مملکت کو کب کامل استحکام ملے گا؟


اکتوبر 2003 میں مسلم لیگ نواز کے صدر جاوید ہاشمی کو گمنام فوجی آفیسرز کی جانب سے بھیجے گئے اس خط کو افشاں کرنے کی پاداش میں 23 سال قید کی سزا سنائی گئی، جس میں افسران نے کارگل مہم کے اصل محرکات تلاش کرنے کے علاوہ پاکستان میں لگنے والے تمام مارشل لاؤں کے پیچھے کارفرما عوامل کا کھوج لگانے کے لئے پارلیمانی کمشن بنانے کا مطالبہ کیا، یہ خط اس وقت اسمبلی میں بیٹھے تمام نمایاں ترین پارلیمنٹیرین کو بھیجا گیا لیکن صرف جاوید ہاشمی نے خط کے مندرجات کو پریس کانفرنس کے ذریعے عوام تک پہنچایا تو جنرل مشرف نے انہیں فوج کو اپنی کمانڈ کے خلاف اکسانے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔

اس خط میں اٹھائے گئے سوالات حالات کے تناظر میں بہت اہم تھے چونکہ فوجی افسران کے سوالوں کا روئے سخن امریکی مقتدرہ کی طرف تھا، اس لئے امریکیوں کے دباؤ پہ جاوید ہاشمی کو بغاوت کے مقدمہ میں ملوث کر کے عبرت کا نشان بنانا ضروری ہو گیا تھا تاہم اپریل 2004 میں عدالت نے جب جاوید ہاشمی کو بغاوت کا مرتکب قرار دے کر 23 سال قید کی سزا سنائی تو پبلک کنزمپشن کے لئے امریکیوں نے نرم لب و لہجہ میں کہا ”ہم نے بارہا پاکستانی حکام کے سامنے تحفظات کا اظہار کیا کہ مسٹر ہاشمی کیس کو منصفانہ، شفاف اور انسانی حقوق کے احترام کے ساتھ نمٹا جائے، ہمیں ہاشمی کے خلاف اب تک کی کارروائی کی خفیہ نوعیت پر افسوس ہے لیکن امید کرتے ہیں کہ سزا کے خلاف اپیل کا عمل“ مزید ”کھلا ہو گا اور امریکہ پاکستان سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے قوانین اور بین الاقوامی اصولوں کے مطابق منصفانہ اور شفاف طریقے سے انصاف کا انتظام کرے“ ۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں گہری امریکی مداخلت کے خلاف پہلی توانا آواز خود جی ایچ کیو کے اندر سے اٹھی، جسے جاوید ہاشمی جیسے بہادر سیاستدان نے اپنی جان پر کھیل کے عوام تک پہنچایا، امریکہ تسلط کے خلاف ہمارے ادارہ جاتی ڈھانچہ کی یہ پہلی کروٹ تھی جس نے اس ملفوف آزادی کی حقیقت واضح کر دی، جسے عظیم فیض احمد فیض نے، یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر/ وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں۔ کے استعاروں میں اجاگر کیا تھا۔

بہرحال، یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ آج تک پاکستان میں لگائے جانے والے تمام مارشل لاؤں کے نفاذ کی منصوبہ ساز اور بینیفشری امریکی مقتدرہ تھی اور جنرل مشرف کے مارشل لاء کی راہ ہموار بنانے کے لئے کارگل مہم کی ڈیزائننگ بھی سی آئی اے کے دست ہنر کیش کی کارستانی تھی، اس لئے اس معاملہ کی انکوائری کی کسی سیاستدان کو جرات نہیں ہوئی۔ چنانچہ فوجی افسران کی طرف سے جاری کردہ خط میں اٹھائے گئے سوالات نے جنرل مشرف کے علاوہ امریکیوں کو بھی چونکا دیا تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ جنرل مشرف کے ڈرامائی انداز میں مارشل لاء لگانے کے فوراً بعد ہی فوج کی کمانڈ کو غلطی کا احساس ہو گیا تھا لیکن اس صورت حال سے فوری طور پہ نکلنا اس لئے ممکن نہیں تھا کی جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالتے ہی تمام با اثر فوجی کمانڈروں کو فارغ کر کے پورا ادارہ جاتی ڈھانچہ تبدیل کر دیا تھا چنانچہ 2001 میں ہی عدالتی فعالیت کے ذریعے جنرل مشرف کی آمریت کو نکیل ڈالنے کی پالیسی تیار کر لی گئی، سنہ دو ہزار ایک میں پہلی بار اس وقت کی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر حامد خان نے اعلی عدلیہ کے جنرل مشرف کے آمریت کے حق میں آنے والے فیصلوں کو کھلے اجتماعات میں ہدف تنقید بنا کر جوڈیشری کو خوف کے آسیب سے نجات دلانے کی ابتداء کی تھی، جس کا کلائمکس سنہ دو ہزار سات میں چیف جسٹس چوہدری افتخار کی قیادت میں اٹھنے والی وکلاء تحریک کی صورت میں سامنے آیا جو آخرکار جنرل مشرف کو اقتدار سے الگ کرنے کا سبب بنی تھی، جس کے بعد ہماری اسٹبلشمنٹ نے افغانستان میں امریکی جارحیت کو کند کرنے کی ایسی مربوط حکمت عملی بنائی جو بالآخر کابل سے امریکی فورسز کے انخلا پہ منتج ہوئی۔

جنوبی ایشیا سے امریکی افواج کی شکست کے نتیجہ میں امریکہ قوت قائم کی ہماری فوج پہ گرفت کمزور ہوئی تو پہلی بار پاکستان دنیا کے نقشہ پر ایک ساورن ملک کے طور پہ ابھرنے کے قابل ہو گیا، چنانچہ مثبت تغیر کے انہی امکانات کو التباسات کی دھند میں الجھا کر مٹانے کی خاطر عالمی طاقتیں ہماری سیاست کے مختلف کرداروں کی نفسیاتی کمزوریوں اور اسٹیک ہولڈرز کے مفادات کو ایکسپلائیٹ کر کے ہمیں راہ منزل سے بھٹکانے کی کوشش میں سرگرداں ہیں۔

جب تک پاکستان میں مارشل لاء نہیں لگتا اس وقت تک امریکی ہماری مقتدرہ کو دوبارہ دام فریب میں نہیں لا سکتے چنانچہ موجودہ سیاسی، معاشی اور انتظامی بحران کا سنٹر آف گریویٹی مملکت خدا کو گراں قدر خود مختاری کا حصول روکنے کی خاطر مارشل لاء کی طرف دھکیلنا ہے اور یہی جدلیات فی الوقت ہماری مقتدرہ کی اجتماعی ذہانت اور سیاسی لیڈر شپ کی مجموعی بصیرت کا امتحان بھی ہے کہ وہ پچھتر سالوں پہ محیط طویل اور جاں گسل جدوجہد اور شہریوں و فوجی جوانوں کی لازوال قربانیوں کی بدولت دائرہ امکان میں آنے والی کامل خود مختاری کا دفاع کیسے یقینی بناتے ہیں۔

اوپر بیان کردہ حقائق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہمارے ملک دیرپا سیاسی استحکام اسی وقت حاصل کر سکے گا جب فوج اور سویلین میں تقسیم کا وہ تعصب ختم ہو گا جو عالمی طاقتوں کو ہماری داخلی خود مختاری پہ تصرف پانے کا موقعہ فراہم کرتا رہا اور یہی ذہنی آہنگی ہماری تہذیبی اقدار کے اندر مشرقی جمہوریت کی نشو و نما ممکن بنانے کا خوبصورت موقعہ بھی بنے گی بلاشبہ عالمی سیاست کے تناظر میں ہماری جمہوریت نے مختلف مفہوم اختیار کر لیا، جسے امریکہ مفادات کے محافظ آمروں نے مختلف طریقوں سے ”محدود رہنمائی“ یا ”اسلامی“ جمہوریت کا نام دے کر زیادہ کنفیوز بنا دیا تھا بلکہ اسی طرز سیاست میں ہماری مقتدرہ عالمی قوتوں کی ان کلیدی سیاسی، اقتصادی اور خارجہ پالیسی کے مقاصد کی نشاندہی کرتی رہی، جنہیں مختصر دورانیہ کی منتخب حکومتیں بھی نہایت وفاداری سے نافذ کرنے میں سرگرم نظر آئیں اور اسی میکانزم کے ذریعے عالمی طاقتوں نے ہمیشہ سیاسی اور عسکری قیادتوں کے درمیان مفادات کے تصادم کی گنجائش پیدا کی تاکہ سیاسی طاقت کی متضاد نوعیت ہر لمحہ ان جرنیلوں اور سیاست دانوں کے مابین مسائل پیدا کرتی رہے، جو ملک پر حکمرانی کے خواہشمند ہیں لیکن موجودہ کشمکش اور ماضی کی جدلیات میں بنیادی فرق یہ ہے کہ سابقہ مارشل لاؤں کے برعکس، جن میں فوج نے براہ راست سیاسی طاقت حاصل کرنے کی کوشش کی، موجودہ پیشرفت پس چلمن بیٹھ کے صرف گہرا اثر ڈالنے تک محدود ہے۔

جیسے اب فوج نے سیاسی معاملات تو ہاتھ میں نہیں لئے لیکن سابق وزیراعظم عمران خان کی ان چالوں پر ردعمل ظاہر کرنے پر مجبور ضرور ہوئی جس کا مقصد اس کے ادارہ جاتی وجود کو نقصان پہنچانا تھا۔ مزید برآں پالیسی امور پر سیاسی اور فوجی قیادتوں کے درمیان پچھلے آٹھ سالوں سے جاری کشمکش بھی آئینی اصولوں کی بالادستی کے نفاذ کے دائروں تک محدود رہی، پچھلے چار سالوں میں پی ڈی ایم کی جماعتیں اجتماعی طور پر وزیراعظم کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے تو کوشاں تھیں لیکن قومی اداروں کی ساکھ کو متنازعہ ہونے سے بچاتی رہیں، اسی تناظر میں تین بڑی جماعتوں نے نہایت احتیاط کے ساتھ ہائبرڈ رجیم اور معاشی بحران کے دو نکاتی ایجنڈا کے ساتھ ”جمہوری اتحاد“ تشکیل دے کر سابق وزیر اعظم عمران خان کو عدم اعتماد کی آئینی تحریک کے ذریعے اقتدار سے نکالنے کی راہ ہموار بنائی تاہم عمران خان کے غیر واضح مقاصد اور متنوع سیاسی بیانیہ سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ملک میں مزید بھی کچھ عرصہ تک ملک کا اقتدار اعلی، جمہوریت اور فوجی حکمرانی کے درمیان پنڈولم کی طرح جھولتا رہے گا۔

جنرل مشرف کی کارگل میں مہم جوئی کے ذریعے ملکی اور عالمی میڈیا نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے علاوہ اسے ایشو کو سویلین گورنمنٹ اور فوج میں اختلافات کو بڑھاوا دینے کے لئے استعمال کیا، جو بظاہر ملک پر فوج کے قبضہ کا جواز نظر آیا حالانکہ امریکی اشرافیہ پہلے ہی افغانستان میں فورسز داخل کر کے جنوبی ایشیا کی اسٹرٹیجک پوزیشنوں اور اقتصادی مفادات پر قبضہ کا پلان بنا چکی تھی جس کے لئے اسے 1977 کی طرح یہاں فوجی آمریت کی ضرورت تھی اور وسیع تناظر میں جس کا ایک مقصد اس خطہ میں ایسی جغرافیائی تبدیلیاں لانا بھی تھا جو پاکستان کے وجود کو غتربود کر سکتی تھیں، جیسے کیلان منصوبہ جس کے تحت امریکہ افغانستان کو فارسی بولنے والے ترکوں اور پشتوں بولنے والے افغانوں میں منقسم کرنے کے علاوہ خیبرپختون خوا کے پشتون ایریا کو افغانستان سے منسلک کرنے کے علاوہ بلوچستان کے کچھ علاقوں کو ایران کے حوالے اور کچھ کو ہانگ کانگ کی طرح آزاد ریاست بنانے کی سکیم لے کر آیا تھا لیکن ہماری ہیئت مقتدرہ نے علاقائی طاقتوں کے ساتھ مل کر امریکی عزائم کو خاک میں ملا دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments