​دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے


بیسویں صدی کی 60 کی دہائی میں دنیا کی آبادی میں تیزی سے اضافے نے اقوام متحدہ کو تشویش میں مبتلا کیا۔ 11 جولائی 1987 کو دنیا کی کل آبادی 5 ارب افراد پر مشتمل تھی۔ 1960 سے 1990 کی تین دہائیوں میں دنیا کی آبادی دگنی سے بھی زیادہ ہوئی، اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اکتوبر 1999 تک مجموعی عالمی آبادی 6 ارب سے تجاوز کرچکی تھی، اقوام متحدہ کے مطابق 2030 تک انسانوں کی آبادی 8 اعشاریہ 5 فیصد اور 2050 تک 9 اعشاریہ 7 اور 2100 تک 10 اعشاریہ 9 ارب نفوس پر مشتمل ہو سکتی ہے۔

رواں برس ماہ اکتوبر میں جاری رپورٹ کے مطابق انسانوں کی تعداد 8 ارب ہو چکی جو انسانی لحاظ سے دنیا کے لئے ایک اہم سنگ میل اور چیلنج کا درجہ رکھتا ہے کیونکہ موجودہ آبادی صرف 48 برسوں میں 4 ارب سے 8 ارب تک جا پہنچی ہے۔ وژیول کیپیٹلیسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق نومبر 2022 تک عالمی آبادی کی درجہ بندی میں ٹاپ 10 ممالک میں چین سر فہرست ہے، جس کی کل آبادی 1 ارب 45 کروڑ 18 لاکھ 32 ہزار 64 افراد سے تجاوز کر جائے گی۔ دوسرے نمبر بھارت ہے، جس کی آبادی 1 ارب 41 کروڑ 98 لاکھ 2 ہزار 2 سو 43 تک پہنچ چکی ہے۔ ٹاپ ٹین آبادی رکھنے والے دیگر ممالک میں 33 کروڑ 53 لاکھ 91 ہزار 9 سو 57 افراد کے ساتھ امریکہ تیسرے نمبر پر ہے جبکہ انڈونیشیا کا 28 کروڑ 13 لاکھ 9 ہزار 3 سو 83 افراد کے ساتھ چوتھا نمبر ہے۔

انسانوں کی بڑھتی آبادی کے ساتھ ساتھ متنوعی مسائل اور دیرینہ چیلنجز بھی بڑھتے جا رہے ہیں فوڈ سیکورٹی، امن و امان، توانائی کے حصول کے متبادل ذرائع، خانہ جنگیاں، شورش، سیاسی عدم استحکام، عدم برداشت، ماحولیاتی مسائل سمیت انسانی زندگیوں کے سامنے صحت عامہ اور تعلیم کی مکمل رسائی تک 8 ارب انسانوں تک پہنچانا عالمی برداری کے لئے بڑے اہداف ہیں۔ ان حالات میں ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور غریب ممالک کے درمیان متعصب طبقاتی فرق بھی تنازع کا باعث بن رہا ہے۔

طبقاتی تفریق کے باعث انسانوں کے درمیان رواداری قائم رکھنے کی ضرورت پر زور دینے کے لئے 1996 سے ہر برس 16 نومبر کو دنیا بھر میں برداشت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ 1995 میں دنیا کے مختلف ممالک کی ثقافتوں کے مابین برداشت، احترام اور تعاون کی اہمیت کو اجاگر کرنے کا مقصد انسان میں رواداری کی ضرورت کو اجاگر کرنا ہے۔ حضرت انسان رب کائنات کی بنائی گئی کائنات میں دوسری مخلوقات کے مقابلے میں ممتاز حیثیت کا مالک اسی لئے قرار دیا جاتا ہے کیونکہ حساس و شعور کا مادہ قدرت کی جانب سے عطا کردہ ایک نعمت خداوندی ہے جو بلا رنگ و نسل و مذہب کی تفریق کے بغیر صرف انسانوں کو عطا کی گئی۔

انسان دور جدید میں مختلف طریقوں سے جداگانہ انداز کو اپناتا اور اس کا ادراک کرتا ہے۔ رواداری کی تعلیم دنیا میں ایک عرصے سے دیرینہ مسئلہ رہی ہے۔ کسی فرد کا دوسرے فرد کو کسی فروعی مقاصد کے لئے برداشت نہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی ملک کا اپنی ترجیحات میں کسی دوسرے ملک کے ساتھ مثبت یا منفی رجحان۔ رواداری احساسات، روئیے اور دوسروں لوگوں کے بارے میں رائے کا اپنانا اور سمجھنا اس حد تک ضروری ہے کہ شخصی طور پر حسن ظن سے کام لینا شروع کر دیا جائے تو کئی غلط فہمیاں دور کی جا سکتی ہیں عالمی سطح پر برداشت کو اپنانے سے ریاستوں اور اقوام میں منفی پالیسیاں ترتیب نہ دینے پر اہمیت حاصل ہوگی۔

روا دار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ صرف اس وجہ سے کہ کوئی آپ کی طرح نہیں ہے، یا اگر وہ آپ سے مختلف سے مختلف کام کر رہا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ برے ہیں، انہیں اپنی عادات اور رائے کو ترک کرنے پر مجبور کیا جانا چاہیے۔ یہ فطری اور قابل فہم ہے کہ کس بھی مہذب ملک، اداروں اور ہر شعبہ حیات میں لوگوں کو صرف برداشت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے مشکل وقت میں، جب پوری دنیا میں بین النسل جنگیں بھڑک رہی ہیں، یہ ضروری ہے کہ لوگوں کو رواداری، تحفظ اور امن، بھلائی اور ہم آہنگی کی دعوت دی جائے کیونکہ یہی وہ واحد عمل ہے جو انسان کو دوسری مخلوق سے ممتاز اور جداگانہ بناتا ہے۔

کسی بھی انسان یا قوم کی سب سے بڑی بد قسمتی ہوتی ہے کہ وہ فکر و بصیرت کی روشنی میں منزل کو متعین کرنے کے بجائے جذبات کے ہنگاموں میں کھو جاتا ہے۔ جذباتی عمل کے منفی نتائج سب سے زیادہ خود اس شخص یا قوم کے لئے مضر ہیں جن کی کوئی منزل نہیں ہوتی، چند خوب صورت نعرے اور دلفریب اصطلاحیں ہوتی ہیں جن کے محور تمام توانائیاں گردش کرتی ہیں اور بس۔ الفاظ، نعرے اور اصطلاحیں کوئی متعین مفہوم نہیں بلکہ قلب و نگاہ کی پریشانی اور واماندگی کے مظہر ہوتے ہیں۔ انسان کا خوش فہم اور خود فریبی میں مبتلا ہونا اسے انسانیت کے اقدار سے دور کر سکتا ہے۔ علمی و ادبی مجالس یا رفقا ء کی جو موشگافیاں دکھائی دیتی ہیں اس کا دیانت داری سے جائزہ لیجیے تو اس کی کسوٹی پر ہی ذات کی پرکھ ہو جاتی ہے۔

انسانیت کے بڑے بڑے مدعیوں سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ تم جو اپنے آپ کو دنیا کا ٹھیکیدار سمجھ کر اپنے جیسے انسانوں پر ظلم ڈھاتے اور کجی روی اختیار کر کے انہیں پریشان کرنے کے سلسلے اور بہانے تلاش کرتے ہو تو اس سے تمھاری مراد کیا ہوتی ہے، یعنی تمہارے نزدیک کسی انسان کی برداشت کرنے کی حد کی تعریف کیا ہے تو وہ یوں منہ تکتے رہ جاتے ہیں جیسے کسی دہقان سے افلاطون کا فلسفہ پوچھ لیا ہو۔ برداشت سے عاری اقدامات انسان کو ہی اشرف المخلوقات سے کائنات کے تمام ذی حیات سے بدتر بھی بنا دیتا ہے۔

یہی وجہ ہے جو فکر و نظر کے انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں، اس سے فرد ہی نہیں بلکہ پوری قوم تک کھوئی چلی آ رہی ہے اور اس لئے کہ صدیوں سے ہم جذبات کے دھاروں میں بہتے چلے آ رہے ہیں۔ سنجیدگی سے حقائق کا سامنا کرنے اور ان کی گہرائیوں کا جائزہ لینے کی انسان میں اگر وہ صلاحیت موجود نہیں جو ہر قوم کا طرہ امتیاز قرار پاتی ہے تو اسے انسان کہلانے کے لئے جانوروں کی سطح سے بلند آنا ہو گا۔ انسان اور جانور کے درمیان فرق عقل و عمل کے فطری اور غیر فطری ہونے کا ہے۔ اختیارات کی پابندی اور آزادی ہی اسے وہ مقام دلاتی ہے جس سے وہ اشرف المخلوقات بنتا ہے۔

برداشت کی کئی اقسام ہیں، جس میں صنف، قومی، نسلی، مذہبی، خصوصی افراد (معذور) ، انٹر کلاس، سیاسی، تعلیمی، انتظامی وغیرہ ہیں، ہم سب کے لئے یہ احساس کرنا بہت ضروری ہے کہ ہر انسان میں برداشت کرنے کی ہماری صلاحیت ثقافتوں کے درمیان امن، سلامتی اور مکالمے کی اخلاقی بنیاد پر ہے، صرف ایک روادار انسان ہی کسی دوسرے شخص کی مشکلات کو سمجھ سکتا ہے جو کسی بھی طرح سے، اس سے مختلف ہو سکتا ہے۔ اس سوچ و فکر کی جانب بڑھتے ہیں کہ کرہ ارض پر کوئی بھی شخص ایک فرد ہے اور بحیثیت انسان اسے برداشت سے کام لینے کی ضرورت رہتی ہے۔

احترام اور تفہیم کے ساتھ دوسروں لوگوں کے اختلافات کا علاج ممکن ہے، حسن ظن سے کام لے کر انفرادیت اور شخصیت کی خصوصیات کو نہ صرف خود کو پہچاننے کے لئے بلکہ ایک بہترین روادار انسان بننے کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔ رواداری ہی انسان کو دیگر مخلوق سے بہتر کہلانے کی کلید ہے۔ کسی انسان کی شخصیت میں مثبت اور منفی طرز عمل کو جانچنا دوسروں کی برداشت اور حسن ظن کا سب سے بڑا میزانیہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments