مریض گھیرنے کے گر!


 

”گر بتائیں ہمیں پرائیویٹ پریکٹس کے جو آپ نے اس باؤلی میں رہتے ہوئے سیکھے اور اپنائے؟“

” کیا بلندی، کیا پستی۔ اپنی کرپشن کو جائز کرنے کے لیے ڈاکٹر صاحبہ نے کہانی لکھی ہے جیسے ہر شعبے والا اپنے آپ کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے“

یارا۔ کیا کرتے ہیں آپ لوگ؟ ٹھہرے پانی میں پتھر دے مارتے ہو۔ پرسکون سطح پہ وہ سب حکایتیں شکایتیں سر اٹھانے لگتی ہیں جو کب سے آنکھیں موندے سو رہی ہیں۔

آپ کے سوال پہنچ جاتے ہیں ہم تک۔ جواب بھی بے شمار ہیں ہماری زنبیل میں لیکن کب تک سنو گے، کہاں تک سناؤں۔ ستاون برس کی زندگی کا ہر دن اور ہر موڑ ایک کہانی۔ ایک پڑاؤ۔ اور خانہ بدوشی۔

چلو پہلے سوال کا جواب پہلے اور دوسرے کمنٹ کا آخر میں۔

پنڈی میں بڑے سے کلینک پہ بڑا سا بورڈ۔ دل میں پھلجھڑیاں کہ لو بھئی سپیشلسٹ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی، وہی شہر ہے نا جہاں سکول جایا کرتی تھیں۔ انہی گلیوں میں اب مرزا یار پھرے۔ بس ابا نہیں رہے۔

ہولی فیملی ہسپتال سے دو ڈھائی بجے چھٹی ہوتی، مری روڈ نامی پل صراط پار کر کے ساڑھے تین بجے تک گھر پہنچتے۔ گھر۔ پشاور روڈ پہ بنا سرکاری مکان۔

کھانا کھاتے، بچوں سے کچھ بات وات کرتے ساڑھے پانچ بج جاتے۔ چلو بھئی اب ہٹی چلو، ساڑھے پانچ سے ساڑھے آٹھ۔

کلینک میں بیٹھ کر سینئرز سے ہٹی چمکانے کے گر پوچھنے کی بجائے ہم ہم نے سوچا کہ اگر ابا ڈاکٹر ہوتے تو کیا کرتے؟ سب سے پہلی بات یا گر کیا طے کرتے؟

جواب ایک سیکنڈ میں آ گیا۔ سچ بولتے ہمیشہ۔ چاہے مریض ناراض ہوتا یا بھاگ جاتا۔ پرائیویٹ پریکٹس میں سچ اور صاف گوئی؟ کیسی باتیں کرتی ہو؟ انڈے بیچو جوتا لو۔ مریض گھیرو پالیسی سچ کے بالکل الٹ۔

مریض آتی، ہاتھ میں کاغذوں کا پلندا۔ ہانپتی کانپتی، چہرے پہ ہوائیاں اڑتی ہوئی جیسے موت کا فرشتہ تعاقب میں ہو۔ روہانسی آواز میں کہتی دیکھیں بہت سے ڈاکٹروں کو دکھا چکی ہوں۔ اتنے زیادہ ٹیسٹ۔ رسولی ہے، آپریشن بتایا ہے ہر کسی نے۔

رسولی نامی لفظ کا فوبیا ہمارے معاشرے میں اس قدر ہے کہ ہر رسولی کینسر سمجھی جاتی ہے جبکہ نوے فیصد رسولیاں عام سی ہوتی ہیں جیسے کسی عضو میں کوئی گٹھلی بن جائے۔

اب کیا کریں کہ ہمیں مسکرانے کی بے طرح عادت سو مسکراہٹ بکھیر کر کہتے۔ ارے فکر نہ کریں، ابھی دیکھ لیتے ہیں ساری رپورٹس۔

رپورٹوں کے کنویں میں چھلانگ لگاتے تو پتہ چلتا، بچے دانی میں تین چار سینٹی میٹر ( ایک دو انچ) حجم کا فائبرائیڈ۔ وہی جو رسولی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہم الجھ کر پوچھتے، کیا کوئی تکلیف ہے؟ نہیں کچھ بھی نہیں۔ اس کی تشخیص کیسے ہوئی؟ بس جی پیٹ میں کچھ درد تھا تو الٹراساؤنڈ کروانے پہ پتہ چلا۔ اب وہ درد ہے؟ نہیں جی۔ ماہواری میں کوئی درد؟ زیادہ خون۔ نہیں جی، بالکل نارمل۔

ایں۔ کوئی تکلیف نہیں، درد نہیں، زیادہ خون نہیں پھر آپریشن کس چیز کا۔ رسولی اتنی چھوٹی جتنا ایک چھوٹا یا درمیانے سائز کا لیموں۔

بی بی۔ آپ کو آپریشن کی کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن ڈاکٹر صیب۔ باقی سب ڈاکٹروں نے تو آپریشن ہی بتایا ہے۔ دیکھیے ڈاکٹری ایک حساب کتاب کا نام ہے، ایک ہی لباس سب کو پورا نہیں آ سکتا۔ یہ رسولی بہت چھوٹی اور بنا کسی تکلیف کے ہے۔ سال چھ ماہ میں ایک الٹرا ساؤنڈ کروا لیا کریں۔ اللہ اللہ خیر صلا۔

آپریشن تب ہو گا جب یہ رسولی خربوزے جتنی بڑی ہو جائے، درد ہونے لگے یا ماہواری کا خون کوئی ندی نالہ بن جائے۔

واقعی ڈاکٹر صیب۔ کیا آپ سچ کہہ رہی ہیں؟ اس کی آنکھیں پھٹ کر باہر نکل آتیں۔
ہاں۔ میرا علم اور حساب کتاب یہی کہتا ہے۔

اچھا۔ لیکن۔ چلیں ٹھیک ہے۔ اس کے چہرے پہ کچھ مایوسی چھا جاتی وہ روتی دھوتی کلینک پہنچی تھی، اسے ہنستے کھیلتے واپس جانا منظور نہیں تھا۔ میں نے کہا نا ہم بنیادی طور پہ برے دن زور و شور سے منانے والی قوم ہیں۔

کچھ ہی دن بعد ہسپتال میں ہم سے پوچھتا۔ فلاں نام کی مریضہ تمہارے پاس آئی تھی، تم نے اس کا آپریشن کیوں نہیں کیا؟ ضرورت نہیں تھی۔ لگتا ہے تمہیں پیسوں کی ضرورت نہیں۔ ارے گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا؟ کمرے کی چھت ان قہقہوں سے اڑنے لگتی جو ہماری سادہ لوحی یا بے وقوفی پہ لگائے جاتے۔

ہم دل مسوس کے رہ جاتے۔ پیسوں کی ضرورت تو ہے لیکن ایسے نہیں۔ کبھی مریض پہ غصہ آتا، اتنی اچھی طرح بات سمجھائی تھی۔ پھر خیال آتا، اگر دس افراد میں سات یا آٹھ ایک بات کہیں اور بقیہ دو یا تین لوگ ایک سو اسی ڈگری کے زاویے سے متضاد رائے رکھیں تو سننے والا غریب کس کی بات کا اعتبار کرے گا؟

یہی کھیل اووری کی سسٹ یا رسولی کے ساتھ کھیلا جاتا۔ دو یا تین سینٹی میٹر کی سسٹ سے جو کہ اصل میں سسٹ ہوتی بھی نہیں، انڈا بننے کے دوران کبھی کبھی سائیڈ پہ بن جاتی ہے، مریضہ کو اس قدر ڈرایا جاتا کہ وہ بھاگ کر آپریشن تھیٹر کی میز پہ چڑھ جاتی۔ جوتا پہننے کا تکلف بھی گوارا نہ کرتی۔ ہماری آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز بن جاتی۔

کبھی کبھار دوسری طرح کے مریض بھی آتے جنہیں واقعی آپریشن کی ضرورت ہوتی لیکن انہیں بھی ہماری بات سے زیادہ پڑیوں والے حکیم یا ہومیو پیتھ بھا جاتے جنہوں نے قسمیں کھا کھا کر یقین دلایا ہوتا کہ تربوز کے حجم والی رسولی تو مسئلہ ہی کوئی نہیں۔ نام بدل دینا اگر چھ ماہ بعد چھوٹی نہ ہوئی۔ کرامت دیکھیے کہ رسولی دیکھنے کے لیے وہ بھی الٹرا ساؤنڈ کے محتاج تھے۔ گئے وہ دن جب خلیل خان فاختہ اڑاتے تھی اور حکیم صاحب نبض تھام کر تشخیص کرتے تھے۔

حاملہ عورتوں کا تو حال ہی نہ پوچھیے۔ روتی پیٹتی کلینک میں آتیں کہ فلاں ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ بچے نے پیٹ میں پاٹی کر دی ہے، آج ہی آپریشن کرنا ہے۔

انہیں کیسے پتہ چلا؟ کیا پانی والی تھیلی پھٹ گئی۔ ہم بے چینی سے پوچھتے۔ نہیں وہ تو نہیں پھٹی۔ وہ جی انہوں نے الٹرا ساؤنڈ کر کے دیکھا تھا۔

کیا بچے کی حرکت کم ہے؟ نہیں جی لگتا ہے فٹ بال کھیل رہا ہے۔

اچھا فوراً سی ٹی جی کروا کے آؤ۔ دل کی دھڑکن تو دیکھیں۔ سی ٹی جی آتی تو ایسے کہ بچہ پیدائشی کھلاڑی ہو گا۔ الٹرا ساؤنڈ پہ بچے کا وزن نارمل، پانی نارمل، حرکت نارمل۔ یا خدا پاٹی کیے ہوئے بچے کی حرکتیں تو یہ نہیں ہوتیں۔

دیکھو بی بی، الٹراساؤنڈ مشین پہ بچے کی پاٹی دیکھنا کوئی اہمیت نہیں رکھتا اگر بچہ ٹھیک حرکت کر رہا ہو، اس کے ارد گرد پانی ٹھیک ہو اور سی ٹی جی اے کلاس ہو۔

تو آپ اب آپریشن نہیں کریں گی؟
وہ ہلکی آواز میں کہتی۔

آپریشن مرضی سے کروانا ہے تو کر دوں گی۔ تمہارے فیصلے کے احترام میں اور میرا خیال ہے کہ عورت کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اپنے جسم سے بچہ کیسے باہر نکلوائے؟

لیکن آپریشن بچے کی پاٹی کے نام پہ نہیں۔

لیجیے جناب، کچھ ہی عرصے کے بعد کہیں نہ کہیں سے خبر مل جاتی کہ انہوں نے بچے کی پاٹی کی وجہ سے اسی دن آپریشن کروا لیا تھا۔

تو یہ تھی ہمارے پہلے گر کی کہانی جو بری طرح ناکام ہوا۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگ یہ فیصلہ کرتے ہوں کہ ایسے گر کو مارو گولی جو کھیلنے ہی نہ دے۔ ہمارا دل نہیں مانا۔ ابا کے تصور سے پوچھ کر جو گر اختیار کیا تھا اور جو پہلے سے ہماری عادت بھی تھا اس کو کیسے چھوڑتے؟

دوسرا حل تھا ہمارے پاس۔ ہم نے ملک چھوڑ دیا۔ یہی جواب ہے دوسرے کمنٹ کا۔

چلیے آخر میں ایک مزے کی بات سنتے چلیں۔ دو ہزار چار میں ہم نے ایک خاتون کا علاج کیا۔ کچھ عرصہ پہلے انہوں نے ہمیں فیس بک پہ ڈھونڈھ نکالا اور بتایا کہ نہ جانے کب سے وہ ہمیں بے قراری سے ڈھونڈھ رہی تھیں۔ کنوؤں میں بانس ڈلوا نے کی کسر رہ گئی تھی بس۔ وہ ہمیں یاد کرتی ہیں، اپنے بچوں کو ہمارے قصے سناتی ہیں اور آج بھی ہم ان کی دعاؤں میں ہیں۔

کیا گھاٹے کا سودا کیا ہم نے؟
گر نمبر دو۔ اگلی بار۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments