دیوان بہادر ایس پی سنگھا: خواب جو چکنا چور ہو گئے


3 مارچ 1947 پیر کا دن، لاہور کا موسم خوشگوار ہے موسم بہار کی آمد آمد ہے پودوں میں رنگ برنگے پھول کھلنا شروع ہو گئے ہیں لیکن لاہور کی سیاسی فضا بہت گرم او ر مسموم ہے، سکھوں کی نیم مذہبی سیاسی جماعت اکالی دل کے مرکزی رہنما 62 سالہ ماسٹر تارا سنگھ جن کا اصل نام نانک چند ملہوترہ تھا، وہ ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے تھے لیکن انہوں نے بارہ سال کی عمر میں سکھ مذہب اختیار کر لیا تھا۔ ماسٹر تارا سنگھ اپنے دو درجن ساتھیوں کے ساتھ پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر نمودار ہوتے ہیں اور فضا میں اپنی کرپان لہراتے ہوئے نعرہ بلند کرتے ہیں کہ ”کٹ کے دیں گے اپنی جان مگر نہیں دیں گے پاکستان“ انکے ساتھی جواب میں پاکستان مردہ باد کے نعرے بلند کرنے لگتے ہیں۔

ماسٹر تارا سنگھ اپنی گرجدار آواز میں اعلان کرتے ہیں کہ اگر پنجاب اسمبلی کا کوئی بھی رکن پاکستان کے حق میں ووٹ دے گا تو میں اپنی کرپان سے اس کا سر قلم کر دوں گا۔ دراصل 3 مارچ 1947 لاہور میں سیاسی اتھل پتھل کا دن تھا اور ماسٹر تارا سنگھ کا یہ انتہائی قدم ایک دن پہلے پنجاب کی صوبائی مخلوط حکومت کے وزیر اعلی اور یونینسٹ پارٹی کے رہنما خضر حیات ٹوانہ کے مستعفی ہونے کا رد عمل تھا۔ ماسٹر تارا سنگھ کی سیاسی جماعت اکالی دل اس مخلوط حکومت کا حصہ تھی۔

اسی اثنا میں بارعب شخصیت کے مالک پنجاب اسمبلی کے رکن اور اسپیکر 54 سالہ جناب دیوان سنگھ بہادر ستیہ پر کاش سنگھا اپنے غیر مسلم اور کچھ مسلم ساتھیوں سمیت وہاں پہنچ گئے اور ماسٹر تارا سنگھ سے مخاطب ہو کر کہا کہ ہم پاکستان کے حق میں ووٹ دیں گے تم نے جو کرنا ہے کر لو۔ اس کے بعد دونوں گروہ آپس میں گتھم گتھا ہو جاتے ہیں مگر کچھ مزید ارaکین وہاں پہنچ کر بیچ بچاؤ کرا دیتے ہیں۔ عجب بات ہے 3 مارچ 1947 کا یہ ہی دن متحدہ پنجاب میں خون ریز فرقہ وارا نہ فسادات کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔

دیوان بہادر ستیہ پر کاش سنگھا ضلع سیالکوٹ کی تحصیل پسر ور کے ایک عیسائی گھرانے میں 26 اپریل 1893 کو پیدا ہوئے۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا اس کے بعد قانون کی ڈگری بھی حاصل کر لی اور پنجاب یونیورسٹی میں ہی رجسٹرار کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ انہوں نے 1937 میں عملی سیاست میں قدم رکھا اور پنجاب میں تشکیل پانے والی پہلی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔ تعلیم کے شعبے میں ان کی نمایاں خدمات کی بدولت تاج برطانیہ کی جانب سے سنگھا کو 1939 میں دیوان بہادر کے خطاب سے نوازا گیا ان کی کوششوں سے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی سطح کے امتحان کا نظام رائج کیا گیا جو آج بھی پاکستان میں رائج ہے۔

اس زمانے میں مقامی مسیحوں کی سب سے بڑی نمائندہ سیاسی تنظیم آل انڈیا کریسچن کانفرنس تھی جو انڈین نیشنل کانگریس کی اتحادی اور ہم خیال تھی اور کانگریس کسی بھی قیمت پر تقسیم ہندوستان کے حق میں نہیں تھی۔ سنگھا ’قائد اعظم محمد علی جناح کے خیالات اور ان کی شخصیت سے بہت متاثر تھے۔ ان کا خیال تھا کہ کانگریس رہنما قد مت پر ستا نہ خیالات رکھتے ہیں جبکہ جناح مغربی طرز کی زندگی گزارتے ہیں اور ترقی پسند بھی ہیں۔ سنگھا خاص طور پر مسلم لیگ کے مارچ 1940 کے لاہور اجلاس میں شریک ہوئے جس میں برطانوی ہندوستان کو آزاد ریاستوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا اور اس کے لیے باقاعدہ ایک قرارداد منظور کی گئی تھی جو تاریخ میں قرارداد پاکستان کے نام سے جانی جاتی ہے۔

1942 میں سنگھا نے مسیحوں کی ایک نئی سیاسی تنظیم ”آل انڈین کریسچن ایسوسی ایشن“ کے نام سے بنائی۔ اسی سال نومبر میں جب مسلم لیگ نے لائلپور موجودہ فیصل آباد میں اپنا سالانہ کنونشن منعقد کیا تو سنگھا نے اپنی جماعت کے نمائندے کے طور پر باقی عہدہ داروں کے ساتھ باقاعدہ ایک وفد کی شکل میں جناح سے ملاقات کی اور ان کو اپنی جماعت کی جانب سے بھرپور تعاون و حمایت کا یقین دلایا۔ انہوں نے اس ملاقات کے اگلے دن ہی ایک تاریخ ساز مطالبہ کر ڈالا کہ ”برصغیر کی تقسیم کے وقت پورے ملک میں مسیحوں کو مسلمانوں کے ساتھ شمار کیا جائے۔“

برطانوی عہد کے پنجاب میں دوسرے عام انتخابات جنوری 1946 میں منعقد ہوئے۔ اس الیکشن میں مسلم لیگ کو سب سے زیادہ نشستیں ملیں لیکن یونینسٹ پارٹی نے کانگریس اور اکالی دل کے ممبران کو اپنے ساتھ ملا کر صوبے کی وزارت اعلی حاصل کرلی اور صوبائی کابینہ بھی تشکیل دے دی۔ مسلم لیگ نے اس حکومت کو تسلیم کر نے سے انکار کر دیا اور پنجاب میں سیاسی ر سہ کشی شروع ہو گئی۔ البتہ اس ہنگامہ خیز اسمبلی کی اسپیکر شپ سنگھا کے حصے میں آ گئی، ان کی مسلم لیگ سے قربت کسی سے چھپی ہوئی نہیں تھی۔ نومبر 1946 میں ایک اور جلسے میں سنگھا نے اعلان کیا کہ ”جناح ہمارے رہنما ہیں“ ۔ جناح نے یہ کہتے ہوئے جواب دیا ”ہم مسیحیوں کے احسانات اور قربانیوں کو کبھی نہیں بھولیں گے۔“

دراصل سنگھا متحدہ ہندوستان میں عیسائیوں کی بدحالی اور ہندو اکثریت کی جانب سے امتیازی سلوک کی وجہ سے بہت مایوس رہتے تھے۔ دیہاتوں میں ان کے قبرستان نہیں ہوتے تھے۔ وہ ان کے کنویں سے پانی نہیں پی سکتے تھے۔ ان حالات میں معاشرے میں، خاص طور پر پنجاب میں دو طرح کے استحصالی نظام میں پس رہے تھے، ایک تو وہ ہندو مذہب کے ذات پات کے غیر منصفانہ نظام کا شکار تھے جب کہ مسیحی دوسری طرف پنجاب کی معیشت پر قابض زمینداروں اور جاگیر داروں کے مظالم کا شکار تھے۔

سنگھا سمجھتے تھے کہ مسلم معاشرہ اور سماج اپنی فطرت میں زیادہ سیکولر ہے چونکہ اس کی تعلیمات میں تمام انسانوں کو برابر سمجھا جاتا ہے، اس لیے ان کا خیال تھا کہ مجوزہ پاکستان عیسائیوں کے رہنے کے لیے ایک بہتر جگہ ہوگی۔ اپنے انہی خیالات کی وجہ سے انھوں نے اپنے ساتھیوں اور اپنی جماعت کے پلیٹ فام سے دل و جان سے پاکستان کی حمایت کی۔

2مارچ 1947 ء کو پنجاب کے وزیراعظم (وزیراعلی) جناب خضر حیات ٹوانہ کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا۔ اسی دن ان کی کابینہ تحلیل کردی گئی۔ چونکہ خضر حکومت کی جگہ لینے کے لیے کسی دوسری حکومت کے بننے کی کوئی امید باقی نہیں تھی، اس لیے پنجاب کے اس وقت کے گورنر سر ایون جینگنز نے 5 مارچ کو پنجاب میں گورنر راج نافذ کر دیا جو کہ تقسیم کے دن یعنی 15 اگست 1947 تک جاری رہا۔ لیکن چونکہ متحدہ ہندوستان کی تقسیم کا فیصلہ ہو چکا تھا، اس لیے پنجاب کے انگریز گورنر نے 3 جون 1947 کو پنجاب کی اسمبلی کا خصوصی اجلاس بلانے کا حکم دیا۔

اسمبلی کو دو گروپ میں تقسیم کر دیا گیا۔ ایک گروپ کو مغربی سیکشن اور دوسرے گروپ کو مشرقی سیکشن کا نام دیا گیا۔ مغربی سیکشن کے گروپ کی صدارت بطور اسپیکر دیوان بہادر سنگھا کے سپرد ہی کی گئی۔ یہ اجلاس 23 جون 1947 ء کو منعقد ہوا جو 4 جولائی 1947 ء تک جاری رہا۔ اس اجلاس کے دوران مغربی پنجاب جو پاکستان کا حصہ بننے جا رہا تھا، کی نئی قانون ساز صوبائی اسمبلی معرض وجود میں آئی اور اجلاس کے آخری دن تک دیوان بہادر سنگھا ہی اسپیکر کی نشست پر قائم رہے۔ 14 اگست 1947 ء کو ایک نئی ریاست دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئی جس کا نام پاکستان تھا، مغربی پنجاب اس کا ایک صوبہ قرار پایا اور اس کا نام بدل کر صرف ”پنجاب“ رکھ دیا گیا۔ آزاد پاکستان کے صوبہ پنجاب کے نئے انگریز گورنر ”سر را برٹ فرانسس موڈی“ 5 جنوری 1948 کو صوبہ پنجاب کی نئی نویلی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا جس کے تمام اراکین غیر منقسم ہندوستان کی پنجاب اسمبلی کے مغربی حصے کے گروپ سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن افسوس کی بات تھی کہ دیوان بہادر سنگھا اسپیکر کی کرسی پر بیٹھے نظر نہیں آئے۔

ان کو خاموشی سے اندرون خانہ بتا دیا گیا کہ پنجاب اسمبلی کا اسپیکر اب صرف مسلمان ہی ہو سکتا ہے اور سنگھا ایک عام رکن کی حیثیت سے اس اجلاس میں شریک ہوئے۔ ایک دوسرے مسلمان رکن جناب محمد جمال خان لغاری جو کہ بہت بڑے زمیندار بھی تھے، اسپیکر کے طور پر نامزد کر دیے گئے۔ وائے افسوس، جناب دیوان سنگھ بہادر ستیہ پرکاش سنگھا۔ کے پاکستان کے متعلق تمام خواب چکناچور ہو گئے اور وہ اس حد تک دلبرداشتہ ہوئے کہ ان کی صحت مسلسل خراب رہنے لگی۔

نتیجتاً قائداعظم کے انتقال کے ایک مہینے بعد وہ بھی اکتوبر 1948 میں انتقال کر گئے اور لاہور میں ہی مد فون ہوئے لیکن مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ ان کا تمام خاندان پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ مسلسل امتیازی سلوک کو دیکھتے ہوئے 1958 میں پاکستان میں جنرل ایوب خان کی پہلی فوجی حکومت قائم ہوتے ہی ہندوستان ہجرت کر گیا۔ ایک طویل جد و جہد کے بعد 1971 میں پاکستان میں ایک جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آیا اس حکومت نے 1973 میں ایک متفقہ آئین منظور کر کے نافذ کر دیا اس آئین کی شق 91 اور 43 کے تحت پاکستان میں پانچ عہدوں پر غیر مسلم نہیں برا جمان ہو سکتے جس میں صدر، وزیر اعظم، سپیکر قومی اسمبلی سینٹ کے چیئرمین اور صوبوں کے گورنر شامل ہیں۔

آج پاکستان کی کل آبادی کا صرف 3 فیصد حصہ غیر مسلم اقلیتوں پر مشتمل ہے جو 1947 میں 23 فیصد تھا۔ 2008 ء میں فوجی آمر کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان میں جمہوری نظام کا چراغ روشن ہوا جو چراغ سحری کی طرح بہت آہستہ آہستہ ٹمٹما رہا ہے۔ کمزور جمہوری حکومتیں کبھی کبھی اقلیتوں کے زخموں پہ مر ہم رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں 2016 ء میں حکومت پاکستان میں دیوان بہادر ستیہ پر کاش سنگھا کی پاکستان کے لئے خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ایک یاد گاری ڈاک کا ٹکٹ جاری کر دیا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments