زاہد امروز: جلے ہوئے آسمان کا پرندہ


جدید اردو نظم قریباً سو سال کا سفر طے کرچکی ہے۔ غزل جو ہمارے سماجی و ادبی کلچر کا ایک مستند حوالہ ہے اس کے متوازی نظم اپنی حیثیت بنانے میں کامیاب نظر آتی ہے اور آج یہ کہنا غلط نہیں کہ ہمارا نظمیہ اثاثہ غزل کے برابر ہے۔ جدید نظم کا آغاز ساتھ کی دہائی میں شروع ہوتا ہے لیکن کرافٹ کے حوالے سے اس کا ارتقا نوے کی دہائی کے بعد کے نظم نگاروں میں صاف نظر آتا ہے۔ کرافٹ کے ساتھ ساتھ ان نظم نگاروں نے اپنے موضوعات میں معاصر سیاسی، سماجی اور نفسیاتی تہہ داری کو بھی ملحوظ خاطر رکھا ہے۔

ان نظموں میں قومی اور عالمی منظر نامے کی جھلکیاں صاف دیکھی جا سکتی ہیں۔ زاہد امروز نظم کے ان ہی معتبر شاعروں میں سے ایک ہے جس نے اپنی جدید حسیات کے ذریعے فرد اور اجتماع کے مسائل کو ایک کائناتی منظر نامے میں دیکھا ہے۔ ”جلے ہوئے آسمان کے پرندے“ زاہد امروز کا تیسرا شعری مجموعہ ہے۔ اپنے پچھلے دو شعری مجموعوں ”خودکشی کے موسم میں“ اور ”کائناتی گرد میں عریاں شام“ کے ذریعے وہ معاصر نظم کے حوالے سے ایک مضبوط شناخت بنا چکے ہیں۔ زاہد امروز پچھلے دو شعری مجموعوں میں اپنے موضوعات، امیجری اور منفرد استعاراتی نظام کے باعث شعری افق میں نمایاں ہوئے۔ جیسے سرمد صہبائی لکھتے ہیں کہ زاہد امروز عہد حاضر کا شاعر ہے۔ جس نے اپنی تازہ امیجری اور خیالات کی پیچیدگی کو نہایت سادگی سے بیان کرنے کا راستہ چنا ہے۔

یقیناً یہ شعری مجموعہ فکری و فنی سطح پر زاہد امروز کے شعری امیج کا اگلا پڑاؤ ہے۔ اس مجموعے کو انہوں نے موضوعات کے حوالے سے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ سویا ہوا دن، سہما ہوا آدمی اور عریاں بدن میں رات۔ یہ موضوعاتی تقسیم بھی دراصل شاعر کے تنقیدی و تخلیقی ذہن کا اظہار ہے جس میں وہ خود اپنے فکرو فن کو مختلف حصوں میں تقسیم کر رہا ہے۔

پہلا حصہ ”سویا ہوا دن“ میں تنہائی، مایوسی اور اس زندگی کی بے ہنگم مصروفیت سے بیزاری کا اظہار ہے۔ لیکن یہ بیزاری اس زندگی سے نہیں ہے جو ہمیں ملی ہے بلکہ اس سے ہے جو ہمارے لیے بنا دی گئی ہے۔ اس زندگی کی بے مصرف معمولات جن میں آج کا نیا انسان جکڑا ہوا ہے۔ وہ زندگی جو ہمارے ارد گرد بن دی گئی ہے اور جسے ہم گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان نظموں میں جہاں شاعر زندگی سے بیزاری کا اظہار کر رہا ہے وہاں اس سے نکلنے کا ایک چور راستہ بھی بتا رہا ہے۔ یہ راستہ جنس اور محبت ہے لیکن کہیں کہیں اس چور راستے سے بھی بیزاری کا اظہار کیا جاتا ہے۔

لندن لڑکیوں سے بھرا پڑا ہے
لیکن دل کا دالان خالی ہے
عمر علی
لندن ہو یا لائل پور
دنیا ایک سی ہے

کتاب کا دوسرا حصہ ”سہما ہوا آدمی“ دلچسپ ہے۔ نثری نظم کی ایک خاصیت یہ ہے کہ اس میں افسانوی خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں۔ شاعر نظم کو کسی افسانے کی ہی طرح سوچتا ہے۔ آغاز، اختتام اور کلائمکس۔ اور یہی خصوصیات نظم کا ایک compactتصور دیتی ہیں۔ اس حصے کی خوبی بھی یہی ہے کہ میں ایک افسانوی ربط ہے۔ جس میں ”آدمی“ ایک کردار ہے۔ ایک چلتا پھرتا کسی ناول یا افسانے کا کردار۔ نظم میں اسے ایک استعارے کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

جدید اور مابعد جدید زمانے کا استعارہ۔ ان نظموں میں ”آدمی کائناتی کیفے کا کوڑا دان ہے“ جو تنہائی کا مارا، بیوپاری، دکھی، خوفزدہ، بے وقعت اور مردہ ہے۔ ان نظموں میں ایک تسلسل ہے۔ آدمی ایک کردار/استعارے کے طور پر آگے بڑھتا ہے۔ اور آخری نظم کا یہ سوال کہ کیا آدمی زندہ ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی کردار کی واقعی موت ہوئی ہے۔ اور یہ دراصل دی اینڈ ہے۔

نالی میں خون بہہ رہا ہے
آدمی مر رہا ہے
مرا ہوا آدمی سوچ رہا ہے
آدمی زندہ ہے
آدمی زندہ ہے؟

لیکن اس حصے میں ”آدمی“ کا کردار فکشن کے کردار کی مانند نہیں ہے۔ یہاں آدمی آدمیت کا استعارہ ہے۔ ایسا استعارہ جو فعال نہیں ہے بلکہ کنزیومر ازم اور کمرشل ازم کی کٹھ پتلی ہے۔ وہ سوچتا، سنتا، کہتا، اور لوگوں سے ملتا ہے لیکن اس کی ڈور ایک نظام کے ہاتھ میں ہے۔

آدمی کہتا ہے وہ جی سکتا ہے
ہنسی کا ہتھیار لیے
آدمی دکھ کی جھاڑی کاٹتا رہتا ہے
کاٹتے کاٹتے آدمی کٹ جاتا ہے
کٹی ہوئی روحوں کی لاشیں زندہ رہتی ہیں
لاشوں کے ملک میں چلتے چلتے
ڈرے ہوئے آدمی ڈرے ہوئے آدمی سے ڈر جاتے ہیں

کتاب کا تیسرا حصہ ”عریاں بدن میں رات“ اپنی فنی و فکری بنت میں پیچیدہ ترین ہے۔ اس حصے کی کچھ نظموں میں تجریدی عناصر ہیں اور عالمی سیاسی سماجی حالات کو علامتی انداز میں بیان کرتی ہیں۔ ان سیاسی سماجی نظموں میں اجتماع یا گروہ کا تصور نمایاں ہے اور یہاں خاموشی، تاریکی اور مایوسی کی علامتیں کثرت سے ہیں۔ ان نظموں کا بیشتر لوکیل پاکستان اور پاکستان کے دیہی علاقوں سے زیادہ ہے۔ بھر پور علامت نگاری کے سبب ان نظموں کو کئی معاونوں میں دیکھا جاسکتا ہے لیکن مجھے یہ مذہبی و تہذیبی ارتقا کے ساتھ ساتھ کنزیومر ازم پر بحث کرتی نظر آتی ہیں۔

اس شعری مجموعے میں امروز نے کچھ نئے فنی تجربات بھی کیے ہیں جیسے نظم کو ان کے موضوعات کے مطابق الگ باب میں ترتیب دینا ایک نیا تجربہ ہے۔ یہ ترتیب بھی بلا جواز نہیں ہے بلکہ اس کے اندر ایک افسانوی ربط ہے۔ ہر شاعر ادیب کے پاس ایک طریقہ واردات ہوتا ہے اس طریقے کے ذریعے وہ اپنی بات یا مسئلے کو مصرعے میں ڈھالتا ہے۔ زاہد امروز کا طریقہ ایک پختہ شاعر کا ہے۔ کہیں کہیں وہ کسی ایک استعارے سے اپنا مسئلہ یا معاملہ بیان کرتا ہے۔ وہ اپنے مسئلے کے لیے استعارہ ڈھونڈتا نہیں ہے بلکہ پہلے استعارہ اس کے ذہن میں آتا ہے اور پھر وہ اس کا استعمال اپنے مطابق کرتا ہے۔ بلاشبہ اپنے فن میں ماہر اور باصلاحیت شاعر ہی یہ کر سکتا ہے۔

نظم کا مطلب ہی ترتیب ہے۔ زاہد امروز کی نظم میں خیال اور مصرعوں کی ترتیب کا خصوصی طور پر خیال رکھا جاتا ہے ۔ یہ ترتیب کرافٹ کی مناسبت سے بدل سکتی ہے لیکن کہیں بھی مجروح نہیں ہوتی۔ اسی طرح ایک اور احساس جو اس ترتیب کو تقویت دیتا ہے وہ وحدت تاثر کا ہے۔ نظم کے مصرعے اور استعارے آپس میں اس طرح پیوست ہیں کہ وہ خیال کو بھٹکنے نہیں دیتے۔

زاہد امروز نظم کے قابل فخر شاعر ہیں۔ ان کے شعری امیج نہایت اچھوتے اور حیران کن ہیں۔ یہ مجموعہ یقیناً ان کے اس سفر کا اہم موڑ ہو گا۔ نظم کو پڑھنے اور سمجھنے والوں کے لیے اس مجموعے میں بہت کچھ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments