ہمارا معاشرہ اور ہمارے سٹیریو ٹائپس


ذرا دیکھو تو سہی کیسے سرخ جوڑا اور سرخ چوڑیاں پہن کر آئی ہے۔ عمر کا لحاظ ہے نا اپنے بیوہ ہونے کا۔ اس عمر میں اپنی بیٹی جیسے کپڑے پہنتی ہے۔ لگتا ہے اسے اپنے شوہر کے انتقال کا کوئی دکھ ہی نہیں۔ بوڑھی گھوڑی لال لگام۔ اس بار تمہارے نمبر تھوڑے کیوں آئے ہیں؟ تمہیں تو شہر کے اچھے سکول میں داخل کرایا تھا تا کہ ٹاپ کرو۔ اگر تمہارے اچھے نمبر آتے تو تمہیں تمہارے کزن کی طرح کسی اچھی یونیورسٹی میں داخلہ ملتا۔ تم نے تو ہماری بے عزتی کروا دی ہے۔

مرد تو ہوتے ہی ظالم اور بے وفا ہیں۔ ان کی فطرت میں ہی دھوکا دینا ہے۔ اس لیے تو اس نے دوسری شادی کر رکھی ہے۔ اچھی خاصی بیوی اور بچے تھے پھر بھی دوسری شادی کرلی۔ اس کی پہلی بیوی ہی ٹھیک نہیں ہوگی اس لئے ہی اس نے دوسری شادی کی ہے۔ حماد کو دیکھو کچھ ہی سال ہوئے ہیں نوکری لگے اور اتنا اچھا گھر اور گاڑی بھی لے لی۔ بھلا اتنے کم عرصے میں کوئی ایسا گھر بنا سکتا ہے کیا۔ یقیناً رشوت لیتا ہو گا یہ تو شکل سے ہی ایسا لگتا ہے۔

بھائی جان آپ کی نوکری کیوں نہیں لگی ابھی تک؟ آپ تو اتنے سال سے نوکریوں کے لئے دھکے کھا رہے ہیں۔ بھائی لگتا ہے آپ کی قسمت میں ہی نہیں ہے ملازمت۔ تم اتنے شوخ رنگ کے کپڑے اور چوڑیاں کیوں پہنتی ہو؟ اپنا رنگ روپ دیکھ کر کپڑے پہنا کرو۔ تم پر یہ رنگ بالکل بھی اچھا نہیں لگتا۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم اپنی عمر کا ہی لحاظ کر لیا کرو۔

بے چارا آج کل نیند کی گولیاں کھا رہا ہے۔ لگتا ہے کسی لڑکی کا چکر ہے۔ یقیناً کوئی معاشقہ چلا رہا ہو گا۔ لڑکی دھوکا دے گئی ہوگی اس لئے اس حال میں ہے۔ ورنہ جوان لڑکے لڑکیوں کو کیا ضرورت سائیکیٹرک پلز کی۔ تمہاری اس سے شادی بالکل نہیں ہو سکتی اپنے دماغ سے یہ خیال نکال دو۔ ذات سے باہر شادی نہیں کرتے اور ویسے بھی وہ شیعہ ہے اور تم سنی۔ اور ویسے بھی شادی اپنے سٹیٹس کے لوگوں میں کرتے ہیں۔

بھائی آپ اس عمر میں کیسی بچوں جیسی باتیں کر رہے ہیں۔ آپ پڑھے لکھے سمجھدار انسان ہیں۔ کچھ اپنے افسر ہونے اور امیج کا ہی خیال کر لیں۔ اتنا کھل کھلا کر کیوں ہنس رہی ہو؟ لڑکیاں زیادہ ہنستی نہیں ہیں۔ لوگ کیا کہیں گے؟

ہمارے معاشرے میں ایسے سٹیریو ٹائپس ہیں جن کو کسی خاص واقعی یا بات سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ جن کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ ہمارا معاشرہ رفتہ رفتہ مزاجی ہم آہنگی کھو رہا ہے۔ آپ جتنا مرضی ان دقیانوسی باتوں سے بچنے کی کوشش کریں معاشرہ اس کا احساس دلاتا ہی رہے گا۔ ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا روگ۔ کیا کہیں گے لوگ؟ لوگ جو بھی کہیں آپ وہ کریں جو آپ کا دل کہتا ہے۔ جہاں آپ اس معاشرے میں رہتے ہوئے ہر بات کا خیال رکھتے ہیں وہاں اپنے دل کا بھی خیال رکھیں۔

اگر اپنے آپ کو کسی سے کم سمجھیں گے تو روند دیے جائیں گے۔ اگر آپ بیوہ ہیں تو اس میں آپ کا اور آپ کے بچوں کا کیا قصور ہے؟ اپنی مرضی سے کپڑے پہنیں اور اپنے بچوں کے ساتھ خوش رہیں۔ اگر آپ پریشان ہیں اور ذہنی دباؤ کا شکار ہیں تو رونے میں عار محسوس نا کریں۔ کچھ وقت اکیلے گزاریں لیکن مسلسل اس غم میں نا بیٹھیں رہیں۔ اگر آپ کا رنگ کالا ہے اور آپ کو سرخ رنگ جو جوڑا پہننا پسند ہے تو الماری سے نکالیں اور پہنیں۔ یہ مت سوچیں کے لوگ کیا کہیں گے۔ ایسے جینا شروع کر دیں کہ واقعی پتہ لگے کہ یہ زندگی آپ کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments