شہباز شریف کا قومی سیاسی منصوبہ کیا ہے؟


وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے وعدے کے مطابق چیف جسٹس کو ایک خط میں عمران خان پر قاتلانہ حملہ کی تحقیقات کے لئے فل کورٹ کمیشن بنانے کی درخواست کی ہے۔ انہوں نے ایک علیحدہ خط میں صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لئے بھی ایسا ہی فل کورٹ کمیشن بنانے کا کہا ہے۔ اب یہ چیف جسٹس پر منحصر ہے کہ وہ اس درخواست پر کیسے اور کیوں کر عمل کرتے ہیں۔ تاہم موجودہ سیاسی حالات میں ایسا کوئی بھی اقدام نہ تو مسائل حل کرے گا اور نہ ہی بداعتمادی اور نفرت کی فضا ختم کرنے میں معاون ہو گا۔

یہ قیاس کر لینا سادہ لوحی ہوگی کہ سپریم کورٹ کا قائم کردہ کمیشن کسی معاملہ میں کوئی رائے دے گا اور یوں سارا مسئلہ خوش اسلوبی سے حل ہو جائے گا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسا کوئی کمیشن اول تو نہ جانے کیسے اور کتنی مدت میں اس معاملہ کو نمٹائے گا اور وزیر اعظم کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کے جواب میں کس حد تک معاملہ کی تہہ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گا۔ ملک میں عدالتی کمیشن کا مطالبہ تو بڑے جوش و خروش سے کیا جاتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں کبھی بھی کسی ایسے کمیشن کے ذریعے نہ تو کسی مسئلہ پر خاطر خواہ معلومات سامنے آ سکیں اور نہ ہی تنازعہ ختم کرنے کی راہ ہموار ہوئی۔ سپریم کورٹ چونکہ ملک کا سب سے بڑا عدالتی فورم ہے، اس لئے تمام حلقے زبانی کلامی تو اس کے احترام کا اعلان کرتے ہوئے ایسی کسی کارروائی کو قبول کرلیتے ہیں لیکن بعد میں اپنی سیاسی پوزیشن کے مطابق ہی اقدام کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے پیش نظر بھی قومی سیاست کی یہ صورت حال ضرور ہوگی۔ فل کورٹ کمیشن بنانے کی درخواست پر غور کرتے ہوئے چیف جسٹس کو اس معاملہ کے تمام پہلوؤں پر غور کرنا ہو گا۔

شہباز شریف نے چیف جسٹس کو جو خط آج لکھے ہیں، وہ اتوار کو ایک پریس کانفرنس میں اپنے اس ارادے کا اظہار کرچکے تھے۔ اس حد تک اس میں کوئی تازہ خبر نہیں ہے۔ اس دوران تحریک انصاف کے لیڈر عمران خان نے وزیر اعظم کی تجویز کو ’قبول‘ بھی کیا ہے لیکن اسی سانس میں اسے مسترد بھی کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کسی ایسے کمیشن کا خیر مقدم کریں گے لیکن کوئی بھی کمیشن موجودہ صورت حال میں ’غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات نہیں کر سکتا‘ ۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ ’انہیں قتل کروانے کی سازش میں چونکہ وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور فوج کا ایک جنرل ملوث ہیں، اور یہی لوگ اس وقت ملک میں تمام اداروں کے نگران ہیں۔ اس لئے کوئی بھی اتھارٹی یا کمیشن ان کی موجودگی میں ان پر حملہ کی شفاف تحقیقات نہیں کر سکتا‘ ۔ عمران خان کا موقف ہے کہ سب سے پہلے یہ تینوں افراد استعفے دیں پھر کسی بھی قسم کی تحقیقات کا آغاز ہو۔ یعنی وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور ایک میجر جنرل محض ایک شخص کے الزام لگانے پر استعفیٰ دے دیں تاکہ عمران خان اپنی دھاک بٹھا سکیں اور موجودہ نظام کے تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دیں۔

ظاہر ہے کہ یہ انہونی ممکن نہیں ہے۔ پاک فوج کا شعبہ برائے تعلقات عامہ ایک جنرل پر عمران خان کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ایک تو حکومت سے الزامات عائد کرنے والے افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرچکا ہے۔ دوسرے یہ واضح کیا گیا ہے کہ پاک فوج اپنے افسروں کو مکمل تحفظ فراہم کرے گی۔ آئی ایس پی آر کے اسی دو ٹوک اور سخت موقف کے بعد ہی عمران خان نے صدر مملکت عارف علوی کو گزشتہ روز ایک خط میں آئی ایس پی آر کے لئے قواعد و ضوابط متعین کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ گویا تحریک انصاف کے لیڈر یہ قیاس کر رہے ہیں کہ ملک کے آئینی صدر پاک فوج کو بطور ’سپریم کمانڈر‘ کوئی حکم جاری کر سکتے ہیں اور فوج انہیں ماننے کی پابند ہوگی۔ ظاہر ہے کہ عمران خان سمیت کوئی بھی اس قسم کی کسی صورت حال کی توقع نہیں کرتا۔ پھر یہ خط لکھنے کا کیا فائدہ ہو گا؟

عمران خان کی تمام حکمت عملی سیاسی ہے۔ وہ نہایت کامیابی سے خود پر قاتلانہ حملہ کو بھی سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ وزیر آباد میں رونما ہونے والے سانحہ کے بعد ان کی اپنی خواہش کے مطابق ’ایف آئی آر‘ درج نہ ہونا اور اس کی ذمہ داری پنجاب حکومت اور پرویز الہیٰ پر ڈالنے کی بجائے وفاقی حکومت اور پنجاب پولیس کی طرف منتقل کرنے کے عمل سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ یہ حملہ یا اس کی تحقیقات عمران خان کا ایشو نہیں ہے۔ ان کے پیش نظر صرف ایک ہی مقصد ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو موجودہ حکومت کو زچ کیا جائے۔ فوج پر درشت انداز میں تنقید کر کے یہ واضح کیا جائے کہ اگر اسے اپنا دامن مزید الزامات سے محفوظ رکھنا ہے تو عمران خان سے ان کی شرائط پر سمجھوتہ کی راہ نکالی جائے۔ اس دوران ملکی اور بین الاقوامی میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کی شہرت کو جس قدر ممکن ہو نقصان پہنچایا جائے۔

اس حکمت عملی کے نتیجہ میں ایک تو عالمی سطح پر سرمایہ کار پاکستان کے بارے میں مزید محتاط ہوجائیں گے، اس کے علاوہ عالمی مالیاتی ادارے اور دوست ممالک بھی یہ جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ پاکستان کس حد تک محفوظ اور بین الملکی معاہدوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے قابل ہے۔

ضروری نہیں کہ عمران خان اس حکمت عملی میں کامیاب ہوں۔ لیکن وہ اپنی سی کوشش ضرور کر رہے ہیں اور اس وقت وفاقی حکومت اور فوج دونوں کو شدید دفاعی پوزیشن لینے پر مجبور کرچکے ہیں۔ ورنہ فوج نے اس سے پہلے اپنے کسی افسر کی عزت بچانے کے لئے محض بیان دینے اور حکومت سے کارروائی کرنے کی درخواست نہیں کی تھی۔ فوج اپنے معاملات نمٹانے اور اپنی پوزیشن کی حفاظت کرنے کی صلاحیت و طاقت رکھتی ہے۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ دو وجہ سے فوج اس وقت کمزور پوزیشن میں ہے۔

ایک: عمران خان نامی پراجیکٹ ناکام ہوا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کے ساتھیوں نے عمران خان کی قیادت میں ’تبدیلی‘ لانے کا منصوبہ بنایا تھا اور تحریک انصاف کو مکمل سیاسی اعانت اور سوشل میڈیا جنگ جوئی کے لئے ورک فورس تیار کرنے میں مدد فراہم کی گئی تھی۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ جنرل باجوہ اکثر ففتھ جنریشن وار اور ہائبرڈ جنگ کا ذکر کرتے رہتے تھے۔ اب وہ اس وار فیئر کا خود نشانہ ہیں۔ اور اپنے ہی تیار کیے ہوئے پروپیگنڈا بریگیڈ کے رحم و کرم پر ہیں۔

دوئم: جنرل قمر جاوید باجوہ بطور آرمی چیف اس ماہ کے آخر میں اپنی مدت پوری کر رہے ہیں۔ ان کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف کا چنا ہوا نیا جنرل پاک فوج کا سربراہ بنے گا۔ عام طور سے قیاس کیا جاتا ہے کہ نیا آرمی چیف آنے کے بعد صورت حال تبدیل ہو جائے گی۔ تحریک انصاف اور عمران خان بھی اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے پر مجبور ہوں گے اور نئے آرمی چیف کی سربراہی میں فوج بھی کسی ’احساس جرم‘ میں مبتلا نہیں ہوگی۔ نیا آرمی چیف اپنے نئے اہداف مقرر کرے گا اور ملکی سیاست پر اس کے اثرات کی توقع کی جا رہی ہے۔

یہ کہنا تو مشکل ہے کہ یہ توقعات کس حد تک پوری ہوں گی اور فوجی قیادت میں تبدیلی کے بعد ملکی حالات میں کون سی جوہری تبدیلی رونما ہو سکے گی۔ البتہ چند امور واضح ہیں کہ فوج نیا آرمی چیف آنے کے بعد بھی شاید ملک میں مارشل لا لگانے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی۔ اور شاید سیاست سے کنارہ کشی کی موجودہ حکمت عملی کو جاری رکھا جائے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی نئے آرمی چیف کے دامن پر کسی سیاسی انجینئرنگ کے دھبے نہیں ہوں گے، اس لئے نہ تو ان سے کوئی امداد کا خواہاں ہو سکے گا اور نہ ہی انہیں ماضی کے دعوؤں، وعدوں یا کارناموں کا حوالہ دے کر دباؤ میں لایا جا سکے گا۔ اس حد تک امید کی جا سکتی ہے کہ پاک فوج، قیادت میں تبدیلی کے بعد ملکی دفاعی ادارے کے طور پر اپنی شہرت بحال کرنے میں کامیاب ہو سکے گی۔

فوج کو اپنی طاقت بحال رکھنے کے لئے چونکہ مالی وسائل کی ضرورت ہے، اس لئے وہ موجودہ حکومتی پالیسیوں کو کامیابی سے ہمکنار ہوتا دیکھنا چاہے گی تاکہ دیگر شعبوں کی طرح دفاعی بجٹ میں غیر معمولی کمی رونما نہ ہو۔ کیوں کہ اگر ملک کی اقتصادی حالت بحال نہیں ہوتی اور نئے منصوبے و سرمایہ کاری ملکی معیشت کو از سر نو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے قابل نہیں بنا پاتی تو فوج کے اخراجات پورا کرنا بھی محال ہو سکتا ہے۔ پاک فوج اس مشکل سے بچنا چاہے گی۔

البتہ شہباز شریف کی قیادت میں قائم حکومت کی حد تک یہ سمجھنا مشکل ہے کہ وہ کیوں عمران خان کا سیاسی مقابلہ کرنے سے کترا رہی ہے۔ جب یہ عیاں ہے کہ عمران خان کے الزامات کا بنیادی مقصد سیاسی حدت قائم رکھتے ہوئے حکومت کو کمزور کرنا ہے تو وزیر اعظم اپنی ذمہ داری سپریم کورٹ کو منتقل کر کے کیسے موجودہ دباؤ سے باہر نکل سکتے ہیں۔ آئی ایس پی آر نے حکومت سے فوجی افسروں پر الزام تراشی کرنے والے عناصر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ شہباز شریف قانون کے مطابق کارروائی کا حکم دینے کی بجائے، چیف جسٹس کے ذریعے عدالتی کمیشن بنوا کر اس ذمہ داری سے عہدہ برا ہونا چاہتے ہیں۔ یہ حکمت عملی کام نہیں کرے گی۔ یہ ایک سیاسی چیلنج ہے جس کا مقابلہ کرنے کے لئے شہباز شریف اور اتحادی سیاسی جماعتوں کو سیاسی طور سے میدان میں نکلنا چاہیے۔ اور انتظامی طور سے اپنے قانونی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ناپسندیدہ کارروائیوں کا قلع قمع کر کے دکھانا چاہیے۔ یہ مقصد صرف وزیر داخلہ کی اشتعال انگیز اور دھمکی آمیز پریس کانفرنسوں کے ذریعے حاصل نہیں ہو سکتا۔

حکومت کو ہر معاملہ میں عدالت کی امداد مانگنے کی بجائے پارلیمنٹ کو متحرک کرنا چاہیے اور اس فورم سے عوام کی رہنمائی اور ملکی قیادت کا فرض ادا کرنا چاہیے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے فورم کو محض تقاریر کے لئے استعمال کرنا کافی نہیں ہے بلکہ نئی سیاسی صورت حال سے نمٹنے کے لئے ضروری قانون سازی کے ذریعے مسائل حل کرنے کا راستہ بھی تلاش کیا جاسکتا ہے۔ ملکی عدالتی نظام پارلیمنٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد کا پابند ہے۔ وزیر اعظم اور وزرا مسلسل پارلیمنٹ سے غیر حاضر رہتے ہیں حالانکہ موجودہ سیاسی چیلنج کی صورت حال میں انہیں باقاعدگی سے پارلیمنٹ میں متحرک ہو کر حکومتی اتھارٹی بحال کرنے کا مقصد حاصل کرنا چاہیے۔ بصورت دیگر شہباز شریف اور اسحاق ڈار، دوست ممالک سے ملنے والی مالی امداد کی امید پر معاشی بحالی کا جو خواب دیکھ رہے ہیں، ملک میں تیزی سے بڑھتا ہوا انتشار، اس امید پر پانی پھیر سکتا ہے۔

انتخابات میں کامیابی تو دور کی بات ہے، حکومت کی کمزور حکمت عملی کسی اچانک سانحہ کو جنم دے سکتی ہے جس میں معاملات پر کسی کا قابو نہیں رہے گا۔ عمران خان کی سیاست کا محور یہی مقصد حاصل کرنا ہے۔ شہباز شریف کا قومی سیاسی منصوبہ کیا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments