ہوشنگ پی بومن جی، یادوں میں ہمشیہ زندہ رہیں گے


وجاہت مسعود کا ہم سب پر کالم پڑھا جس میں انہوں نے بتایا کہ ملتان کی انتہائی خوبصورت شخصیت ہوشنگ پی بومن جی چل بسے ہیں، ملتان ایک عرصہ گزارا، صحافت میں آنے سے قبل والد مرحوم اعجاز حسین کاظمی کے ساتھ کام کیا کرتا تھا، پڑھائی کے ساتھ ساتھ ان کے کاروباری معاملات بھی دیکھتا تھا، والد آرکیٹیکٹ تھے، جنوبی پنجاب کی بڑی شخصیات کے گھر، پلازے اور دفاتر کے زیادہ تر ڈیزائن والد صاحب ہی کرتے تھے، جنوبی پنجاب کی اشرافیہ فخر سے بتاتے کہ ہم نے ڈیزائن اعجاز کاظمی سے کرایا ہے

1988 ء میں پیپسی کولا (جو اس وقت جہانگیر ترین کی ملکیت تھی) کے تعمیراتی کاموں کے ٹھیکے والد صاحب کے پاس تھے، والد صاحب دفتر میں کلائنٹس کو ڈیل کرتے، میں کنسٹرکشن ڈویژن کا ہیڈ تھا، اعجاز سید ایسوسی ایٹس کے نام پر والد صاحب نے کچہری چوک کے قریب حلیم اسکوائر میں آفس بنایا ہوا تھا، ایک دن میں آفس آیا تو ایک بزرگ بیٹھے تھے، والد صاحب نے میرا تعارف کرایا کہ میرا بیٹا ہے اور پھر ان کا تعارف کرایا کہ بیٹا یہ بومن جی ہیں، بہت عظیم شخصیت ہیں

ملتان کینٹ میں بومن جی کے نام پر چوک ہے، اس وجہ سے بومن جی نام نیا نہ لگا، میں نے فوراً سوال کر دیا، بومن جی چوک آپ کے نام پر ہے سر؟ تو مسکرا دیے اور کہا جی ہمارا خاندانی اعزاز ہے، یہ سن کر بہت خوشی ہوئی کہ ملتان کی بڑی شخصیت سے ملاقات کا شرف حاصل ہو گیا ورنہ میرے ذہن میں یہی تھا کہ ماضی کی کوئی بڑی شخصیت تھی جس کے نام پر چوک کا نام بومن جی رکھا گیا ہے

کچھ دیر بومن جی سے گپ شپ ہوئی، انہوں نے والد صاحب سے پوچھا بیٹا بھی آرکیٹیکٹ ہے کیا؟ ، تو میں جواب دیا نہیں سر، ابھی بی ایس سی کر رہا ہوں، تو انہوں نے مضامین پوچھے، میں بتایا ڈبل میتھ، سٹیٹ کے ساتھ کر رہا ہوں، جس پر بومن جی بولے، پڑھائی مکمل نہیں تو کام کیوں کر رہے ہیں، پڑھائی بہت ضروری اور سب سے پہلے ہیں، ان کا انداز نصیحت اور انداز گفتگو دل کو بہت بھایا، میں نے کہا جی انشاء اللہ تعلیم مکمل کروں گا، بس یہی سمجھ لیں ایڈونچر کر رہا ہوں

چائے پینے کے بعد وہاں سے رخصت ہو گیا، چند روز والد صاحب نے صبح آفس جاتے ہوئے کہا 12 بجے آجانا، بومن جی کے گھر جانا ہے، ان کے گھر کی عمارت کے کچھ مسائل ہیں اور بومن جی اس کی رینو ویشن بھی کرانا چاہتے ہیں، کینٹ میں بومن جی کے گھر پہنچنے پر ساڑھے بارہ بج چکے تھے، بیل دی ایک ملازم آیا اور اندر لے گیا، ڈرائینگ روم تو نہیں لگ رہا تھا، لاؤنج تھا، بومن جی وہاں ہمارا بارہ بجے سے انتظار کر رہے تھے، ہم داخل ہوئے تو انہوں ہی پرتپاک خیرمقدم کیا اور انگریزی میں کہنے لگنے مسٹر کاظمی آپ آدھ گھنٹہ لیٹ ہیں

بومن جی نے کوٹ پینٹ پہن رکھا تھا، شیو کی ہوئی تھی اور بالکل فریش لگ رہے تھے، ان کا گھر پرانے زمانے تھا، ایک ایک چیز بہت سلیقے سے سجائی گئی تھی، فرنیچر بھی پچاس سال پرانا اور خالص شیشم کا بنا ہوا تھا، انٹیریئر ڈیزائننگ اور کنسٹرکشن کے کام سے وابستہ ہونے کی وجہ سے بہت دلچسپی سے دیکھا کیونکہ اس وقت اس طرح کا فرنیچر بننا بہت مہنگا تھا، مجھے خوشی اس بات کی ہو رہی تھی کہ فرنیچر کی حفاظت جس طرح کی گئی وہ کوئی اہل ذوق ہی کر سکتا ہے

میرے پوچھنے پر بومن جی بتایا کہ یہ فرنیچر میری بیگم نے خود بنوایا تھا جس سے ان کی اہلیہ کے اعلی ذوق کا اندازہ ہوا تھا، اس دوران چائے آ گئی اور بومن جی سے کام کے بعد گپ شپ ہونے لگی، ان کا انداز گفتگو بہت خوبصورت تھا جس سے بہت متاثر ہوا اس کے بعد اپنی گفتگو میں آج تک بومن جی کے انداز گفتگو کو کاپی کرنے کی کوشش کرتا ہوں، بومن جی زیادہ تر انگلش بولتے تھے

اس ملاقات کے بعد بومن جی سے ایک اور ملاقات ہوئی، ان سے مل کر تسکین ملتی تھی اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کسی اپنے عزیز سے ملاقات ہوئی ہو، اپنی ملاقات میں بومن جی اپنے رفاہی کاموں کے بارے میں بھی بتایا کرتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ میرے پاس بہت کچھ ہے اس لئے کوشش کرتا ہوں کو ان میں سے مستحقین کو حصہ دوں مگر وہ ان کاموں کی کبھی بھی تشہیر نہیں کرتے تھے

بومن جی کی وفات کا پڑھ کر میں کئی روز ماضی میں کھویا رہا، اب بھی ان سے ملاقات کی فلم میری یادوں میں چل رہی ہے جس میں میرے انتہائی شفیق باپ اعجاز کاظمی بھی شریک ہوتے ہیں، بقول شاکر حسین شاکر کے بومن جی کی وفات سے ملتان سے پارسی افراد ختم ہو گئے، بومن جی کی وفات سے ایک عہد تمام ہوا مگر بومن جی ہماری یادوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments