انڈین آرمی سے پاکستان کی قومی فوج


انڈین آرمی کی تاریخ میں پہلی جنگ عظیم ایک اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔ 1857 ء کے بعد بغاوت کا خدشہ ختم ہو چکا تھا اور افواج دل جمعی سے تاج برطانیہ کا حکم بجا لاتیں۔ مورال بلند رکھنے کے لیے جنگ عظیم اول میں تیرہ ہزار فوجیوں کو مختلف اعزازات دیے گئے۔ جنگ کے دوران پالیسی تبدیل کر کے ہندوستانی فوجیوں کو سب سے بڑے فوجی اعزاز ”وکٹوریہ کراس“ کا اہل بھی قرار دیا گیا۔ سب سے پہلے ضلع چکوال کے ایک سپوت، خدا داد خان نے 31 اکتوبر 1914 ءبلجیم میں جرمن فوجوں کا مقابلہ کرنے پر یہ اعلیٰ ترین میڈل حاصل کیا۔ یہ اعزاز اس زمانے کا نشان حیدر تھا۔ وہ جنگ کے بعد 8 مارچ، 1971 ء تک زندہ رہے اور چک 25، منڈی بہاؤالدین میں دفنائے گئے۔ 1971 ء کے دوران ہائیڈ پارک، لندن میں پرانے فوجیوں کی تقریب ہوئی اور خدا داد خان کو شمولیت کے لیے برطانوی حکومت نے خاص طور پر مدعو کیا۔

ایک طرف تاج برطانیہ کی خاطر، ہندوستانی فوجیوں کے خون سے یورپ، افریقہ اور ایشیا کے میدان جنگ سرخ ہو رہے تھے، دوسری طرف، ہندوستانی عوام کا معاشی قتل عام جاری تھا۔ جنگ عظیم کے بعد عسکری اخراجات قومی محاصل کے ساٹھ فیصد سے کم ہو گئے مگر ہندوستان کو مالی طور پر نچوڑنے کا عمل جاری رہا۔ ستم بالائے ستم، نہ صرف انڈین آرمی کے برطانوی افسران کی سینڈ ہرسٹ ملٹری اکیڈمی میں ٹریننگ کا خرچہ ہندوستان سے لیا جاتا بلکہ لندن میں واقع انڈیا آفس کے افسران اور اہلکاروں کے شوق حکمرانی کے اخراجات بھی ہندوستان سے وصول ہوتے۔

قائد اعظم قانون ساز اسمبلی کے رکن بنے تو برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ لندن میں ”انڈیا آفس“ کا خرچ ہندوستان کی ذمہ داری نہیں ہونا چاہیے۔ یہ مطالبہ مان لیا گیا۔ برطانوی حکومت نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ ہندوستانی افواج کے افسران کی برطانیہ میں مہنگی تربیت کا خرچ کم کرنے کے لیے، دہرہ دون کی مقامی اکیڈمی کو بھی استعمال کیا جائے۔ 1919 ء کی منٹو مارلے ریفارمز کے بعد ، طے ہوا کہ مالیاتی بوجھ کم کرنے کے لیے، ہندوستانی افواج کو صرف اشد ضرورت کے تحت ہی، بیرون ملک بھیجا جائے گا۔

Patrick French اپنی کتاب Liberty or Death میں لکھتا ہے کہ اب ہندوستانی فوج کی بنیادی ذمہ داری، ہندوستان کی سرحدوں کا دفاع ٹھہری۔ مگر دوسری جنگ عظیم کے شروع ہونے پر یہ فیصلہ ہوا میں اڑ گیا۔ انڈین افواج کی تعداد دو لاکھ سے بڑھ کر پچیس لاکھ تک پہنچی۔ مختلف محاذوں پر ستاسی ہزار ہندوستانی فوجی ہلاک ہوئے۔ سنگا پور میں شکست کے بعد ، پچیس ہزار کے قریب جنگی قیدی بنے۔ جنگ کے خاتمے پر ہندوستان میں آزادی کی تحریک نے زور پکڑا مگر انڈین آرمی متاثر نہ ہوئی۔

”رجمنٹ“ کے معجزے نے علاقائی وابستگیوں، قومیتوں اور مذاہب میں بٹی فوج کو ایک لڑی میں پروئے رکھا۔ اس وحدت کا مظاہرہ، جاپانیوں کے ایما پر سبھاش چندر بوس کی تشکیل کردہ ”انڈین نیشنل آرمی“ کے خلاف مقدمے میں نظر آیا۔ نومبر 1945 ء سے مئی 1946 ء تک دہلی کے لال قلعہ میں کورٹ مارشل کی کارروائی ہوئی۔ ملزمان میں کرنل پریم سہگل، کرنل گور بخش سنگھ ڈھلوں اور شاہ نواز خان (انڈین نیشنل آرمی رینک، میجر جنرل) شامل تھے۔

انڈین آرمی ایکٹ 1911 ء کے تحت ان پر بغاوت کا الزام لگا۔ کورٹ مارشل کے دوران، باغیوں کے حق میں جلوس نکلتے اور ایک نعرہ ”لال قلعے سے آئی آواز، سہگل، ڈھلوں، شاہ نواز“ مشہور ہوا۔ ان تینوں کو ملک بدری کی سزا دی گئی۔ ہندوستان میں سیاسی عمل تیز ہو چکا تھا۔ نہ صرف آزادی بلکہ ملک کے بٹوارے کی باتیں ہو رہی تھیں۔ بمبئی کی بندرگاہ میں انڈین نیوی کے جہازوں اور ہندوستان کے وسط میں واقع جبل پور کی بڑی چھاؤنی سے سپاہیوں میں بے چینی کی پریشان کن خبریں آئیں تو حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔

فوجی ڈسپلن پر اعتماد کم ہوا اور برطانوی حکومت نے عجلت میں ہندوستان سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔ البتہ ان کی شدید خواہش تھی کہ آزادی اور بٹوارے کے بعد ، ہندوستان کی عظیم فوج تقسیم نہ ہو۔ برطانوی حکومت کو اس فولادی ڈھانچے سے بہت محبت تھی کیونکہ اسی کی بدولت، نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرونی نو آبادیوں میں بھی تاج برطانیہ کا راج قائم رہا۔ مسلم لیگ فوج کی تقسیم پر مصر رہی۔ اپریل 1947 ء میں ڈیفنس کمیٹی کی میٹنگ کے دوران لیاقت علی خان نے تجویز دی کہ فوری طور پر انڈین آرمی کی تقسیم کا پلان بنایا جائے۔

ایوب خان اپنی آپ بیتی ”جس رزق سے آتی ہو۔“ کے صفحہ 33 میں لکھتے ہیں ”جنرل کری آپا نے جو اس وقت فوج کے سینئر انڈین افسر تھے، مجھ سے کہا کہ تم اس امر میں میری حمایت کرو کہ فوج کو تقسیم نہ کیا جائے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہندوستان اور پاکستان کے لیے ایک ہی فوج ہو۔ میں نے ان سے کہا کہ دو آزاد ملکوں کے لیے ایک ہی فوج کا ہونا قیاس میں بھی نہیں آ سکتا۔“ آخر کار برطانوی حکومت نے فوج کی تقسیم کا مطالبہ منظور کیا۔

”انڈین آرمی“ کا دو تہائی حصہ بھارت اور ایک تہائی پاکستان کے حصے آیا۔ پاکستانی فوج اپنی علیحدہ اور نئی شناخت کے ساتھ آزاد مملکت کے دفاع کے لیے وجود میں آئی۔ پاکستانی فوج کے پہلے دونوں کمانڈر انچیف برطانوی تھے۔ پہلے مقامی سربراہ کا اعزاز ایوب خان کے حصے ایک عجیب طریقے سے آیا۔ جنگ عظیم کے دوران، ایوب خان، برما کے محاذ سے واپس بھیجے گئے تھے۔ ہندوستان کی تقسیم کا اعلان ہونے پر بلوائیوں کے حملوں میں شدت آ گئی۔

ایوب خان، مہاجرین کی حفاظت کے لیے مامور باؤنڈری فورس سے منسلک ہوئے مگر یہ سپاہ قتل و خون روکنے میں ناکام رہی۔ ایوب خان کی کارکردگی پر انگلیاں اٹھیں۔ آزادی کے کچھ عرصہ بعد ، قائد اعظم کے حکم پر انہیں مشرقی بنگال میں تعینات کیا گیا۔ برطانوی کمانڈر انچیف، سر ڈگلس گریسی کی رخصت پر پاکستان کی قومی فوج کا پہلا مقامی سربراہ مقرر ہونا تھا۔ اتفاق سے فوج کے سینئر ترین افسر، افتخار ایک پراسرار ہوائی حادثے میں ہلاک ہوئے تو فوج کی کمان ایوب خان کے ہاتھوں میں آئی۔ اس وقت کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ اس قومی فوج کے پہلے پاکستانی کمانڈر انچیف اپنی سپاہ کو دنیا کی بہترین لڑاکا فورس میں تبدیل کرنے کے علاوہ پاکستانی قوم کی قسمت سدھارنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔

بشکریہ: جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments