علامہ محمد اقبالؒ کا نظریہ تعلیم


اکثر لوگ مجھ سے استفسار کرتے ہیں کہ علامہ اقبال کا نظریہ تعلیم کیا ہے؟ علامہ کے نظریہ تعلیم کو سمجھنے، جانچنے اور پرکھنے کے لیے ان کی شاعری اور ان کے افکار کا عمیق مطالعہ ناگزیر ہے۔ علامہ صاحب نے تعلیمی مسائل پر خصوصی توجہ دی ہے۔ انھوں نے جہاں اپنی شاعری میں تعلیم و تربیت سے متعلق پراثر اشعار کہے ہیں وہی نثری نگارشات میں بھی تعلیمی مسائل کو خاص اجاگر کیا ہے۔ علاوہ ازیں وہ طویل عرصے تک درس و تدریس کے شعبے سے منسلک رہے ہیں۔ انھیں تعلیمی مسائل اور باریک بینیوں کا خاص تجربہ حاصل تھا۔ ان کے ہاں تعلیم کا ایک مربوط اور جامع نظام موجود ہے جو انھوں نے قرآن مجید سے اخذ کیا ہے اور یہ عین اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے۔

علامہ کے زمانے میں دو طرح کے تعلیمی نظام رائج تھے۔ ایک وہ جو عرصہ دراز سے دینی درس گاہوں میں نافذ تھا جو کہ دقیانوسی اور فرسودہ خطوط پر استوار تھا۔ جس کا کام محض دینی تعلیم دینا تھا۔ یہ تخلیقی نہیں بلکہ تقلیدی تھا اور کسی قسم کی تبدیلی پر مائل نہ تھا۔ دوسرا مغربی مفکر لارڈ میکالے کا بنایا ہوا الحادی فکر پر مبنی انگریزی تعلیمی نظام تھا۔ اس نظام کا ہدف اول حکومتی مشنری کے لیے کلرک اور منشی پیدا کرنا تھا۔ علاوہ ازیں مسلمانان ہند کو ذہنی غلامی، محکومی اور فکر معاش دے کر ان کی روح قبض کرنے کی مقصد پر گامزن تھا۔ اس سازش کو درک کرتے ہوئے انھوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ۔

عصر حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے
قبض کی روح تری دے تجھے فکر معاش
اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم
اک سازش ہے فقط دین مروت کے خلاف

آپ دیکھیں تو آج بھی گوروں کا چھوڑا ہوا کفریہ نظام پوری آب و تاب کے ساتھ رواں دواں ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں سے سالانہ ہزاروں طلبہ ڈگریاں لے کر نکلتے ہیں مگر وہ فکری پستی کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ شاہینی صفات سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ خود کے مسائل میں جکڑے ہوتے ہیں۔ چہرہ روشن مگر دل تاریک ہوتا ہے۔ مادیت پرستی کے گہرے دلدل میں گر چکے ہوتے ہیں۔ ان کا ہدف اول پیسہ کمانا ہوتا ہے۔ مغربی روایات اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ نوجوانوں کی اسی حالات زار پر اقبال عرض کرتے ہیں۔

خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

وہ ان مسائل کا ذمہ دار مغربی تعلیمی نظام کو ٹھہراتے ہیں۔ جب وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ چلے گئے تو انھوں نے دیکھا کہ مغرب کا نظام تعلیم مادی بنیادوں پر ہی استوار ہے۔ تعلیم کا مقصد محض دنیوی آسائشات سمیٹنا ہے اور جس علم کا مقصد صرف روٹی حاصل کرنا ہو وہ سراسر موت ہے۔

وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں
جس علم کا حاصل ہے فقط دو کف جو

غرض ایک نظام کا کام انتہا پسندی کو فروغ دینا جبکہ دوسرے کا کام آزاد خیالی کو پروان چڑھانا تھا۔ ان اداروں سے فارغ التحصیل طلبہ فکری جمود کا شکار تھے۔ یہاں دین اور دنیا کی تعلیم میں شدید ٹکراؤ تھا۔ اس ٹکراؤ کے نتیجے میں تعلیمی نظام بری طرح متاثر تھا۔ حالانکہ دین اور دنیا کی تعلیم ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں۔ دینی تعلیم اتنی ہی ضروری ہے جتنی سائنس کی تعلیم۔ بہرحال علامہ صاحب دونوں طرح کے نظام سے نالاں تھے۔ علامہ نے اپنے اشعار میں جا بجا دونوں نظاموں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا، لا الہ الا اللہ
مزید فرماتے ہیں۔
دنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار
کیا مدرسہ، کیا مدرسے والوں کی تگ و دو!
کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو!

اقبالؒ مسلمانان ہند کے لیے ایک ایسی درس گاہ قائم کرنا چاہتے تھے جس میں قدیم اور جدید علوم کی ارتباط ہو۔ اقبالؒ چاہتے تھے کہ جدید مغربی علوم اسلام کے تابع ہوں اور وہ انسان کو مادیت کی طرف نہ لے جائیں۔ علامہ اقبالؒ کا ایک مضمون رسالہ مخزن میں 1902 ء میں بعنوان ”بچوں کی تعلیم و تربیت“ شائع ہوا تھا۔ اس مضمون میں اقبال نصاب کو فطرت سے ہم آہنگ کرنے کی تاکید کرتے ہیں۔ بچوں کے لیے نصاب ڈیزائن کرتے وقت ان کے درجے کا خاص خیال رکھا جائے اور وہ نصاب بچوں میں احساس ہمدردی و احساس ذمہ داری پیدا کرے۔

وہ بچوں کو ابتدائی تعلیم مادری زبان میں جبکہ دیگر علوم اپنی قومی زبان میں پڑھانے کی سفارش کرتے ہیں۔ انگریزی کو بطور رابطہ زبان سکھایا جانا چاہیے۔ اقبالؒ چاہتے تھے کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو دینی اور دنیوی تعلیم کچھ اس انداز میں دیں کہ وہ مغربی تہذیب سے مرعوب ہونے کے بجائے اپنی تہذیب و تمدن اور مذہب سے جڑے رہ کر دنیا کے ساتھ چلنے کا ہنر سیکھ لیں۔

وہ ایک ایسا تعلیمی نظام کے خواہاں تھے جو نوجوانوں میں انقلابی فکر پیدا کرے۔ ایسی تعلیم جو محض درسی کتاب اور کمرہ جماعت تک محدود نہ ہو بلکہ فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔ اقبالؒ کا نظریہ تعلیم کا مرکز و محور خودی ہے۔ تعلیم کا بنیادی مقصد ایک بچے میں خودداری، غیرت، تجسس اور تخلیقی ذہنیت پیدا کرے۔ وہ کہتے ہیں کہ تعلیم کا مقصد محض روٹی کا حصول نہ ہو۔ بلکہ آپ کی تعلیم آپ کو اس قابل بنا سکے کہ آپ دنیا میں رہبریت کا فریضہ انجام دے سکیں۔

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اپنی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے ادھر پھیر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments