وہی آبلے ہیں، وہی جلن ہے
وہ آج پچیس برس بعد اپنے وطن واپس لوٹ رہی تھی، اور اس کے ذہن میں خدشات کا ایک ہجوم تھا جو اسے کسی طرح بھی چین لینے نہیں دے رہا تھا۔ وہ ائر پورٹ کے مسافر لاؤنج میں بیٹھی اپنے بچپن اور جوانی کے ان ایام کو یاد کر کے وقت گزار رہی تھی، جب سکھیوں کا ایک ہجوم اس کے گرد یوں منڈلا رہا ہوتا تھا، کہ اسے تنہائی نام کی کسی چیز کا علم ہی نہیں تھا۔ وہ تمام سہیلیاں جو اس کے بچپن سے اس کے ساتھ چلی آ رہی تھیں، وہ تمام رشتہ دار جو اس کے ناز نخرے اٹھاتے تھے، وہ تمام لوگ جو اس کے اردگرد گھومتے تھے، وہ پرانا محلہ، وہ اس گاؤں کی خوبصورت گلیاں، وہ خوبصورت لہلہاتے کھیت، وہ جھرنے کا صاف شفاف پانی، وہ بہار کی دلفریب رت، وہ برسات کی راتوں میں دمکتے جگنو، وہ آنگن میں کھلے سرخ گلاب کے پھول، وہ لکڑیوں کے اوپر پکتی ہنڈیا سے اٹھتی ہوئی خوشگوار مہک، وہ گھڑے سر پہ اٹھائے کنویں سے آتی ہوئی الہڑ مٹیاریں، وہ سردی کی اداس اور طویل راتوں میں اماں کے بستر میں گھس کر قصے سننے، وہ سکول میں نیم سوتے نیم جاگتے حالت میں جانا اور استانیوں سے کام نہ کرنے پہ جھڑکیاں اور مار کھانا، وہ اماں سے کبھی روٹھنا کبھی بابا سے کسی بات پر ناراض ہونا، وہ عید کی خوشیاں، وہ محرم کا سوگ الغرض کتنی ہی حسین یادوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا، جس کی ہر موج کے ساتھ ایک نئی یاد ذہن کے ساحل سے ٹکرا کر، پہلی یاد کے اثر کو دھندلا کر دیتی تھی۔
”کیا حسین دن تھے اور کیا ہی حسین ان کی یادیں ہیں“ وہ اپنے آپ سے باتیں کرتی سوچ رہی تھی۔ ”مگر وہ کہاں ہو گا؟ جانے وہ زندہ بھی ہو گا یا۔ ارے نہیں نہیں۔ خدا نہ کرے اسے کچھ ہوا ہو۔ اگر اسے کچھ ہو گیا تو میرا کیا ہو گا؟ یہ میرا وجود، یہ میری سانسیں، یہ میرا خاندان، میرا سب کچھ، اسی کی بدولت ہی تو ہے۔ لیکن۔ لیکن خدا جانے وہ کس حال میں ہو گا؟ کیسا دکھتا ہو گا؟ اس نے شادی بھی کی ہوگی یا ابھی تک میری محبت کی امانت کو ہی سینے سے لگائے ہوئے بیٹھا ہو گا؟“
وہ انہی یادوں کے سمندر میں غوطہ زن تھی کہ اناؤنسمنٹ ہو گئی۔ اس نے جلدی جلدی یادوں کے اس سمندر کو ذہن کے ایک کونے میں سمیٹ کر، اپنا سامان اٹھایا اور خاوند کے ساتھ جہاز میں بیٹھنے کے لئے لائن میں لگ گئی۔ ”تم اتنی اداس کیوں دکھائی دے رہی ہو“ جہاز میں سیٹ پر بیٹھتے ہی اس کے خاوند نے اس سے سوال کیا۔ ”لوگ جب وطن کی طرف لوٹتے ہیں تو ان کی خوشی چھپائے نہیں چھپتی۔ مگر تم ہو کہ۔“ اس نے کھڑکی سے باہر ایک اچٹتی نظر ڈالی اور پھر افسردہ سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی ”وطن؟ شاید عورت کا کوئی وطن نہیں ہوتا۔ جب بچپنا ہوتا ہے تو سمجھتی ہے والد کا آنگن اس کا وطن ہے، لیکن پھر اسے خبر ملتی ہے کہ جسے تم وطن سمجھ رہی تھی وہ تو عارضی پڑاؤ تھا۔ وطن تو شوہر کو گھر ہے۔ اور پھر شوہر کے بعد ۔“ اس نے بات ادھوری چھوڑ کر ایک لمبی سرد آہ بھری اور آنکھیں کسی دکھ کی وجہ سے میچ لیں۔
” جانباز کیا تمہیں دکھ نہیں ہے کہ میری شادی تمہارے بجائے کسی اور سے ہو رہی ہے“ وہ جہاز میں بیٹھی اپنے چچا کے بیٹے کے ساتھ آخری ملاقات کی دھندلی یادوں کو کریدنے میں لگ گئی۔ ”جانتا ہوں۔ لیکن میں کیا کروں۔ بلکہ میں کیا کر سکتا ہوں۔ ایک یتیم اور بے بس بچہ حسرت بھری نگاہوں سے چیزوں کو صرف دیکھ سکتا ہے، خرید نہیں سکتا۔ اور تمہاری تو بولی بھی تمہارے والدین نے اتنی اونچی لگائی ہے کہ، میں اپنا آپ بیچ کر بھی تمہیں خرید نہیں سکتا“ ۔
جانباز کے الفاظ اور لہجے کی بے بسی اس کے ذہن میں یوں گونج رہی تھی، گویا جانباز یہیں اس کے آس پاس ہی موجود ہے۔ ”تم میری شادی ہو جانے کے بعد کیا کرو گے؟“ اس نے دکھ بھری آنکھوں کے ساتھ، جانباز کو دیکھتے کو سوال کیا، جو زمین پر ایک تنکے کی مدد سے ٹیڑھی میڑھی لکیریں بنا رہا تھا۔ ”میں تمہارے عشق کی آگ اور اس کی تپش سے پڑے ہوئے آبلوں کو سینے سے لگائے، اپنی بقیہ زندگی یونہی گزار دوں گا“ وہ اٹھ کے چلنے لگے کہ اچانک جانباز کا پاؤں ایک کانٹے پر پڑ گیا اور خون کا ایک فوارہ ابل پڑا۔
سفر کیسے کٹا، جہاز میں ماحول کیسا تھا، کتنے گھنٹے میں سفر طے ہوا، ان سب کا اسے پتہ ہی نہ چلا۔ اسے تو ہوش اس وقت آئی جب لاہور ائرپورٹ کی لینڈنگ کی اناؤنسمنٹ ائر ہوسٹس نے کی۔ جہاز جب لینڈ کر گیا تو وہ میاں بیوی بھی اپنی باری پر باہر نکلے، امیگریشن کاؤنٹر کا مرحلہ طے کیا اور سامان لے کر ائر پورٹ سے باہر نکل آئے۔ وہ اپنے اردگرد کی ہر چیز کو حیرت سے دیکھ رہی تھی، کہ پچیس سال میں کتنا کچھ بدل چکا ہے۔ وہ چہرے جو اسے ائرپورٹ الوداع کرنے آئے تھے، ان میں صرف ماں کا چہرہ ہی ایسا تھا جو مانوس تھا۔ باقی تمام چہرے اس کے لئے ایسے تھے، جیسے اجنبی شہر کے دروازے۔
” ماں جانباز کا کیا حال ہے؟“ اس نے گاڑی میں ماں کے پاس بیٹھتے ہی، اس سے سوال پوچھ ڈالا۔ ماں نے سوال سن کر چہرہ موڑ لیا اور باہر ایک فقیر کو دیکھنا شروع کر دیا جو اپنے زخم خود ہی کرید کر اپنے آپ کو اذیت دے رہا تھا۔ ماں کے اس انداز نے اسے ہلا ڈالا، اور وہ جانباز کا حال جاننے کے لئے مزید بے تاب ہو گئی۔ وہ چاہتی تھی کہ اڑ کر گاؤں پہنچ جائے، مگر نگوڑا سفر تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔
خدا خدا کر کے شدید بے چینی اور گھبراہٹ کے عالم میں سفر کٹ گیا اور یوں اس نے اپنے گاؤں میں پچیس سال بعد قدم رکھا۔ جونہی گاؤں کی حدود میں گاڑی داخل ہوئی، تو اس نے بچپن کے ان مقامات کو یاد کرنے کی کوشش کی، جو اس کے حافظے کے نہاں خانے میں کسی پوٹلی کی طرح بند تھے۔ اور پھر اس یادوں کی پوٹلی کی گرہ کو جب اس نے دھیرے دھیرے کھولا، تو وہ تمام سکھیاں، وہ راستے، وہ لوگ، وہ موسم وہ سکول سبھی ایک ایک کر کے، باہر نکلنے لگے اور اس کی آنکھوں کے سامنے یوں آ کھڑے ہوئے کہ اسے کچھ دکھائی ہی نہیں دے رہا تھا۔
” چلو بیٹا گھر آ گیا“ ۔ وہ یادوں کی حسیں وادی میں کسی پری کی طرح سیر کر رہی تھی، کہ ماں نے اس کا طلسم توڑ ڈالا۔ وہ جب گھر آئی تو سب کچھ یوں بدلا بدلا نظر آیا، جیسے یہاں کوئی غدر جیسا انقلاب آیا ہو اور سب کچھ تلپٹ کر کے رکھ دیا ہو۔ گھر کے آنگن میں داخل ہوتے ہی اس کی نگاہ، پڑوس میں چچا کے گھر کی جانب اٹھی، جہاں پہلے کوئی دیوار نامی چیز کا وجود نہیں ہوتا تھا۔ وہ سفر کی تھکاوٹ سے زیادہ اس تبدیلی کے اثر سے اس قدر افسردہ ہوئی، کہ کسی سے کوئی بات چیت نہیں کی اور ایک کمرے میں آ کر لیٹ گئی۔
”چاچی! روٹی دے دو۔ صبح سے کچھ نہیں کھایا“ ایک مانوس سی آواز اس کے کان میں جو پڑی، تو چونک اٹھی۔ یادوں کے مندر میں گھنٹیاں بجنا شروع ہو گئیں۔ ”ارے جا! ابھی اس وقت کھانا تیار نہیں ہے۔ بعد میں آنا۔ پتہ نہیں کب اس سے جان چھوٹے گی۔“ اماں نفرت بھرے لہجے میں کسی کو دھتکار رہی تھیں۔ ”یہ دیکھو اپنا جسم کھجا کھجا کر، اس نے کیا حال کر رکھا ہے۔ سارا جسم لہولہان ہے۔ مگر اسے کوئی پرواہ ہی نہیں ہے“ اماں اپنی لے میں بے نقط سنا رہی تھیں۔
جونہی وہ اٹھ کر باہر آئی تو جانباز، بڑھی ڈاڑھی، الجھے بالوں اور پھٹے پرانے چیتھڑوں میں اپنے جسم کو کرید کرید کر، لہو نکالنے میں مگن تھا۔ اسے اگرچہ گاؤں کی ہر چیز اب بدلی بدلی دکھائی دی، مگر جانباز کا چہرہ، اس کا سراپا اور سب سے بڑھ کر اس کے پاؤں کا وہ زخم ایسے یاد تھا کہ گویا وہ کبھی گاؤں سے کبھی باہر گئی ہی نہیں تھی۔ اس کے کانوں میں بس یہی جملہ گونج رہا تھا، ”میں تمہارے عشق کی آگ اور اس کی تپش سے پڑے ہوئے آبلوں کو سینے سے لگائے، اپنی بقیہ زندگی یونہی گزار دوں گا“ ۔
اس نے جلدی سے اپنے دوپٹے کو پھاڑا اور اپنے ہاتھوں سے جانباز کی مرہم پٹی کرنے لگ پڑی۔ جانباز کے زخموں سے مگر خون تھا کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، شاید کسی اندرونی گہرے گھاؤ کا اثر تھا کہ وہ لاکھ کوشش کرنے کے، زخموں سے رسنے والے خون کو روک نہ پائی۔
- محبت کی ایک کہانی - 20/09/2023
- اشفاق احمد۔ تعلیمات، اصلیت اور افسانہ - 14/09/2023
- بھول - 09/09/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).