی ڈرا رہا تھا جیسے ہمارے مولوی ڈراتے ہیں۔ جس طرح ہماری مسجدوں میں بوڑھے بوڑھے نمازی ہوتے ہیں وہاں بھی یسوع مسیح کے ماننے والے ویسے ہی لاغر بزرگ فادر کا درس سن رہے تھے۔ میں نے اس امید پر پورے ایک گھنٹے کا درس برداشت کیا کہ شاید آخر میں لڑکیوں کا ایک ریلا آئے اور آ کے چرچ کے بینچوں پر چھا جائے۔ لیکن جب بھی دروازہ کھلا کوئی نہ کوئی بوڑھا ہی اندر آیا۔ عبادت ختم ہونے کے بعد جب میں چاچے کے ساتھ باہر نکلا تو میرے کانوں میں قہقہے لگاتی شور مچاتی بہت سی لڑکیوں کی آوازیں ایک ساتھ آئیں جو کسی چار دیواری کے اندر ایک دوسرے کو کرسمس کی مبارک باد دے رہی تھیں۔ یہ آوازیں سن کر امید ایک بار پھر جاگ اٹھی اور میں نے چاچے بلے سے کہا کہ وہ مجھے اس طرف بھی لے جائے تاکہ میں دیکھوں کہ مسیحی عورتیں کیسے کرسمس مناتی ہیں۔

”نہیں کاکے ادھر مردوں کا جانا منع ہے“ چاچے نے فوراً انکار کیا
لیکن میں نے ابھی وہاں دو تین لڑکوں کو جاتے دیکھا ہے ”میں نے جھوٹ بولا

وہ ان عورتوں کے رشتے دار اور اپنے بھائی بیٹے ہوں گے ”چاچے نے چرچ سے ملا گلاب جامن منہ میں ڈالتے ہوئے جواب دیا

تم بھی تو ان کے اپنے ہو؟ میں نے دلیل دی

”او نہیں کاکے یار میں ان کا اپنا نہیں ہوں، ہمارا مذہب ایک ہے مگر برادری الگ ہے۔ میری ساری برادری تو اوکاڑے میں ہے“

چاچے نے ہتھیلی پر چپکتے گلاب جامن کا شیرہ ایک درخت کے تنے سے صاف کرتے ہوئے جواب دیا اور اپنے ہم مذہب گلوکار ایس بی جون کا گانا ”تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے“ گنگناتا ہوا وہاں سے روانہ ہو گیا۔ وہ جب بھی اداس ہوتا تو یہی گانا گنگناتا تھا۔ میں نے فادر کے ہاتھوں سے وصول کیا ہوا اپنے حصے کا گلاب جامن کھانے کی بجائے ناپاک جان کر وہیں ایک کیاری میں پھینکا اور اس کے پیچھے چل پڑا۔

چاچے کے اوکاڑے جانے کے بعد نہ مجھے دوبارہ چرچ جانے کا موقع ملا نہ ہی میں نے جانا چاہا۔ جس عبادت گاہ میں آپ کو من کی مراد نہ ملے وہاں جانے کا کیا فائدہ۔ کالج داخل ہونے کی خوشی میں ابا نے موٹر سائیکل دلا دی تو من کی مرادوں تک پہنچنے کے راستے خود بخود نکلنے لگے اور میں ان راستوں پر بھاگتے دوڑتے بی اے میں فیل ہو گیا۔ بی اے میں ناکامی کے بعد بھائیوں نے مجھے کباڑ خانے پر بٹھا دیا کیوں کہ ابا کی صحت اب وہاں بیٹھنے اور کاروبار سنبھالنے کے قابل نہیں رہی تھی۔ انہیں جوانی سے ہی گردوں کا مرض لاحق تھا۔ جو اب اتنا بڑھ گیا تھا کہ ہفتے میں ایک بار مشینوں سے ان کے گردوں کی صفائی بھی ہونے لگی تھی جو اس بات کا اشارہ تھا کہ وہ کسی وقت بھی جا سکتے ہیں۔

ہسپتال میں آدھی رات کے وقت ابا کے رونے کی آواز نے مجھے نیند سے جگا دیا۔ اللہ جانے وہ کب سے رو رہے تھے۔ میں جلدی جلدی اٹھا اور ان کے قریب آیا۔ مجھے دیکھ کر ان کا رونا سسکنے میں بدل گیا۔ انہوں نے سسکتے سسکتے آہستہ سے کہا

”بلے کو ڈھونڈ و کہیں سے“ ۔ انہوں نے اچانک اتنے سالوں بعد چاچے بلے کا نام لے کر مجھے تھوڑا حیران کر دیا تھا۔ وہ جسے سب بھول چکے تھے اللہ جانے آج ہسپتال کے بستر پر پڑے ابا کو کیوں یاد آ رہا تھا

”اسے کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ۔ مجھے اس سے معافی مانگنی ہے۔ جب تک وہ معاف نہیں کرے گا میں اسی تکلیف میں رہوں گا۔ کاکے اپنے چاچے بلے سے کہہ مجھے معاف کر دے تاکہ میں بے سکونی کی موت نہ مروں“

یہ کہہ کر انہوں نے اپنی پوری طاقت سے میرا ہاتھ پکڑا اور تین چار لمبی لمبی سانسیں لینے کے بعد خدا کو دم دے دیا۔

ابا کے چلے جانے کے کئی دن بعد جب زندگی معمول پر آئی تو میں نے بڑے بھائی سے ان کی آخری خواہش کا ذکر کیا۔ بھائی کے چہرے پر پھیلی بے بسی دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ اسے کچھ ایسا معلوم ہے جو میں نہیں جانتا۔ پھر اس نے مجھے وہ بتایا جو میں واقعی نہیں جانتا تھا

” چاچا بلا اپنے بہنوئی کے مرنے پر اوکاڑے نہیں گیا تھا۔ تمہاری وجہ سے گیا تھا“
”میری وجہ سے؟“ میں نے حیران ہو کر پوچھا

” ہاں۔ وہ تمہیں چرچ لے گیا تھا ناں کرسمس کے دن۔ ابا کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے مذاق ہی مذاق میں اسے کہا کیوں اس کچے دماغ اور معصوم کو ان جگہوں پر لے جاتے ہو جہاں مرد عورت آزادی سے ملتے ہیں۔ کل کو کسی بھنگن نے میرے بچے کو بھٹکا کر اس کے ساتھ منہ کالا کر لیا تو پھر کیا ہو گا؟ تیرے جیسا ہی کوئی ناجائز پھر رہا ہو گا سڑکوں پر“

بھائی نے یہ تین جملے ختم کرتے ہی پانی کا پورا گلاس ایک ہی سانس میں ایسے پیا جیسے کربلا سے آ رہا ہو۔ پانی پی کر وہ دوبارہ بولنے لگا

’یہ مذاق ابا اور چاچے بلے کے درمیان ہوتا تو بھی بچت ہو جاتی لیکن انہوں نے تو میری اور دو مزدوروں کی موجودگی میں اتنی بڑی بات کر دی تھی۔ گودام سے ابا کے اٹھ جانے کے بعد چاچا بلا میرے پاس آیا اور بتایا کہ اوکاڑے میں اس کا بہنوئی فوت ہو گیا ہے۔ ابھی ابھی ٹیلی فون آیا ہے۔ ایک دو ہفتے تک واپس آ جاؤں گا فی الحال بڑی بہن اور جوان بھانجیوں کو میری ضرورت ہے۔ لیکن مجھے معلوم تھا وہ کبھی واپس نہیں آئے گا۔ میں نے مزدوروں کے سامنے اس کا اترا چہرہ دیکھ لیا تھا۔ مجھے جانے کی اطلاع دے کر اس نے الماری سے کچھ سامان اپنے تھیلے میں ڈالا اور واپس نہ آنے کے لئے چلا گیا۔ ابا ایک بار اس سے معافی مانگنے اوکاڑے بھی گئے۔ لیکن وہ نہیں ملا۔ اوکاڑے میں ہوتا تو ملتا۔ اس نے ابا کے پاس اپنی بہن کا جو پتہ لکھوا رکھا تھا وہاں تو اس کی کوئی بہن ہی نہیں تھی۔ اس کے آگے پیچھے کوئی بھی نہیں تھا۔ سوائے ہمارے‘ یہی گودام اس کا گھر تھا اور ہم اس کے رشتے دار۔ لیکن ابا کے ایک غلط لفظ نے سارے رشتے ختم کر دیے ’

کیا وہ لفظ سچ تھا؟ میں نے بھائی سے پوچھا

”ہاں وہی چاچے بلے کا سچ تھا جو اس نے صرف ابا کو بتایا ہوا تھا اور انہوں نے بے دھیانی میں وہ راز کھول کے اسے ننگا کر دیا“

بھائی کا اعتماد بتا رہا تھا کہ بڑا بیٹا ہونے کی وجہ سے ابا نے اسے چاچے بلے کے ناجائز ہونے کی کہانی سنا رکھی ہے۔ لیکن میرے لئے صرف وہی کہانی سچی تھی جو مجھے چاچے بلے نے سنائی تھی۔ میں مرتے دم تک اسی کہانی پر قائم رہنا چاہتا تھا کہ چاچے کی فیروزی آنکھ اوکاڑے کے ایک آوارہ بلے نے عطیہ کی تھی۔

اس انکشاف کے بعد مجھے اپنا سارا وجود ایک کھلا زخم محسوس ہونے لگا۔ کافی عرصے تک روز رات کو سونے سے پہلے ندامت کا احساس مکھی بن کر اس زخم پر بیٹھ جاتا۔ کاش میں چاچے کے ساتھ چرچ نہ جاتا۔ میری وجہ سے چاچے کو گھر چھوڑنا پڑا ابا کو مرتے دم تک اس سے شرمندہ رہنا پڑا۔ میں نے کئی بار اسے ڈھونڈنے کا سوچا لیکن ڈھونڈتا بھی تو کہاں۔ اماں یہ بھی کہتی تھیں کہ اب تک تو وہ مر بھی گیا ہو گا وہ تو تمہارے ابا سے بھی آٹھ دس سال بڑا تھا۔ میں اماں کے اس اندازے پر اعتبار کرتے ہوئے آہستہ آہستہ ابا کی وصیت کو جان بوجھ کر بھولنے لگا۔ ابا کی قبر پر جانا بھی چھوڑ دیا کیوں کہ جب بھی جاتا تو مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے وہ مجھ سے پوچھ رہے ہوں ”ہاں کاکے تیرا بلا چاچا ملا تجھے؟“

اس دوران بھابھی کی کوشش سے میری شادی ایک ایسی لڑکی سے ہو گئی جو عالمہ کا کورس کر چکی تھی اس لئے اس نے ہنی مون کی بجائے حج پر جانے کی فرمائش کر دی۔ میری کراچی والی بڑی سالی کے مشورے پر ہم نے کراچی سے سعودیہ جانے کا فیصلہ کیا کیوں کہ وہاں سے جہاز کا سفر سستا پڑتا تھا۔ سالی کے گھر میں دو دن گزارنے کے بعد ہم حج تربیتی پروگرام کے لئے سلطان آباد کے حاجی کیمپ آ گئے جہاں ہمارے گروپ کے باقی لوگ بھی آچکے تھے۔ کچھ دنوں کی تربیت کے بعد ہی فلائٹ کی تاریخ آ گئی۔ ہم دونوں میاں بیوی سرکاری بس کی بجائے ایک کار میں ائرپورٹ روانہ ہوئے جس کا بندوبست میری بیوی کے بہنوئی صاحب نے کیا تھا۔ شاہراہ فیصل کے ایک اشارے پر گاڑی رکتے ہی میری نظر اچانک چاچے بلے جیسے آدمی پر پڑی جو کندھے پر پلاسٹک کا بڑا سا بورا اٹھائے مخالف سمت کی فٹ پاتھ پر چلتا آ رہا تھا

اسے دیکھتے ہی میں بے چین ہو کر دعا کرنے لگا کہ وہ سگنل کھلنے سے پہلے ہی اتنا قریب آ جائے کہ میں اسے پہچان سکوں۔ لیکن خدا نے میری دعا نہیں سنی۔ جیسے ہی وہ آدمی میرے نزدیک آیا سگنل کھل گیا اور گاڑی آگے چل دی۔ لیکن میں نے اسے پہچان لیا۔ وہ چاچا بلا ہی تھا۔ اس کے سر اور داڑھی کے سارے بال سفید ہو چکے تھے اس نے اپنا وہی کالا چشمہ لگایا ہوا تھا۔ اسے اس حالت میں دیکھ کر میرا حلق سوکھ گیا اور میں اسی سوکھے حلق کی پوری طاقت سے چلایا ”گاڑی روکو“ ۔ ڈرائیور نے گھبرا کر سڑک کنارے بریک لگائی اور میں بے تاب ہو کر گاڑی سے نکلا۔ بڑی مشکل سے سڑک پار کی اور اپنے رستے پر جاتے چاچے بلے کے سامنے رکاوٹ بن کر کھڑا ہو گیا۔ وہ حیران ہو کے مجھے دیکھنے لگا جیسے سوچ رہا ہو کہ یہ کون ہے جو اس طرح اس کے سامنے آ کھڑا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی سوال کرتا میں خوشی سے چلا اٹھا

”چاچا بلا میں ہوں۔ تمہارا کاکا“

لیکن اس پر میری چیخ کا کوئی اثر نہیں ہوا اس نے کاٹھ کباڑ سے بھرا بورا فٹ پاتھ پر رکھا اور اپنا چہرہ میرے قریب کر کے مجھے غور سے دیکھنے لگا۔ جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو۔

”کون کاکا؟“ اس نے اپنے دھیمے لہجے میں سوال کیا
”عینک اتار کے دیکھو گے تو پہچان جاؤ گے چاچا“ میں نے ڈوبتی آواز میں اسے مشورہ دیا
اس نے کالی عینک اتاری ’ڈھلک چکے پپوٹوں میں چھپا اس کا فیروزی ڈیلا میری آنکھوں میں جھانکنے لگا

”معاف کرنا جوان میں نے نہیں پہچانا۔ یا تو تجھے کوئی غلط فہمی ہوئی ہے یا پھر میری نظر اور یادداشت کمزور ہو گئی ہے۔ تھوڑا پاگل بھی ہو گیا ہوں سیانے کہتے ہیں اس عمر میں دماغ پلپلا ہو جاتا ہے اس لئے اس پر زیادہ زور نہیں دینا چاہیے ورنہ پھٹ جائے گا اور پانی بن کر منہ اور ناک سے بہنے لگے گا۔ اس لئے میں اپنے مغز پر زیادہ زور نہیں ڈالتا کہ کہیں سب کچھ پگھل ہی نہ جائے“ اپنی بات مکمل کرتے ہی وہ بڑھاپے کی لرزتی آواز میں اپنا پسندیدہ گانا ”تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے“ گنگنانے لگا۔ اس کی باتوں اور گنگنانے کے انداز سے میں سمجھ گیا کہ اس کا دماغ اپنی جگہ سے ہل گیا ہے۔ مجھ میں مزید کچھ کہنے کی ہمت ہی نہیں تھی۔ میری آنکھوں سے آنسو بہے جا رہے تھے

”کہاں جا رہے ہو؟“ اس نے اچانک سوال کیا
”حج پر“ میں نے آنسو روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے جواب دیا
”حج پر جاتے ہوئے تو لوگ ہنستے ہیں تو کیوں رو رہا ہے؟“ چاچے کے لہجے میں حیرت تھی

پتہ نہیں ”میں نے بہتے آنسوؤں کو دونوں ہتھیلیوں سے صاف کرتے ہوئے کہا۔ اب میں اسے کیسے بتاتا کہ میں اس لئے رو رہا ہوں کہ نہ تم اپنے کاکے یار کو پہچان رہے ہو نہ تمہیں اس کے ساتھ گزرا اچھا وقت یاد ہے۔ میں اسے کیسے بتاتا کہ میں تمہارا پاگل پن دیکھ کر رو رہا ہوں، تمہاری گم ہو گئی عقل کا ماتم کر رہا ہوں۔

”جو دل میں ہے کہہ دے جوان۔“ اس نے میرے دھڑکتے دل پر اپنا لرزتا ہاتھ رکھا اور دوبارہ گنگنانے لگا ”یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے“

” ابا مرتے وقت بہت تکلیف میں تھا چاچا۔ تمہیں یاد کر کے رو رہا تھا۔ سکرات میں اللہ رسول کی بجائے تمہارا نام لے رہا تھا۔ اسے معاف کردو کہیں وہ قبر کے عذاب میں نہ ہو“ میں نے روتے روتے فریاد کی۔

لیکن اس نے میری فریاد پر کوئی توجہ نہیں دی۔ وہ بس مجھے اپنی ایک آنکھ سے دیکھے جا رہا تھا اور میں اپنے دل پر رکھے اس کے ہاتھ کی کپکپاہٹ محسوس کر رہا تھا۔ مجھے کوئی جواب دیے بغیر اس نے ہاتھ میرے سینے سے ہٹایا۔ اپنے کندھے پر لٹکتے کپڑے کے ایک اور چھوٹے سے تھیلے کو اتارا اور زمین پر رکھ کر اس میں سے پانی کی ایک بڑی بوتل نکالی۔ اکڑوں بیٹھ کر دائیں ہاتھ کو پانی سے دھونا شروع کیا۔ اس سارے عمل کے دوران وہ گنگناتا رہا۔

”وہ آئیں نہ آئیں جمی ہیں نگاہیں
ستاروں نے دیکھی ہیں جھک جھک کے راہیں
یہ دل بدگماں ہے نظر کو یقیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے ”

ہاتھ دھو نے کے بعد وہ ٹیلی فون کے کھمبے کو سہارا بنا کر اٹھا اور دھلے ہاتھ میں گردن کی لٹکتی صلیب لے کر اپنی نحیف آواز میں چلایا

”فیروزی آنکھوں والے نامعلوم باپ کو چھوڑ کے باقی سارے معاف۔ جو جہاں ہو سکھی ہو آباد ہو“

اس عام معافی کا اعلان کر کے وہ دوبارہ فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا اور کپڑے کے تھیلے میں موجود چیزوں میں سے کچھ تلاش کرنے لگا۔ لیکن اس تلاشی کے وقت وہ بالکل خاموش تھا اس کی گنگناہٹ کہیں کھو چکی تھی۔ چند لمحوں بعد اس کا ہاتھ تھیلے سے سائیکل کی وہی گدی لئے باہر نکلا جو اس نے میرے لئے بنائی تھی۔ اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے وہ گدی میرے پیروں کی طرف کھسکاتے ہوئے بس اتنا کہا

”تیرا سفر بہت لمبا سفر ہے کاکے یار۔ اس پر بیٹھ کے جا۔ آرام سے پہنچ جائے گا مکے مدینے۔ وہاں کوئی حلالی ملے تو اسے کہنا کراچی کا بلا حرامی تجھے سلام دیتا ہے“ ۔

مصطفیٰ آفریدی
Latest posts by مصطفیٰ آفریدی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مصطفیٰ آفریدی

ناپا میں ایک سال پڑھنے کے بعد ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامے لکھنا شروع کیے جو آج تک لکھ رہا ہوں جس سے مجھے پیسے ملتے ہیں۔ اور کبھی کبھی افسانے لکھتا ہوں، جس سے مجھے خوشی ملتی ہے۔

mustafa-afridi has 22 posts and counting.See all posts by mustafa-afridi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments