دنیا میں آٹھ اربواں بچہ پیدا ہو گیا، آبادی کو پانچ، چھ اور سات ارب تک پہنچانے والے بچے کون تھے؟


سات اربواں سعدیہ سلطانہ اور چھٹا اربواں عدنان میوف

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سات ارب کا سنگ میل عبور کرنے کے صرف 11 سال بعد دنیا کی آبادی آٹھ ارب تک پہنچ گئی ہے۔

20 ویں صدی کے دوسرے نصف میں بڑے اضافے کے بعد آبادی میں اضافہ اب سست روی کا شکار ہو سکتا ہے اور نو ارب تک پہنچنے میں 15 سال لگ سکتے ہیں۔

اقوام متحدہ کو سنہ 2080 تک دنیا کی آبادی دس ارب تک پہنچنے کی امید نہیں۔

اقوام متحدہ نے دنیا کی آبادی آٹھ ارب ہونے کے موقع پر گذشتہ برسوں میں پانچویں، چھٹے اور ساتویں اربویں بچوں کا انتخاب کیا ہے۔ ان کی کہانیاں ہمیں عالمی آبادی میں اضافے کے بارے میں کیا بتا سکتی ہیں؟

جولائی 1987 میں پیدائش کے چند منٹ بعد متیج گیسپر نے اپنے ننھے سے چہرے پر چمکتا ہوا کیمرہ اور اپنی تھکاوٹ سے چُور والدہ کے ارد گرد سوٹ بوٹ میں ملبوس سیاستدانوں کا ایک مجمع دیکھا۔

اس گھر کے باہر ٹریفک میں پھنسے ہوئے اقوام متحدہ کے برطانوی اہلکار الیکس مارشل نے اس وقتی افراتفری کے لیے جزوی طور پر اس بچے کو ذمہ دار ٹھہرایا۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم نے بنیادی طور پر تخمینوں کو دیکھا اور دیکھا کہ سنہ 1987 میں دنیا کی آبادی پانچ ارب سے تجاوز کر جائے گی اور اس حوالے سے 11 جولائی کا دن مقرر تھا۔ انھوں نے دنیا کے پانچ اربویں بچے کا نام رکھنے کا فیصلہ کیا۔‘

کوئی 35 برس بعد دنیا کا پانچ اربواں بچہ دنیا میں اپنی روایتی آمد کو بھولنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے فیس بک پیج سے معلوم ہوا کہ وہ اب شادی شدہ ہے اور ایک کیمیکل انجینیئر کے طور پر کام کر رہا ہے لیکن انھوں نے رابطہ کرنے پر انٹرویو دینے سے گریز کیا۔

متیج کی پیدائش کے بعد سے عالمی آبادی میں مزید تین ارب لوگ شامل ہو چکے ہیں لیکن ماہرین کے مطابق اگلے 35 برس میں صرف دو ارب کا اضافہ دیکھا جا سکتا ہے اور پھر عالمی آبادی میں ایک ٹھہراؤ پیدا ہونے کا امکان ہے۔

دنیا کی آبادی

بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کے بالکل باہر سعدیہ سلطانہ اوشی رات کے کھانے کے لیے آلو چھیلنے میں اپنی ماں کی مدد کر رہی ہیں۔

وہ 11 سال کی ہیں اور باہر فٹبال کھیلنے کو ترجیح دیتی ہیں لیکن ان کے والدین کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
اس خاندان کو یہاں سے اس وقت منتقل ہونا پڑا جب ان کا کپڑے اور ساڑیاں فروخت کرنے کا کاروبار کورونا وائرس کی زد میں آ گیا۔

گاؤں میں زندگی شہر کی نسبت آسان ہے، اس لیے وہ اب بھی اپنی تین بیٹیوں کے لیے سکول کی فیس ادا کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔

اوشی سب سے چھوٹی اور خاندان کے لیے خوش قسمتی کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔ سنہ 2011 میں پیدا ہونے والی اس بچی کا نام دنیا کے سات اربویں بچوں میں سے ایک تھا۔

اوشی کی ماں کو اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ انھیں اس دن بچے کی پیدائش کی توقع بھی نہیں تھی۔ ڈاکٹر کے دورے کے بعد انھیں ایمرجنسی آپریشن کے لیے لیبر وارڈ میں بھیج دیا گیا۔

اویشی آدھی رات کو 12 بج کر ایک منٹ پر پیدا ہوئیں، انھیں دیکھنے کے لیے ٹی وی کا عملہ اور مقامی اہلکار امڈ آئے۔ گھر والے حیران مگر خوش تھے۔

اوشی کے والد کو لڑکے کی امید تھی لیکن اب وہ اپنی تین محنتی، ذہین بیٹیوں کے ساتھ خوش ہیں۔ ان کی بڑی بیٹی پہلے ہی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے اور اویشی ڈاکٹر بننے کے لیے پُرعزم ہیں۔

ان کے مطابق ’ہم اتنے امیر نہیں اور کووڈ نے چیزوں کو مزید مشکل بنا دیا ہے لیکن میں اپنی اس بچی کا خواب پورا کرنے کے لیے سب کچھ کروں گا۔‘

اوشی کی پیدائش کے بعد سے بنگلہ دیش کی بڑھتی ہوئی آبادی میں مزید ایک کروڑ 70 لاکھ افراد کا اضافہ ہو چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

شرحِ تولید: دنیا بھر میں بچوں کی پیدائش میں ’حیرت انگیز‘ کمی متوقع

انڈیا آئندہ برس آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن جائے گا

وہ بچی جس کی پیدائش سے انڈیا کی آبادی ایک ارب ہوئی، اب کہاں ہے؟

سنہ 1980 میں بنگلہ دیش میں ہر عورت کے اوسطاً چھ سے زیادہ بچے ہوتے تھے، اب یہ دو سے بھی کم ہو چکے ہیں اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش نے تعلیم پر بھی توجہ دی ہے۔ جیسے جیسے خواتین زیادہ تعلیم یافتہ ہوتی ہیں وہ چھوٹے خاندانوں کا انتخاب کرتی ہیں۔

تین اہم ادارے جو عالمی آبادی کے بارے میں تخمینہ لگاتے ہیں، اقوام متحدہ، واشنگٹن یونیورسٹی میں انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایویلیوایشن اور ویانا میں آئی آئی اے ایس اے-وٹگنسٹن سینٹر اس متعلق تعلیم کے فوائد کے بارے میں مختلف آرا رکھتے ہیں۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سنہ 2080 کی دہائی میں عالمی آبادی 10.4 ارب تک پہنچ جائے گی لیکن آئی ایچ ایم ای اور وٹگنسٹن سینٹر کے ​​خیال میں ایسا بہت جلد ہونے والا ہے
لیکن یہ صرف اندازے ہیں۔

سنہ 2011 میں اوشی کی پیدائش کے بعد سے دنیا میں بہت کچھ بدل گیا ہے اور آبادیاتی ماہرین مسلسل حیران ہیں۔

آئی آئی ایس اے کے ماہر آبادیات سمیر کے سی کا کہنا ہے کہ ’ہم توقع نہیں کر رہے تھے کہ ایڈز سے اموات اتنی کم ہو جائیں گی، علاج سے اتنے لوگوں کی جان بچ جائے گی‘۔

انھیں اپنے ماڈل کو تبدیل کرنا پڑا کیونکہ بچوں کی اموات میں بہتری کا طویل مدتی اثر پڑتا ہے کیونکہ زندہ بچ جانے والے بچے خود بچے پیدا کرتے ہیں اور پھر شرح پیدائش میں حیران کُن کمی کا امکان ہے۔

دنیا میں چھٹا اربواں بچہ

سمیر کے سی کا کہنا ہے کہ جب جنوبی کوریا میں فی عورت پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد اوسطاً 0.81 تک گر گئی تو آبادیاتی ماہرین حیران رہ گئے۔

تو، یہ کتنا نیچے جائے گی؟ یہ ہمارے لیے بڑا سوال ہے۔
یہ ایسی چیز ہے جس سے زیادہ سے زیادہ ممالک کو نمٹنا پڑے گا جبکہ اگلے ارب افراد میں سے نصف صرف آٹھ ممالک سے آئیں گے، جن میں سے زیادہ تر افریقہ میں ہیں۔

زیادہ تر ممالک میں شرح پیدائش 2.1 بچے فی عورت سے کم ہوگی، جو آبادی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
بوسنیا ہرزیگوینا میں، جو دنیا کی تیزی سے کم ہوتی ہوئی آبادی میں سے ایک ہے، 23 برس کے عدنان میوف اس بارے میں بہت کچھ سوچتے ہیں۔

انھوں نے معاشیات میں ماسٹرز کیا ہے اور وہ نوکری کی تلاش میں ہیں۔ اگر انھیں کوئی ملازمت نہیں ملی تو پھر وہ یورپی یونین میں چلے جائیں گے۔ مشرقی یورپ کے بہت سے حصوں کی طرح، ان کا ملک بھی شرح پیدائش میں کمی اور زیادہ بڑے پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی سے متاثر ہوا ہے۔

عدنان اس وقت سراجیوف سے باہر اپنی ماں فاطمہ کے ساتھ رہ رہے ہیں، جن کے پاس اپنی پیدائش کی کچھ یادیں ہیں۔

فاطمہ کہتی ہیں کہ ’میں نے محسوس کیا کہ کچھ غیر معمولی تھا کیونکہ ڈاکٹر اور نرسیں ارد گرد جمع ہو رہی تھیں لیکن میں نہیں بتا سکتی تھی کہ کیا ہو رہا ہے۔‘

انھوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ’جب عدنان کی پیدائش ہوئی تو اقوام متحدہ کے اس وقت کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان انھیں دنیا کے چھ اربویں بچے کا نام دینے کے لیے وہاں موجود تھے۔ میں بہت تھک گئی تھی، مجھے نہیں معلوم کہ میں نے کیا محسوس کیا‘۔

عدنان اور ان کی ماں کے پاس ایک فوٹو البم میں ایک چھوٹا لڑکا ایک دیو ہیکل کیک کے سامنے بیٹھا ہے، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہاں سوٹ بوٹ میں ملبوس شخصیات اور خاکی یونیفارم میں فوجی اہلکار موجود تھے۔

عدنان کا کہنا ہے کہ ’جب دوسرے بچے سالگرہ کی تقریبات کر رہے تھے تو اس وقت ان کے پاس سیاستدان آ رہے تھے۔‘

لیکن اس وجہ سے عدنان کے لیے کچھ مراعات بھی تھیں۔ چھ اربویں بچہ ہونے کی وجہ سے انھیں اس وقت ریال میڈرڈ میں اپنے ہیرو کرسٹیانو رونالڈو سے ملنے کی دعوت ملی، جب وہ 11 سال کے تھے۔

انھیں یہ حیرت انگیز معلوم ہوتا ہے کہ 23 ​​برس میں دنیا کی آبادی میں دو ارب افراد کا اضافہ ہوا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ واقعی بہت زیادہ ہے۔ میں نہیں جانتا کہ ہمارا یہ خوبصورت سیارہ کیسے اس کا مقابلہ کرے گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments