سود کاخاتمہ اور حقائق: کعبے کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے


دنیا سرمایہ دارانہ نظام کے چنگل میں ہے اور ترقی پذیر ممالک سودی قرضوں کے باعث آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دوسرے ساہو کار اداروں کی دریوزہ گری پر مجبور ہیں۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سود کے خلاف اپیل واپس لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاملے میں سٹیٹ بینک کے گورنر سے بھی مشاورت کی گئی ہے، حتمی منظوری وزیراعظم شہباز شریف دیں گے۔ بلا سود نظام کے نفاذ کے راستے میں کئی چیلنج ہیں 75 سال سے جاری نظام کو یک دم تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ ”

قیام پاکستان سے قبل، قرارداد پاکستان، قرارداد مقاصد اور پاکستان کے 1956، 1962 اور 1973 کے تینوں دساتیر اور قائداعظم کے بقول سود کے بغیر پاکستان کا معاشی نظام تشکیل دیا جانا چاہیے، لیکن ہمارے مقتدرین اس سے رو گردانی ہی کرتے رہے۔

ہماری معیشت جس مغربی عالمی نظام زر و تجارت کا حصہ ہے اس میں سود رگوں میں دوڑتے ہوئے خون کی مانند ہے۔ پاکستان کا معاشی و معاشرتی، مالی و زری نظام، صنعت و حرفت اور بین الاقوامی لین دین اسی نظام کا جزو لاینفک ہے۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے یہ اعلان بھی کیا ہے، کہ حکومت آئندہ 5 برس میں سود کا مکمل خاتمہ کر دے گی۔ ”

پاکستان کی دست نگر معیشت عالمی سرمایہ داری کا حصہ ہے، سرمایہ داری اور عالمی معیشت سے تعلق قطع کیے بغیر سود کو ختم کرنا کیسے ممکن ہو سکے گا؟

غیر سودی کاروبار کاجو تجربہ پاکستان میں کیا گیا ہے۔ اس پربھی تحفظات ہیں، کہ سود کے دھندے کو اسلامی بینک دوسرے عنوانات سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

وفاقی وزیرخزانہ نے اپیلیں تو واپس لینے کا اعلان کیا ہے لیکن اس کا حقیقی پہلو بھی سامنے رہنا چاہیے کہ واپس لی جانے والی یہ صرف دو اپیلیں ہیں جبکہ فیصلے کے خلاف سٹیٹ بینک، نجی بینکوں، نجی مالیاتی اداروں اور حکومتی اداروں کی جمع کرائی گئی 65 اپیلیں باقی رہ جائیں گی اور قانونی طور پر جب تک تمام اپیلوں پر سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ آئے وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ کالعدم تصور ہو گا۔ اگر حکومت سودی نظام کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہے تو سٹیٹ بینک کے ذریعے ان تمام اداروں کو فورا اپنی اپیلیں واپس لینے کا حکم دے۔

رہی پانچ سال میں مکمل اسلامک بینکنگ کے نفاذ کی بات تو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ موجودہ حکومت کا دورانیہ زیادہ سے زیادہ دس ماہ ہے۔ اب تک متعلقہ اداروں کو آن بورڈ لیے جانے کی اطلاع ہے نہ اسلامی نظریاتی کونسل سے مشاورت کی۔ ایسے میں کیسے باور کر لیا جائے کہ حکومت سودی نظام کے خاتمے میں سنجیدہ ہے۔ سودی کاروبار سے متعلق کئی مروجہ قوانین ہیں جن کے فوری خاتمہ کی ضرورت ہے۔ مثلاً منی لینڈنگ ایکٹ 1960 ء کے مطابق پاکستان میں انفرادی سطح پر سودی کاروبار کی اجازت ہے جس میں سود کی شرح 8 فیصد مقرر ہے اور انفرادی سودی کاروبار کے لیے لائسنس بھی جاری کیے جاتے ہیں۔

یہ خدشات بھی پائے جاتے ہیں کہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور چینی بینکوں سمیت دیگر عالمی مالیاتی ادارے پاکستان میں سود کے خاتمے میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک رائے یہ بھی ہے کہ ان اداروں کو سود سے پاک نظام پر اعتراض نہیں ہو گا بشرطیکہ ان کے قرضوں کی اقساط بروقت ادا ہوتی رہیں۔ اس وقت بلا سود بینکنگ نظام ملکی معیشت کا غالباً ایک فیصد ہے، ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹس سمیت دیگر سینکڑوں پروڈکٹس اور منصوبے ایسے ہیں جو سودی نظام پر مبنی ہیں انہیں کیا فوری طور پر غیر سودی نظام میں منتقل کرنا ممکن بنایا جا سکے گا؟

مسلم ہی نہیں، غیر مسلم ممالک بھی اسلامک بینکنگ کو زیادہ منافع بخش سمجھتے ہیں۔ ہانگ کانگ کے ایچ ایس بی سی بینک میں اسلامک بینکنگ کا علیحدہ نظام ہے جہاں متحدہ عرب امارات سمیت دیگر خلیجی ممالک کے اربوں ڈالرز ڈپازٹ ہوتے ہیں۔ برطانیہ میں بلا سود بینکاری سینکڑوں بینکوں میں کامیابی سے چل رہی ہے۔ برطانیہ کے بینک آف آئرلینڈ اور دوسرے بینکوں میں بلا سود بینکاری کاؤنٹر کام کر رہے ہیں۔

سودی نظام ختم کرنے کے اسحاق ڈار کے دعوے پربھی اس وقت یقین آئے گا جب اس کی واضح پالیسی اور حکمت عملی بھی عوام کے سامنے ہوگی۔ بصورت دیگر اس اعلان کی حیثیت ایک سیاسی بیان سے زیادہ نہیں ہے۔ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ کے بقول موجودہ معاشی چیلنجز میں مکمل اسلامک بینکنگ مشکل ہے، اس سے سودی نظام ختم نہیں ہو گا۔ آئی ایم ایف کا دورہ ناکام ہونے کی وجہ واپسی پر وزیر خزانہ کا اسلامک بینکنگ کا اعلان ایک سیاسی چال ہے۔

پاکستان کے مکمل بینکنگ نظام میں اثاثوں اور ڈپازٹس کے اعتبار سے اسلامی بینکوں کا حصہ تقریباً 21 فیصد ہے۔ 22 ادارے مکمل طور پر اسلامی بینکاری کے اصولوں پر چل رہے ہیں۔ تقریباً 17 کنوینشنل بینکوں کی 1418 اسلامی بینکوں کی برانچیں ہیں۔ ’سٹیک ہولڈرز اور ماہرین کی رائے کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اگر حکومت سودی نظام کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے پانچ سال کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ یہ کام دس ماہ میں بھی باآسانی ہو سکتا ہے۔ اگر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا ارادہ ہے تو یہ منصوبہ بھی ماضی کی طرح پانچ سال میں بھی مکمل نہیں ہو سکتا۔ ہماری اشرافیہ سود کے حوالے سے جس ”نیمے دروں نیمے بروں‘ کیفیت سے دوچار ہے۔ اس پر داغ دہلوی یاد آتے ہیں۔

کعبے کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے
مجھ کو خبر نہیں مری مٹی کہاں کی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments