بڑھتی ہوئی کشیدگی میں تدبر اور تحمل درکار ہے


یہ وطن عزیز کی سیاست کس نہج پر چل نکلی ہے؟ اسٹیبلشمنٹ کا چہرہ جب ایوب، یحییٰ، ضیاء اور مشرف بھی تھے تو اس وقت بھی تنقید صرف ان شخصیات کی ذات تک محدود رہتی تھی اور سیاسی زعما اس بات کا خاص خیال رکھتے تھے کہ یہ معاملہ فوج کے لیے مجموعی طور پر کسی زحمت کا باعث نہ بنے۔ قیام پاکستان کے وقت سے بھارت اور افغانستان کی جانب سے مسائل کی بہتات اور اندرونی حالات کے سبب سے مضبوط فوج کی ضرورت کو مزید آشکار کر دیا اور پھر بعد میں بھی سیاسی قیادت نے جتنے مرضی پر آشوب حالات کا سامنا کیا مگر اس فرق کو ملحوظ خاطر رکھا کہ فرد اور ادارے میں فرق ہوتا ہے فرد کوئی ناگزیر نہیں مگر فوج ناگزیر ہے اس کی حرمت پر آنچ نہیں آنی چاہیے۔

نواز شریف اپنی صاحبزادی کے ہمراہ پیشیوں پر پیشیاں بھگت رہے تھے۔ ان حالات کا سامنا کرنے کی کیا وجوہات تھیں یہ کوئی ڈھکا چھپا راز نہ تھا۔ تین بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے والے شخص کے ساتھ جو کچھ ہو رہا تھا اس کے منفی اثرات آشکار ہونا شروع ہو چکے تھے جو کہ اب ایک تعفن کی مانند پھیل چکے ہیں مگر اس سب کے باوجود نواز شریف کے لہجے اور رویے میں کسی ادارے کے حوالے سے بطور ادارہ تلخی موجود نہیں تھی بلکہ وہ اس کیفیت کے بد اثرات سے نہ صرف کے ملک بلکہ ادارے کو بھی محفوظ رکھنے کے لیے کوشاں تھے۔

مجھے ان کی پیشیوں پر اکثر جانا ہوتا تھا اور اسی طرح جون 2018 کی ایک پیشی پر جب ان سے ملاقات ہوئی تو اس کا احوال 5 جون 2018 کے اپنے کالم میں بیان کیا۔ اس کالم کا ایک اقتباس یہاں بیان کرنا چاہوں گا ”نواز شریف کی ڈکشنری میں اس کو کمزور یا بے اثر کر ڈالنا ہرگز نہیں ہے کیونکہ دنیا میں افغانستان اور عراق کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے بعد اپنے دفاع کے لیے ایک لمحہ بھی غافل رہنا موت کے مترادف ہے بلکہ جد و جہد صرف اتنی ہے کہ تمام ادارے وہاں تک محدود ہو جائے جہاں تک ترقی کرتے جمہوری ممالک کے ادارے محدود ہیں۔ (جب ) میں نواز شریف سے گفتگو کی غرض سے آگے کی طرف بڑھا تو میرے ہاتھوں میں کرنل سہیل شہید کے بچوں کی تصویر والا اخبار تھا نواز شریف کی نظریں شہید کے بچوں کے چہروں پر ٹھہر گئیں اور وہ خود کلامی کے انداز میں بولے کاش ان کے باپ کو بچایا جا سکتا۔ میں نے ایک موضوع پر گفتگو کی تو مجھے جواب دیا کہ امید قائم رکھنی چاہیے دنیا امید پر قائم ہے اور میں اس پر امید شخص کی آنکھوں میں موجود عزم کو دیکھتا ہی رہ گیا کہ جس کی نگاہیں شہید کرنل سہیل کے معصوم بچوں کی تصویر پر ٹکی ہوئی تھی“

اس واقعے کو دہرانے کا سبب یہ ہے کہ یہ واضح ہو سکے کہ سیاسی قیادت کے دل میں ذاتی پریشانی کو ایک طرف رکھتے ہوئے فوج اور تمام اداروں کے لیے ان حالات میں بھی محبت میں گندھی ہوئی تھی اور ایک ذمہ دار سیاستدان کا رویہ ایسا ہی ہونا بھی چاہیے۔ مگر حالیہ لانگ مارچ کے دوران گولی چلنے کے واقعے کے بعد جس نوعیت کا احتجاج دیکھا گیا کہ سو پچاس افراد ادارے کے افسر ان کی سرکاری رہائش گاہوں کے باہر ہلڑ بازی کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسی صورتحال جو اجتماعی طور پر ادارے کو نشانہ بنا رہی ہو انتہائی کرب انگیز اور فکر انگیز ہے۔ اور یہ سب کچھ صرف اس لئے ہو رہا ہے کہ اپنی حکومت کے آخری ایام سے لے کر اب تک برصغیر کی تاریخ کے بدترین کرداروں میر جعفر اور میر صادق سے تشبیہ دی گئی، نیوٹرل لفظ کو بطور گالی پیش کیا گیا اور جانور تک کہہ کر اپنے حامیوں کی ایک خاص نوعیت کی ذہن سازی کردی گئی کہ آج جس کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

اس تمام صورتحال کا تدارک کرنے کی غرض سے غیر معمولی فہم و فراست درکار ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور سنگین خطرہ بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے کہ موجودہ صورتحال میں اگر اگلے برس کے آخر میں انتخابات کا انعقاد کر دیا گیا تو کیا عمران خان انتخابات کے نتائج کو تسلیم کر لے گے؟ ان کا ماضی بتاتا ہے کہ وہ ایسا نہیں کریں گے اور جب وہ ایسا نہیں کریں گے تو ایسی صورت میں وہ کیا کریں گے؟ جواب ہے کہ مزید نفرت کی سیاست۔ اس صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لئے سیاسی قیادت اور دیگر کو زبردست تدبر اور تحمل کا رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

فوجی معاملات پر گفتگو ہو رہی ہے تو یاد آیا کہ جاپان کی ایک سفارتی تقریب میں سفارت کاروں سے ملاقات ہوئی تو وہاں پاک یوکرائن فوجی تعلقات کی اہمیت کا ذکر ہونے لگا اور میں سوچنے لگا کہ روس کے لئے اقوام متحدہ میں ایبسٹین کرنے سے جہاں اس دوست ملک سے تعلقات میں دوری پیدا ہو رہی ہے وہیں پر یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ روس کی حمایت سے وطن عزیز کو کیا فائدہ حاصل ہو گا؟ اس تقریب میں شرکا کی تعداد محدود تھی اور شرکا تقریب میں شامل جنرل عاصم منیر اور دیگر فوجی افسران کے ساتھ جس طرح سیلفیاں لے رہے تھے وہ ثابت کر رہا تھا کہ تمام پروپیگنڈا کے باوجود فوج کی محبت پرجوش انداز میں زندہ ہے اور زندہ رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments