موٹاپے اور ذیابیطس کی ماحول کیا قیمت ادا کر رہا ہے؟


چینی کہاوت ہے کہ، ”اعلیٰ درجے کا طبیب بیماری سے بچاتا ہے۔ درمیانے درجے کا ڈاکٹر بیماری ہونے کے دوران اس کا علاج کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ایک نچلے درجے کا ڈاکٹر بیماری ہو جانے کے بعد اس کا علاج کرتا ہے۔ “

آج اس بات کی ضرورت ہے کہ ذیابیطس کے علاج میں سرکیولر اکانومی کے تصور کو سمجھا جائے جس سے ذیابیطس کے علاج میں استعمال ہونے والی پراڈکٹس کا کوڑا کم کر کے ماحولیات میں بہتری پیدا کی جائے۔ میں نے کچھ دن پہلے اپنے کلینک میں ایک 64 سالہ خاتون کو دیکھا جو کہ ذیابیطس کے علاج کے لیے آئی تھیں۔ وہ ہماری ایک معمول کی اوکلاہوما کی ریاست کی ایک مریضہ تھیں جن کو ذیابیطس کی دوسری قسم کی بیماری تھی۔ اس کے علاوہ ان کو شدید مٹاپے کی، دل کی، بلڈ پریشر کی اور کولیسٹرول کے زیادہ ہونے کی شکایات تھیں۔

ان میں ذیابیطس کی کئی پیچیدگیاں پیدا ہو چکی تھیں جن میں اندھے پن کی شکایت اور پیروں میں بے حسی شامل تھیں۔ ان مریضہ کا وزن 261 پاؤنڈ تھا اور ان کا باڈی ماس انڈیکس 45 تھا۔ یاد رہے کہ نارمل باڈی ماس انڈیکس 18 سے 25 کے درمیان ہوتا ہے۔ ان خاتون کو ایگزام ٹیبل پر چڑھنے میں بہت مشکل پیش آئی کیونکہ ان کے شدید مٹاپے اور ہاتھ پیروں کی کمزوری کے باعث ان کا چلنا پھرنا محدود تھا۔ وہ کل ملا کر 27 دوائیں لے رہی تھیں جن میں صرف ذیابیطس کے لیے دو طرح کی انسولین کو ملا کر پانچ دوائیں شامل تھیں۔ منہ سے لینے والی گلوکوفاج اور ڈیپاگلیفلوزن اور انجیکشن سے لینے والی سیماگلوٹائڈ اور ایک طویل عرصے تک کام کرنے والی انسولین اور دوسری مختصر عرصے تک کام کرنے والی انسولین شامل تھیں۔ وہ دن میں چار انسولین کے ٹیکے لگا رہی تھیں۔ اس علاج میں ان سب دواؤں کے پلاسٹک کے لفافے اور ایک دفعہ استعمال ہونے والے پین کے علاوہ کل ملا کر ایک مہینے میں 124 سوئیاں استعمال ہوتی تھیں۔ اس کیس کو سامنے رکھ کر ہم ذیابیطس کے علاج کے ماحولیات پر اثرات کا مطالعہ کریں گے کہ کس طرح ذیابیطس کی سنجیدہ بیماری کے علاج کی کوشش میں دنیا میں پلاسٹک کے کوڑے کا اضافہ ہو رہا ہے۔

2021 میں انٹرنیشنل ذیابیطس فیڈریشن کے مطابق دنیا میں تقریباً 537 ملین افراد ذیابیطس کی بیماری کا شکار ہیں۔ 2030 تک یہ تعداد بڑھ کر 643 ملین تک ہو جانے کی توقع ہے۔ ذیابیطس ہونے کی بڑی وجوہات میں وزن کا زیادہ ہونا اور غیر متحرک رہنا شامل ہیں۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق امریکہ کی 70 فیصد آبادی وزن کی زیادتی اور مٹاپے کا شکار ہے۔ جنوب ایشیا ء سے جو لوگ ہجرت کر کے اپنے حالات بہتر بنانے کے لیے امریکہ آئے تھے آج ان کے بچے مٹاپے کا شکار ہوچکے ہیں۔ کئی کالج کے بچوں کو ابھی سے ذیابیطس ہو چکی ہے۔ ہم ان مریضوں کو روز دیکھتے ہیں۔

دنیا میں مٹاپے کی شرح بڑھنے میں فوڈ انڈسٹری کا ایک بڑا ہاتھ ہے۔ پچھلی کچھ دہائیوں میں فوڈ انڈسٹری کافی پھیل گئی ہے جس سے بیماری کے علاوہ ماحولیات میں خرابی بھی پیدا ہو رہی ہے۔ فوڈ انڈسٹری کے پھیلنے سے دنیا بھر میں گوشت کھانے میں اضافہ ہوا ہے جس کے ماحولیات پر منفی اثرات سے انکار ممکن نہیں ہے۔ جانوروں کی فارمنگ سے گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج ہوتا ہے، پانی کا بے انتہا استعمال، زمین میں موجود وسائل کا ضرورت سے زیادہ استعمال، فضلات کا اخراج، پانی کی آلودگی اور فضا کی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ گوشت کی انڈسٹری تمام دنیا میں جنگلات کے سکڑنے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

ان تمام حقائق کے علاوہ گوشت کے استعمال سے کئی سنجیدہ بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے جن میں موٹاپا، ذیابیطس، دل کی بیماری، کولیسٹرول کی بیماری اور آنتوں کا کینسر شامل ہیں۔

عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ غریب کوڑا زیادہ پھیلاتے ہیں لیکن حقیقت میں امیر افراد دنیا میں زیادہ کوڑا کرتے ہیں۔ ایک غریب آدمی نہ گاڑی چلاتا ہے اور نہ ہی تیل جلا کر چلنے والے جہاز میں بیٹھتا ہے اور نہ ہی وہ گائے بکری کا گوشت کھا سکتا ہے۔ چین تمام دنیا کے لیے مستقل پلاسٹک کا سامان بنانے میں مصروف ہے۔ امریکہ اور دیگر امیر ممالک کا کاربن فٹ پرنٹ زیادہ ہے جس سے غریب ممالک کے عوام ماحولیات کی تباہی سے متاثر ہو رہے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کی ایک تہائی آبادی سیلاب سے متاثر ہوئی ہے۔

ان ماحولیاتی اثرات سے ذیابیطس اور مٹاپے کے بارے تو ہم جانتے ہیں، آج ہم اس طرف نگاہ دوڑائیں گے کہ ذیابیطس اور مٹاپا کس طرح ماحولیات پر اثرانداز ہو رہے ہیں؟ ایک لمحہ ٹھہر کر ان 537 ملین ذیابیطس کے مریضوں کے بارے میں سوچیں گے جن کے علاج میں بے شمار سوئیاں، سرنجیں، خون میں شوگر کو ناپنے والے آلے، انگلی کو چبھو کر خون نکالنے والی لینسٹ، خون میں مستقل شوگر کو چیک کرنے والے آلات، انسولین کی بوتلیں، انسولین کے پین، انسولین پمپ سے جلد کے نیچے انسولین پہنچانے والی پلاسٹک کی ٹیوب، پمپ میں ڈالنے والی بیٹریاں اور ان تمام اشیاء کے پلاسٹک کے لفافے ہر سال استعمال ہو رہے ہیں۔ ان تمام اشیاء کے دوبارہ استعمال نہ کرنے اور ان کے کوڑا بن جانے کی وجہ سے ماحولیات پر اثر سے زمین اور سمندر کی حیاتیات منفی طور پر متاثر ہو رہی ہیں۔

اس مسئلے کی جڑوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں نہ صرف اس کوڑے کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانا ہو گا بلکہ اس طرح کی پراڈکٹس بنانے کی ضرورت ہے جو پلاسٹک کے بجائے ایسے اجزاء سے بنی ہوں جو قدرتی طور پر ٹوٹ پھوٹ کر پھر سے زمین کا حصہ بن سکیں۔ اس کام کی ذمہ داری فارماسیوٹیکل کمپنیوں پر عائد ہوتی ہے اور ہم محض یہ امید کر سکتے ہیں کہ اس سے علاج معالجہ مزید مہنگا نہیں ہو جائے گا۔

زمین کے درجۂ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے موسمیات میں تبدیلی پیدا ہو رہی ہے۔ فضا میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 23 ٪ حصہ گائے بھینسوں اور مرغیوں کی فارمنگ کی وجہ سے ہو رہا ہے جس کی وجہ سے پانی کی فراہمی میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ پانی کو پائپوں سے کھینچ کر ان کر بوتلوں میں بند کر کے مہنگے داموں بیچنے والی کمپنیاں اس بات سے بے پروا ہیں کہ یہ پانی پودوں، جانوروں اور مقامی غریب انسانوں کی زندگی کے لیے شاہ رگ ہیں۔ یہ کمپنیاں ہتھیار بنانے والی کمپنیوں، میڈیا انڈسٹری اور تیل کی کمپنیوں کی طرح ہی نہایت بڑی اور طاقت ور ہیں۔ یہ حکومت میں موجود افراد کو رشوت دیتی ہیں جس کی وجہ سے وہ عوام کی صحت اور زمین کے مستقبل کے خلاف پالیسیوں کے لیے ووٹ ڈالتے ہیں۔ چونکہ عام انسان ان باتوں سے بے خبر اپنے کام میں لگا ہوتا ہے، وہ یا تو الیکشن سے مکمل بے خبر ہوتا ہے یا پھر ان لوگوں کو اس لیے ووٹ ڈالتا ہے کیونکہ وہ اس کے اپنے مذہب سے جذباتی تعلق اور قوم پرستی کا فائدہ اٹھا کر اس سے جھوٹ بولتے ہیں۔ یہ بڑی کمپنیاں دنیا میں جنگ و جدل کا بھی باعث ہیں جن کو غریبوں کے بچے لڑتے ہیں۔

ان حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے انسانوں کو اپنی صحت، زمین کے سیارے کی صحت اور مستقبل کے لیے اپنے زندگی گزارنے کے طور طریقوں میں تبدیلی کرنا ہوگی۔ دنیا میں سب سے زیادہ کھائے جانے والے گوشت میں مرغی کا گوشت اور سور کا گوشت شامل ہیں۔ 2014 سے 2016 میں ایک اندازے کے مطابق تمام دنیا میں ایک سال میں ایک آدمی کا گوشت کا استعمال 34 کلوگرام دیکھا گیا۔ ان میں سے 60 ٪ سرخ گوشت تھا۔ سرخ گوشت، خاص طور پر گائے کے گوشت کو بنانے میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائڈ میں اضافہ ہوتا ہے۔

سرکیولر اکانومی میں فضا میں آلودگی اور غلاظت کم کرنے، پہلے سے بنی ہوئی اشیاء کو پھینکنے کے بجائے دوبارہ استعمال کرنے اور قدرت کو فروغ دینے پر زور دیا جاتا ہے۔ افسوس کی بات یہ کہ ہم ایک ایسے ڈاکٹر بن چکے ہیں جو بیماری کو ہو جانے کے بعد اس کو ٹھیک کرنے کی کوشش میں ہیں۔ آج کا انسان اس مشکل میں گھرا دکھائی دیتا ہے کہ ایک طرف ہمارے زندگی گزارنے کے طور طریقے ماحولیات تباہ کر رہے ہیں اور ہمیں بیمار کر رہے ہیں اور دوسری طرف جب ہم ان بیماریوں کے علاج کی کوشش کریں تو ان سے ماحولیات میں مزید خرابی پیدا ہو رہی ہے۔ اس پہیے سے نکلنے کی صرف ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ تمام دنیا کے انسان خود کو تعلیم یافتہ بنائیں، بہتر امیدوار چنیں، زندگی گزارنے کے لیے صحت مند طریقے اپنائیں اور ایک دوسرے سے جنگ کے بجائے ان کمپنیوں کے خلاف کمر بستہ ہوں جو پیسے کے لالچ میں دنیا تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments