’آپ نے احتجاج کرنا ہے، ضرور کریں، لیکن عوام کو بھی تو ان کا حق دیں‘


احتجاج
راولپنڈی میں مختلف مقامات پر سڑکیں بند ہیں اور مظاہروں کا سلسلہ منگل کو دوسرے دن بھی جاری ہے۔

مظاہروں کا یہ سلسلہ پاکستان تحریک انصاف کی اپیل پر اس وقت شروع ہوا جب پارٹی قیادت نے عمران خان پر ہونے والے حملے کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا۔ پہلے دن یہ احتجاجی مظاہرے حملے اور ایف آئی آر درج نہ کرنے کے خلاف ہوئے، جبکہ دوسرے دن ایف آئی آر ’غلط‘ درج کرنے کے خلاف جاری رہے۔

اس دوران راولپنڈی اور اسلام آباد کو ملانے والی سڑکیں گھنٹوں بند رہیں اور شہری شدید اذیت کا شکار رہے۔

راولپنڈی سے اسلام آباد ملازمت اور تعلیم کے سلسلے میں ہر روز شہریوں کی ایک بڑی تعداد اسلام آباد آتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق روزانہ پانچ لاکھ سے زیادہ افراد اسلام آباد ملازمت یا کاروبار کی غرض سے سفر کرتے ہیں۔

جبکہ اسلام آباد میں داخل ہونے والی گاڑیوں کی تعداد ڈھائی لاکھ سے زیادہ ہے۔ کیپٹل ڈویپلمنٹ اتھارٹی یعنی سی ڈی اے کے مطابق صرف اسلام آباد ایکسپریس وے سے ہی ستر ہزار سے زیادہ گاڑیاں اسلام آباد میں داخل ہوتی ہیں۔

اسلام آباد مظاہرے

اسلام آباد کے خارجی راستوں پر گاڑیوں کا رش شام کے اوقات میں سب سے زیادہ ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سڑکیں بند ہونے کی صورت میں دو سے ڈھائی لاکھ گاڑیاں دارالحکومت کی سڑکوں پر پھنس جاتی ہیں

اسلام آباد کے خارجی راستوں پر گاڑیوں کا رش شام کے اوقات میں سب سے زیادہ ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سڑکیں بند ہونے کی صورت میں دو سے ڈھائی لاکھ گاڑیاں دارالحکومت کی سڑکوں پر پھنس جاتی ہیں اور ان میں سوار ملازمت پیشہ افراد، مریضوں، طلبا اور بچوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اسی صورتحال کا سامنا ان دو روز سے اسلام آباد سے راولپنڈی جانے والے شہریوں کو کرنا پڑا ہے جب راولپنڈی میں مختلف جگہوں پر ان سڑکوں کو بند کر دیا گیا جہاں سے اسلام آباد سے راولپنڈی میں داخل ہونے والی ٹریفک گزرتی ہے۔

اسی ٹریفک میں پھنسے راولپنڈی کے شہری ذیشان جاوید نے بی بی سی سے بات کی۔ وہ اسلام آباد میں ایک بینک میں جاب کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انھیں اسلام آباد کے تجارتی مرکز بلیو ایریا سے راولپنڈی صدر پہنچنے میں چھے گھنٹے لگے:

’بلیو ایریا سے فیض آباد تو میں 15 منٹ میں پہنچ گیا تھا مگر ایکسپریس وے بلاک ہونے کی وجہ سے میں نے مری روڈ کا رخ کیا مگر وہاں دو گھنٹے گزرنے کے بعد بھی ایک کلومیٹر تک کا سفر نہیں ہو پایا۔ مظاہرین نے سڑک کو بلاک کر رکھا تھا۔ میں نے یوٹرن آنے پر آئی جے پی روڈ کے ذریعے راولپنڈی میں داخل ہونے کی کوشش کی تو وہاں بھی یہی صورتحال تھی۔ اگلے دو گھنٹے مزید وہیں پھنسا رہا۔ ہر طرف یہی صورتحال تھی۔ گاڑیوں میں بچے، خواتین اور بزرگ بیٹھے تھے اور کئی گھنٹوں سے پھنسے ہوئے تھے۔‘

احتجاج کی وجہ سے بند سڑکیں

وہ کہتے ہیں کہ چار گھنٹے سڑک پر گزارنے کے بعد انھوں نے بائیک پر جانے کا فیصلہ کیا۔ ’واپس مڑنے کی کوئی صورت نہیں تھی اس لیے یو ٹرن کا انتظار کیا اور پھر واپس اسلام آباد دفتر کی جانب گیا۔ وہاں گاڑی پارک کی اور بائیکیا ایپ سے ایک موٹرسائیکل منگوایا۔ پھر بائیک پر سوار ہو کر ہم گولڑہ موڑ کی طرف نکلے کہ شاید وہاں ٹریفک رواں ہو۔ لیکن وہاں بھی بہت برے حالات تھے۔ لوگ گاڑیوں کا انجن بند کر کے کھڑے تھے۔ بچے رو رہے تھے اور ٹریفک چلنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ دو گھنٹے سے زیادہ وقت اس ٹریفک میں لگا اور بالآخر پنڈی میں داخل ہو سکے۔‘

ایموس مانی نامی ایک ٹویٹر صارف نے لکھا کہ وہ اپنے شیرخوار بچے کے ساتھ چھ گھنٹے تک پرانے ایئرپورٹ روڈ پر پھنسی رہی ہیں۔ ’ہمارے پاس بچے کے لیے دودھ تک ختم ہو گیا تھا۔ میرا پاس بچے کے لیے صفائی کا انتظام نہیں تھا، اس نے تین بار الٹی کی۔ ہم عدم تحفظ کے باعث گاڑی سے نہیں نکل سکتے تھے۔ یہ تو مجھے ’غیر حقیقی مارچ‘ لگتا ہے۔‘

نسیم شیخ نامی صارف نے لکھا کہ پی ٹی آئی کو سڑک بلاک کرنے کی بجائے اپنی ’اسٹریٹجی تبدیل کرنا ہو گی۔‘

عائشہ اویس نامی ایک صارف نے لکھا کہ وہ بھی پشاور روڈ پر چار گھنٹے تک پھنسی رہی ہیں۔ ’ہم لاہور سے اسلام آباد واپس آ رہے تھے۔ مگر میں یہ بھی سمجھتی ہوں کہ اب کرپٹ مافیا کے خلاف ایک انقلاب لانے کا اور کوئی طریقہ نہیں، اس لیے میں یہ شکوہ نہیں کرتی کہ میں چند گھنٹے روڈ پر پھنسی رہی ہوں۔ جب تک تکلیف نہیں ہو گی آپ کچھ حاصل نہیں کر سکتے۔‘

https://twitter.com/Ymusmani/status/1589849356592885762?s=20&t=QsxyEmXF_SXdpEjt52JBdw

پی ٹی آئی کے احتجاج کی وجہ سے بند سڑکیں

راولپنڈی کی رہائشی ایک خاتون نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’شرم حیا نہیں ہے ان سیاستدانوں کو۔ جب دل چاہتا ہے روڈ بلاک کر دیتے ہیں۔ کبھی سیاستدان آ جاتے ہیں، کبھی وہ مذہبی آ جاتے ہیں۔ کیا یہ ملک ان سیاستدانوں کے لیے بنا ہے؟‘

اسی طرح محمد بلال نامی ایک شہری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سب کچھ ڈسٹرب ہو چکا ہے، اب اگر کوئی ایمرجنسی ہو جائے تو کہاں اور کیسے جائیں گے؟‘

وہ کہتے ہیں کہ کوئی ایسی جگہ ہونی چاہیے جہاں ہم شہری اپنا احتجاج ریکارڈ کرا سکیں۔ یہ کیا کہ آج ایک جگہ جمع ہو کر سڑک بلاک کر دی، کل دوسری جگہ یہی کام کر دیا۔ نقصان تو ہمارا ہو رہا ہے، ہماری جیب سے ہی بعد میں پیسے جانے ہیں۔‘

اس دوران بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک نے ان سے پوچھا کہ ’یہ تو حقیقی آزادی کا لانگ مارچ ہے۔‘ جس پر محمد بلال نے انہیں جواب دیا: ’ایسی حقیقی آزادی کو کیا کرنا جس میں عوام پس جائے؟‘

ایک خاتون کے مطابق انھیں ایک شخص نے کہا کہ میں نے سی ایم ایچ ایک مریض کو لینے جانا ہے۔ پہلے ایئرپورٹ چوک بند تھا تو وہاں سے مری روڈ آیا۔ اب یہاں مری روڈ پر کھڑا ہوں اور یہ بھی بند ہے۔ عام عوام کو تو یہ پریشانی ہے کہ اگر کسی نے ہسپتال جانا ہے تو وہ کیا کرے۔ ٹھیک ہے آپ نے احتجاج کرنا ہے، ضرور کریں۔ لیکن عوام کو بھی تو ان کا حق دیں۔

سڑکوں کی یہی بندش کاروبار کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ راولپنڈی میں ایک دکاندار صفدر حسین نے کہا کہ ان کا کام فیض آباد بند ہونے کی وجہ سے متاثر ہوا ہے۔ ’روڈ بند ہونے کی وجہ سے کسٹمر نہیں آتے۔‘ انہوں نے بتایا کہ وہ اور مارکیٹ کمیٹی کے افراد ڈی سی کے دفتر جاتے ہیں اور انہیں بتاتے ہیں کہ ان کا کتنا نقصان اس وجہ سے ہوا کہ سڑک بند تھی۔ ’انجمن تاجران کے سربراہ کے ذریعے انتظامیہ کو پیغام پہنچایا ہے اور امید ہے کہ کچھ مثبت اقدام ہوں گے۔‘

https://twitter.com/AishaaAwais/status/1589932530056441856?s=20&t=tGEFR5dTGsqGJLLB2zwhtQ

انہوں نے کہا کہ انتظامیہ یا تحریک انصاف کے کارکنوں نے انھیں کسی موقع پر یہ نہیں کہا کہ دکانیں یا کاروبار بند کر دیں، ’مسئلہ یہ ہے کہ ایسی صورتحال میں گاہک نہیں آتے۔‘

اس تمام صورتحال میں پی ٹی آئی کے کارکنان مظاہروں کے دوران اور سوشل میڈیا صارفین آن لائن سڑکوں کی بندش کا ’جواز‘ پیش کرتے نظر آتے ہیں اور اسے ایک بڑے مقصد کے لیے چھوٹی قربانی قرار دیتے ہیں۔

پی ٹی آئی کے رہنما فیاض چوہان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس تاثر کی نفی کی کہ عوام کو کوئی مسئلہ درپیش ہے۔ وہ کہتے ہیں ’ہم نے صرف ٹائر جلائے، ایک بھی سرکاری یا غیر سرکاری عمارت، گاڑیوں اور موٹر سائیکل کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔‘

انھوں نے بتایا ’ہماری یہی ہدایات بھی ہیں۔ یہاں آپ دیکھیں ریڑھی والے اپنا سامان بیچ رہے ہیں۔ جب پاکستان کی تحریک چلی تھی تب بھی احتجاج اور مظاہرے ہوتے تھے، تو کیا ٹریفک جام نہیں ہوتی تھی؟ سات سال تحریک پاکستان چلی کیا اس وقت ٹریفک جام نہیں ہوئی جب قائد اعظم ریلیوں کی قیادت کر رہے تھے۔ تھوڑی بہت ٹریفک جام ہوتی ہے مگر یہ سب ایک بڑے مقصد کے لیے ہو رہا ہے۔ مستقبل کی بڑی تکلیف سے بچنے اور حقیقی آزادی کے لیے ہم یہ چھوٹی سی تکلیف برداشت کر رہے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments