ہیں کچھ نظر آتے ہیں کچھ


پاکستانی سیاست میں ہر وقت بھونچال آتے رہتے ہیں۔ سیاست کے گہرے سمندر میں جھوٹ، بدلے اور الزامات کی فیکٹری میں تیار ہونے والے دروغ گوئی کے زہر آلود کیمیائی مادے اس کی موجوں میں اتھل پتھل مچاتے رہتے ہیں۔ کئی مرتبہ سوچا کہ آج سیاست نہیں بلکہ بکھرتے سماج کے بہت نازک پہلوؤں پر لکھا جائے۔ مگر کیا کیا جائے اس سیاسی طوفان کا جس کی شوریدہ لہروں کا شور کچھ اور لکھنے ہی نہیں دیتا۔ اب یہ ڈیلی میل کی خبر ہی کو دیکھ لیجیے۔

اب کچھ اور کہاں لکھا جائے۔ چلیے! پھر اسی پر ہی بات کر لیتے ہیں۔ برطانوی عدالت سے بڑی خبر آئی کہ وزیر اعظم شہباز شریف کو ہتک عزت کیس میں شکست ہوئی ہے۔ ڈیلی میل میں شائع ہونے والی کہانی میں برطانیہ کی عدالت نے شہباز شریف کو مزید وقت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ پہلے تو تھوڑا سا بتانا چاہوں گی کہ ڈیلی میل کیا ہے۔ ڈیلی میل برطانیہ کی مڈل مارکیٹ کا مقبول ترین اخبار اور ویب سائٹ ہے۔ یہ اخبار 1896 ء میں شائع ہونا شروع ہوا۔

ڈیلی میل کی ایک ساکھ ہے۔ اس اخبار نے کئی اعزازات جیتے۔ 1906 ء میں پہلی دفعہ لفظ Suffragette اس کے صحافی ای چارلس نے متعارف کروایا۔ بیسویں صدی کے اوائل میں عورتوں کو برطانیہ کے عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق دلوایا۔ 17 جنوری 1967 ء کو ڈیلی میل نے ایک کہانی
”The holes in our roads“
کے نام سے شائع کی۔ یہ کہانی برطانیہ کے صنعتی قصبے بلیک برن کے بارے میں تھی جہاں سڑکوں پر 4 ہزار گڑھے تھے۔ ڈیلی میل میں ایک 21 سالہ نوجوان لڑکا جو ان گڑھوں کی وجہ سے خوفناک کار حادثے میں مارا گیا کا ذکر تھا۔

اس کی تفصیلات برطانوی راک بینڈ دی بیٹلز کے گلو کار، گیت کار اور موسیقار جان ونسٹن لینون نے A day in the life لکھا اور گا کر امر کر دیا۔ ڈیلی میل نے پلاسٹک پولیوشن کے خلاف بھی جنگ جاری رکھی جسے اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام میں پذیرائی ملی۔ اس طرح کے بے شمار آرٹیکلز اور کہانیاں ڈیلی میل میں چھپتی رہتی ہیں۔ اب بات کرتے ہیں ڈیلی میل کے صحافی ڈیوڈ روز کی چھاپی گئی کہانی کے بارے میں۔ روز کے مطابق شہباز شریف صاحب اس وقت پنجاب کے چیف منسٹر تھے جب برطانیہ نے انہیں 2005 ء کے زلزلہ زدگان کی امداد کے لیے 500 ملین پاؤنڈ دیے۔

شہباز شریف کہتے ہیں کہ میں اس وقت چیف منسٹر ہی نہیں تھا جس کے جواب میں روز نے بتایا کہ یہ امداد 2009 ء میں بھیجی گئی جب وہ خادم اعلیٰ تھے۔ برطانیہ کی تحقیقاتی ٹیموں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ برطانوی امدادی پاؤنڈز میں سے شہباز شریف اور ان کے داماد علی عمران یوسف ( علی ٹاور کے مالک) نے منی لانڈرنگ کی ہے۔ وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے اپنی میعنوں سے بھری انگلیاں اٹھاتے ہوئے شدید انداز میں کہا کہ یہ مقدمہ تو ہم جیت چکے ہیں ڈیلی میل نے بلاوجہ ڈیڑھ سال اس کو کھینچا اب تو ہم صرف ان مقدمات پر آنے والی لاگت جمع کروانی ہے۔

شہباز شریف کی طرف سے جواب پہلے ہی جمع کروایا جا چکا ہے۔ ہمارے جیسے عام پاکستانیوں کا بھی لندن آنا جانا رہتا ہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں مسلمان تو کم ہیں لیکن اسلام بہت زیادہ ہے۔ جب شہباز شریف نے یہ کہانی چھپنے کے بعد ڈیلی میل پر ہتک عزت کا دعویٰ کیا تو برطانیہ سے جواب آیا کہ ابتدائی مرحلے میں کوئی سماعت کسی کی ہار یا جیت نہیں ہے۔ شہباز شریف کے 13 سوالوں کے جواب میں ڈیلی میل نے 50 اور 80 صفحات کا جواب دیا ہے۔ لگتا ہے شہباز شریف کا دورۂ لندن بھی کچھ اسی حساسیت پر مبنی ہو گا۔ بہرحال شہباز شریف کا ڈیلی میل ڈیفمیشن کیس لندن کی عدالت میں جج میتھیو نکلن نے سنا۔ جب وکیل صفائی نے یہ کہا چونکہ شہباز شریف پاکستان کے وزیر اعظم ہیں اور انتہائی مصروف ہیں۔ اس کے جواب میں میتھیو نکلن نے ایک شاندار تاریخی جملہ کہا:

In this courtroom the Prime Minister and claiment are same:
یعنی ہماری عدالتوں میں وزیر اعظم اور عام آدمی سب بروبر:

تاسف کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ جب حالیہ پاکستانی عدالتوں نے شہباز شریف صاحب کو کلین چٹ دی تو مریم نواز صاحبہ نے چچا جان کے گلے لگ کر کہا مبارک ہو آج آپ انٹرنیشنل صادق اور امین ثابت ہو گئے ہیں اللہ کا بہت فضل ہوا ہے۔ اب ہم کیا کہیں اس کے جواب میں بس کچھ خجل خجل سا محسوس کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں گھر کے بڑوں جیسے ہی بچے ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم بھی ملک کا باپ ہوتا ہے۔ کے اس کیس کو نواز شریف نے برطانوی لیگل فرم کے ذریعے کروایا تھا یعنی اندازہ لگائیں کہ دس بارہ سال بعد بھی یہ اپنی چوری چکاری کو جھوٹ کے کاغذوں سے سجا رہے ہیں۔

ڈیوڈ روز نے جواب میں دستاویزی ثبوت بھی دیے ہیں۔ شرم کا مقام ہے کہ 100 ملین پاؤنڈ آپ اپنے ہی ملک کے غریب کے کھا گئے۔ 13 دسمبر کے بعد ٹرائل کی تاریخ ملے گی اور پھر سماعت ہو گی جس میں کلیمنٹ کو آنا پڑتا ہے۔ ذرا التجا پر غور کریں ہمارے خادم اعلیٰ وزیر اعظم نے کہا کہ اس کیس کو التوا میں ڈالا جائے کیونکہ یہ ہمارے پاکستانی کیسز پر اثر انداز ہو گا۔ ویسے یہ تو طے شدہ بات ہے کہ پاکستان میں جب بھی ان پر مقدمے بنیں تو یہ اپنے میکے لندن روانہ ہو جاتے ہیں علاج کے بہانے۔

رات کے اس آخری پہر میں کالم لکھتے ہوئے بریکنگ نیوز آئی کہ خادم اعلیٰ وزیر اعظم شہباز شریف خرابیٔ طبیعت کی وجہ سے پاکستان نہیں آ رہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ جب برطانیہ کی عدالت کے ذریعے یہ کیس ثابت ہو گیا تو ظاہر سی بات ہے ہماری نیک نامیوں میں پاؤنڈوں کے ہاروں کا اضافہ ہو گا۔ برطانیہ کے قانون کے مطابق منی لانڈرنگ ایک کرمنل ایکٹ ہے۔ وہ اپنے پیسے واپس بھی مانگ سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments