لنگڑاتا ہوا مارچ


ہمارے دیس کی سیاسی تبدیلی میں چند ہفتے قبل ایک ایسا لانگ مارچ بھی نسل کو دیکھنے کو ملا جو بار بار رات کو سو کر صبح تازہ دم ہوا اور پھر یہی لانگ مارچ چین کے عظیم سوشلسٹ رہنما ”ماؤزے تنگ“ کے تاریخی عوامی مارچ کو روندتے ہوئے اور نئی نسل کو گمراہ کرتے ہوئے سمٹ سمٹا کر فرلانگ مارچ میں تبدیل ہوا جبکہ کچھ من چلے اسے ”لنگڑا مارچ“ بھی کہے جا رہے ہیں، نجانے اس لنگڑا مارچ کو کیا سوجھی کہ یہ اچانک پنجاب کے شہر وزیر آباد میں زخمی ہو کر ڈاکٹروں کی ہدایات پر آرام کرنے چلا گیا، مگر جاتے جاتے پندرہ سے بیس افراد کی ڈیوٹیاں لگا گیا کہ زخمی فرلانگ مارچ کے زخموں کو ہرا رکھنے کے لئے روڈ رستے بند رکھنا ضروری ہے تاکہ عوام کی تکالیف اور آہ و بکا سے لانگ مارچیوں کے لہو گرم رہیں اور بوقت ضرورت لانگ مارچ کی سرگرمی کو جاری و ساری رکھنے کی سبیل برقرار رہے، سنا ہے کہ اب یہ سوتا جاگتا فرلانگ مارچ یا لنگڑا مارچ دوبارہ سے زخمی کپتان کو ہیلی کاپٹر سے اترتا ہوا دیکھنے کے لئے اپنا پڑاؤ پنڈی میں ڈالنے پر کمر بستہ ہو رہا ہے۔ اب اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ کب دو پیروں کا زخمی کپتان مارچیوں کو ٹانگ کی مالش کروانے کے لئے ”مالشیوں“ کی صورت میں لاہور یا پیر ودھائی بلا لے۔

ادھر دوسری جانب لانگ مارچ کے مہان کپتان پر طمنچہ چلانے والا طمنچی عجیب کشمکش میں مبتلا ہے کہ کمبخت وقت پر طمنچے کی گولی ایسی پھنسی کہ طمنچے سے گولی نکلے بغیر ”مہان کپتان“ نجانے کس چھرے کی ”فیض یابی“ سے چشم زدن میں زخمی ہوا کہ طمنچی ناگہانی پکڑا گیا، حالانکہ اسکرپٹ میں طمنچی کا پکڑا جانا شامل نہیں تھا، شاید یہی وجہ تھی کہ کپتان تمامتر شواہد اور طمنچی کے اقرار باوجود اسے اصل مجرم قرار ہی نہیں دے رہا، بے چارہ ہکا بکا سا یہ طمنچی طے ہی نہ کر سکا کہ مہان کپتان زخمی ہو گیا بلکہ اتنا شدید زخمی ہوا کہ لاہور کے کینسر اسپتال میں ہی گولی یا اس کے ٹکرے نکالنے پڑے کیونکہ شاید وزیر آباد، گجرات اور گوجرانوالہ میں ایسے کینسر کے ڈاکٹر دستیاب ہی نہ تھے جو کپتان کے زخمی پیر میں پلاسٹر باندھ سکیں۔ سو بہتر یہ جانا گیا کہ مہان کپتان کی صحت اور جاں بخشی کے لئے قانونی طور سے سرکاری اسپتال سے زیادہ شوکت خانم کینسر اسپتال ضروری ہے۔ اب سراغ رساں طمنچے کی نہ چلنے والی گولی کی کھوج میں اب تک سرکاری کارروائی کے لئے سرکاری اسپتال کے چکر کاٹ رہے ہیں مگر وہاں سے زخمی کپتان کی میڈیکل لیگل رپورٹ لینے میں وہ تاحال پریشان ہیں جبکہ تفتیش کی اہم۔ ضرورت سرکاری اسپتال کی میڈیکل لیگل رپورٹ سے ہنوز تھانیدار اور تفتیشی افسر محروم ہیں۔

اس پوری صورتحال میں دلچسپ بات یہ بھی رہی کہ زخمی کپتان کو تین گھنٹے کے پر خطر راستوں سے جب کینسر اسپتال لاہور پہنچایا گیا تو وہاں کے فرمانبردار فزیشن طبیب نے آرتھوپیڈک ڈاکٹر کی ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے ایک زخمی ٹانگ کے بجائے دونوں ٹانگوں پر پلاسٹر چڑھا دیا اور کپتان کی ہمتوں کو خراج پیش کرنے کے لئے کپتان کو عوام سے براہ راست خطاب کا انتظام بھی اسپتال کے خرچے پر کروا دیا، جس میں کپتان نے موجودہ وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور حساس ادارے کے ایک افسر کو اپنے اوپر قاتلانہ حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا، دوسری طرف یہ الگ بات رہی کہ جونہی یہ خبر حملہ کرنے والے طمنچی تک پہنچی تو وہ وہیں لاک اپ میں غش کھا کر گر پڑا، مگر اس سے بھی زیادہ یہ خبر حیرت زدہ تھی کہ کپتان نے زخمی حالت میں صدر مملکت کو چار صفحات کا ریاستی امور کی شکایت کا خط تحریر کروایا، تیمارداروں سے ملاقاتیں کیں، عالمی چینلز کے سوالات کے آئیں بائیں شائیں جوابات دیے اور عوام سے خطاب بھی کیا مگر سپریم کورٹ میں توہین عدالت کیس میں جواب داخل کروانے پر فرصت نہ ملنے کا بہانہ تراشا اور وکلا سے کہلوا بھیجا کہ کپتان اسپتال میں زیر علاج ہے اور وہ بیماری کے سبب سپریم کورٹ میں جواب داخل نہیں کروا سکتے، لہذا ہمارے رحمدل اور اعلی درجے کے قانون دان قاضی صاحب کے دربار میں جب کپتان کی عرضی پہنچی تو انہوں نے اسے شرف قبولیت بخشا اور کپتان کو جواب کے لئے مزید ایک ہفتے کی مہلت دے دی، اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی اس مہلت کے بعد وہ کون سا نیا ”یوٹرن“ کپتان کی طرف سے عدالت عالیہ میں پیش کیا جاتا ہے جس سے رحمدل قاضی مزید رعایت دے دیں۔

اسی دوران کپتان کے زخمی ہونے اور ان کو لگنے والی دو یا چار گولیوں کا قضیہ تھما ہی نہ تھا کہ کپتان نے اپنے گارڈ کے فائر سے ہلاک ہونے والے معیز کے تینوں بچوں کی وزیر آباد سے لاہور میں حاضری بھروائی اور ان کے باپ کے غم میں رنجیدہ ہو کر ان کی قمیضوں پر دستخط کیے اور گہرے رنج و غم کا اظہار بھی کیا، پھر سب نے دیکھا کہ کپتان کی دو ٹانگوں کا پلاسٹر ایک ٹانگ تک محدود ہو گیا اور ایک ٹانگ کی توانائی پاتے ہی کپتان فوری طور سے من پسند اور جی حضوری قسم کے صحافیوں سے ملے اور ملکی صورتحال پر گفتگو کر کے پیغام دیا کہ انہیں فوج کے نئے سربراہ کی تعیناتی پر کوئی اعتراض نہیں، بس پھر کیا تھا ہماری باجوہ ڈاکٹرائن اپنی پوری توانائی کے ساتھ الوداعی دوروں کی خبروں میں آ گئی اور ہمارے کپتان کو یقین دلا دیا گیا کہ ان کے ارادوں پر آنے والا چیف ہی دلیہ دلے گا، مگر صاحب کپتان اور دھڑکی لگا لیں۔

ممکن ہی نہیں، سو انہوں نے اگلے ہی روز گھر سے ٹویٹ کر کے سیاسی بھونچال میں شرلی چھوڑ دی کہ مجھ پر (کپتان) قاتلانہ حملے میں حساس ادارے کے دو افسران ملوث تھے، جن کا نام چند روز میں عوام کے سامنے لاؤں گا، گویا فرلانگ مارچ کے مارچیوں کو متحرک رکھنے کے لئے کپتان نے نام کے انکشاف کا یہ پتہ سنبھال کر رکھا ہے جبکہ دوسری جانب کپتان کا سوشل میڈیا سیل فوجی سربراہ کی تعیناتی پر اب بھی ایک امید پیہم کے ساتھ جتا ہوا ہے کہ ملک میں کسی طور سیاسی و معاشی استحکام نہ رہے، کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ چور چوری سے جاتا ہے مگر ہیرا پھری سے باز نہیں اتا، یہی کچھ صورتحال ہماری سیاست میں ایک ٹانگ کے زخمی کپتان نے اپنے ”لنگڑا مارچ“ کی کر رکھی ہے، جس سے عام فرد لاتعلق سا ہونے لگا ہے، سماج کو غیر سیاسی رکھنے کا یہ وہ خطرناک رجحان ہے جو اس دیس کی فوجی اشرافیہ کے حق میں جاتا ہے، اور شاید یہی وجہ ہے کہ کپتان نے ہر اس بات سے خود کو اور اپنے کارکنان کو دور رکھا ہے جو عوام دشمن سیاست اور دروغ گوئی کے اصل فرد تک نہ پہنچ سکیں اور اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بس اس مثال کا علمبردار ثابت کرتی رہیں کہ ”الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے“ ۔

وارث رضا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وارث رضا

وارث رضا سینیئر صحافی، تجزیہ کار اور کالم نگار ہیں۔ گزشتہ چار عشروں سے قومی اور بین الاقوامی اخبارات اور جرائد میں لکھ رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے کہنہ مشق استاد سمجھے جاتے ہیں۔۔۔

waris-raza has 35 posts and counting.See all posts by waris-raza

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments