کیا چین کی معیشت واقعی مشکلات کا شکار ہے؟


شی جن پنگ
جب چین کے صدر شی جن پنگ گذشتہ ماہ کمیونسٹ پارٹی کی کانگریس کی تقریب کے دوران سٹیج پر پہنچے تو ہال تالیوں کے شورسے گونج اٹھا۔

شی جن پنگ ریکارڈ تیسری بارچین کے سپریم لیڈرمنتخب ہوئے ہیں۔ انھوں نے اس موقعے پرتقریب میں موجود دو ہزار سے زائد لوگوں کا ان کے ساتھ وفاداری اور ان پر بھروسہ کرنے کے لیے شکریہ ادا کیا۔

تقریباً ڈیڑھ گھنٹے طویل خطاب کے دوران انھوں نے اپنی پالیسیوں کی تعریف کی اور دعویٰ کیا کہ ملک کی معاشی حالت میں بہتری اُن کی ترجیحات میں شامل ہے۔

شی جن پنگ نے کہا کہ ’ہم ایک اعلیٰ سطح کی سوشلسٹ مارکیٹ پر مبنی معیشت بنائیں گے۔ ہمیں چین کے بنیادی اقتصادی ڈھانچے کو بہتر بنانا ہے۔ ہمیں سرکاری شعبے کو مضبوط کرنا ہے اور غیر سرکاری شعبے کی بھی مدد کرنا ہے۔‘

اس وقت چین کی معیشت میں کئی شگاف نظر آ رہے ہیں۔ چین میں بیروزگاری بڑھ رہی ہے اور کووڈ لاک ڈاؤن کی وجہ سے معیشت بھی متاثر ہوئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق رواں سال اقتصادی پیداوار کے لحاظ سے چین باقی ایشیائی ممالک سے پیچھے رہ جائے گا۔

یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ کیا چین کی معیشت واقعی مشکل میں ہے؟ بی بی سی نے اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے چند ماہرین سے بات کی ہے۔

ماؤزے تنگ

ترقی کی چھلانگ

تقریباً 50 سال پہلے چین انتشار کے دور سے گزر رہا تھا۔ اور چین کے اس وقت کے رہنما ماؤزے تنگ ثقافتی انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری کے باقی ماندہ نشانات کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

لیکن سنہ 1976 میں ماؤزے تنگ کی موت نے چین کے لیے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔

چیٹہم ہاؤس میں چین کے امور کی سینیئر ریسرچ فیلو ڈاکٹر یوجیا بتاتی ہیں کہ ماؤ کے جانشین ڈینگ ژیاؤ پنگ نے ملک کو ایک نئی راہ پر گامزن کیا اور مارکیٹ پاورکے لیے ملک کے دروازے کھولے۔

ڈاکٹر یوجیا کا کہنا ہے کہ ’یہ چین کے لیے اہم موڑ تھا۔ 10 سال کے بعد انھیں لگا کہ ملک جس طرح ماؤ کی قیادت میں چل رہا تھا، وہ اسی راہ پر چلنا جاری نہیں رکھ سکتا۔ چنانچہ انھوں نے چین کے بازار اور معیشت کی رفتار پر عائد پابندیوں کو ہٹانے کے ساتھ ہی اصلاحات کی شروعات کی۔

صدیوں پہلے چین دنیا کا سب سے خوشحال ملک ہوا کرتا تھا اور اب اس کا اسی راستے پر آگے بڑھنے کا ارادہ تھا۔ اصلاحات کے تحت کئی سرکاری کمپنیاں فروخت کر دی گئیں اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت دی گئی۔

یوجیا بتاتی ہیں کہ چین کا ہر صوبہ نجی کمپنیوں کو پرکشش شرائط پر قرض فراہم کر رہا تھا۔ اور اس کے ساتھ ہی چین کی لیبر فورس یا افرادی قوت بھی دنیا کو دستیاب تھی۔

شی جن پنگ

چین میں یونیورسٹیوں کا آغاز کیا گیا جو کہ تاریخی طور پر دانشوروں اور تعلیم یافتہ افراد کا گڑھ ہوا کرتا تھا۔ گویا کچھ نیا سیکھنے اور کرنے کے کلچر کو دوسرا جنم ملا۔ مینوفیکچرنگ، ٹیکنالوجی اور صنعت کے میدان میں تیزی سے ترقی ہوئی۔ چین کی اقتصادی ترقی کی شرح دنیا میں سب سے تیز رفتار رہی۔

ڈاکٹر یوجیا کا کہنا ہے کہ ’اس وقت صرف نظریے اور قیادت کے ساتھ وفاداری ظاہر کرنے کی بات نہیں تھی۔ میرے خیال میں لوگوں نے اپنی معاشی خوشحالی کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ آج چین میں جتنے بھی ارب پتی ہیں وہ ایک ہی نسل سے ہیں اور انھوں نے اسی وقت نجی شعبے یا کاروبار کا رخ کیا تھا جب وہاں تبدیلی شروع ہوئی تھی۔‘

چین نے 2001 میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں شمولیت اختیار کی۔ اس سے برآمدات کو فروغ ملا۔ ٹرانسپورٹ کا ایک نیٹ ورک بنایا گیا تاکہ سامان کی ملک کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں آسانی سے ترسیل کی جا سکے۔

ڈاکٹر یوجیا بتاتی ہیں کہ ’انھوں (چین) نے محسوس کیا کہ مینوفیکچرنگ کا گڑھ ہونے کے ناطے، آپ کے پاس مناسب انفراسٹرکچر ہونا ضروری ہے۔ اچھی ہائی ویز، کافی تعداد میں ہوائی اڈے اور اس طرح کی دیگر سہولیات ضروری ہیں۔ اسی طرح چین کو دنیا کی فیکٹری کا درجہ مل سکتا ہے۔‘

معیشت کی ترقی کے ساتھ ہی چین کے لوگوں کی زندگی بدلنے لگی۔ انھوں نے مزید پیسے بچانا شروع کر دیے اور سرمایہ کاری کے محفوظ ذرائع کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔

ڈاکٹر یوجیا نے کہا کہ ’سٹاک مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ آتا تھا۔ اس وقت پراپرٹی کا شعبہ بہتر منافع کی ضمانت دے رہا تھا۔ اس لیے لوگوں نے بچت اور سرمایہ کاری کے لیے ہاؤسنگ مارکیٹ کا رخ کیا۔ پراپرٹی سیکٹر پیسہ کمانے کا ایک آسان شعبہ لگنے لگا تھا۔‘

فی الحال چین کے عوام کی گھریلو بچت کا تقریباً 70 فیصد ریئل اسٹیٹ میں لگا ہوا ہے۔ پراپرٹی مارکیٹ چینی معیشت کا ایک تہائی حصہ ہے۔ لیکن اب اس میں بہت سی خامیاں بھی نظر آ رہی ہیں۔

بڑھتا ہوا بازار

معیشت

چین کے ہینگ سینگ بینک کی چیف اکانومسٹ ڈین وانگ کہتی ہیں کہ ’جب ہم گذشتہ دہائی میں چین کی ترقی پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کے پس پشت گھروں کی تعمیر نظر آتی ہے۔ اس میں رہائشی اور تجارتی دونوں طرح کی عمارتوں کی تعمیر بھی شامل تھی۔‘

ڈین کا کہنا ہے کہ 2000 سے 2010 کے درمیان چین میں شہری گھروں کی قیمت تقریباً دگنی ہو گئی۔ اس وقت سرمایہ کاری کرنے والوں نے زندگی بھر کے لیے دولت جمع کر لی۔

اقتصادی ترقی کے ساتھ چین میں متوسط ​​طبقے کے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ بہت سے لوگ شہروں میں رہنے چلے گئے۔ پراپرٹی ڈویلپرز نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا۔ لیکن سب کچھ خواہش کے مطابق نہیں ہوا۔

ڈین وانگ بتاتی ہیں کہ ’چین میں دو طرح کے نظام ہیں۔ ایک بڑے شہروں کی ہاؤسنگ مارکیٹ ہے۔ وہاں اثاثے محفوظ سمجھے جاتے ہیں کیونکہ معاشی ترقی کی شرح اور بین الاقوامی ماحول سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، وہاں قیمتیں بڑھتی رہتی ہیں۔ اب بھی بیجنگ اور شنگھائی جیسے شہروں میں ہاؤسنگ مارکیٹ بہت اچھی حالت میں ہے۔ لیکن جب آپ ان بڑے شہروں سے باہر جاتے ہیں تو آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ چھوٹے شہروں میں تعمیر کیے جانے والے گھروں کی تعداد سے کہیں کم مانگ ہے۔‘

چین میں بہت سے شہر ایسے ہیں جہاں بڑی تعداد میں گھر تو بنائے گئے ہیں لیکن وہ سب کبھی آباد نہیں ہو سکے۔ درحقیقت 2008 کے معاشی بحران کے دوران چینی حکومت نے صوبائی حکومتوں کو سڑکوں اور پلوں کی تعمیر پر بڑی رقم خرچ کرنے کی ہدایت کی تھی۔ حکومت کا مقصد بڑے پیمانے پر ملازمتیں پیدا کرنا تھا۔

مقامی حکومتوں کو پیسوں کی ضرورت تھی اور ایسا کرنے کا واحد طریقہ سرکاری زمین کی فروخت تھا۔

پھر کیا تھا، پراپرٹی ڈویلپرز کے درمیان زمین خریدنے کا مقابلہ شروع ہو گيا۔ گھر بنانے کے لیے پیسے کی ضرورت تھی۔ ایسے میں انھوں نے گھر کے ممکنہ خریداروں سے کہا کہ وہ شروع میں کچھ رقم دیں۔ خریدار اس کے لیے تیار تھے۔

ڈین وانگ کہتی ہیں کہ ’پری پیڈ سکیم کو منتخب کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ اس میں گھر سستے ملتے ہیں۔ جب مارکیٹ میں پہلے سے تعمیر شدہ مکانات دستیاب ہوتے ہیں، تو خریداروں کو زیادہ پیسے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ پھر وہ ڈاون پیمنٹ ادا کرنے کے لیے دباؤ میں رہتے ہیں۔ پری پیڈ سکیم پچھلے 10 برسوں سے کامیاب رہی ہے۔ اس نے رئیل سٹیٹ ڈویلپرز کو سستے گھر بنانے کے لیے ضروری فنڈز فراہم کیے ہیں۔‘

شی جن پنگ

لیکن جیسے جیسے چین کی پراپرٹی مارکیٹ میں اضافہ ہوتا گیا ڈویلپرز نے فنڈز حاصل کرنے کے لیے دیگر ذرائع کو دیکھنا شروع کیا۔ اس نے بڑے پیمانے پر قرضے لینے شروع کر دیے۔ پیپلز بینک آف چائنا کے مطابق سال 2020 کے دوران جائیداد میں براہ راست سرمایہ کاری دس کھرب ڈالر سے زیادہ ہو گئی۔

چینی حکومت کو فکر ہونے لگی کہ قرضوں کا پہاڑ سر پر ٹوٹ سکتا ہے اور اس نے مداخلت کا فیصلہ کیا۔ ڈویلپرز کو قرض لینے کی رفتار کم کرنے کے لیے کہا گیا اور بینکوں پر بھی دباؤ ڈالا گیا۔

ڈین وانگ کا کہنا ہے کہ اس کے پاس بہت تیزی سے نقدی ختم ہونے لگی۔ اب جو مسائل درپیش ہیں وہ انتظامیہ کی انتہائی سختی کی وجہ سے ہیں۔

چین میں لاکھوں اپارٹمنٹس بنانے والے پراپرٹی ڈیویلپر ایورگرینڈ کا اس سختی کے دور میں برا حال ہو گیا ہے۔ اس پر 300 ارب ڈالر کا قرض ہے۔ یہ اثر صرف ایورگرانڈ تک محدود نہیں رہا۔ پراپرٹی سیکٹر کو دیے گئے کل قرضوں میں سے ایک تہائی کو ’بیڈ لون‘ قرار دیا گیا ہے۔

ڈین وانگ کا کہنا ہے کہ ’ہم کہہ سکتے ہیں کہ چین میں 100 ٹاپ ریئل اسٹیٹ ڈویلپرز میں سے تقریباً 60 ڈیفالٹر ہو چکے ہیں اور باقی 40 بھی جلد ہی ڈیفالٹر ہو سکتے ہیں۔ اس بات کے پیش نظر گھر کے خریدار ایک قسم کی غیر اطمینان بخش حالت میں ہیں۔ بہت سے لوگ معاہدے سے باہر نکلنا چاہتے ہیں۔ جن لوگوں نے ادائیگی کی ہے وہ اپنے سرمائے کی ضمانت اور تحفظ چاہتے ہیں۔‘

صرف بینکوں کو ہی خطرہ نہیں ہے بلکہ جائیداد میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے لیے بھی ایک نئے قسم کا خطرہ ہے۔ ڈین وانگ کا کہنا ہے کہ چین میں لوگوں کا خیال تھا کہ پراپرٹی مارکیٹ ہمیشہ اوپر جائے گی لیکن اب لوگوں میں یہ یقین پیدا ہونے لگا ہے کہ ہاؤسنگ مارکیٹ کے اچھے دن ختم ہو چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

شی جن پنگ کے تیسرے دور کے آغاز کے ساتھ چینی شیئرز کی امریکی مارکیٹ میں گراوٹ

چین کی سکڑتی ہوئی آبادی کس کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہے؟

وہ پانچ وجوہات جو چین جیسی معیشت سے سرمایہ کاروں کو ہاتھ کھینچنے پر مجبور کر رہی ہیں

چینی معیشت 2028 میں کیوں امریکہ سے آگے نکل جائے گی؟

مالی بحران

ریئل سٹیٹ تعمیر

آکسفورڈ یونیورسٹی میں چائنا سینٹر کے ریسرچ ایسوسی ایٹ جارج میگنس کہتے ہیں کہ ’چین کی ترقی ایک منفرد مسئلہ ہے۔ کوئی بھی ملک ہمیشہ دو ہندسوں میں ترقی نہیں کر سکتا۔‘

جارج میگنس نے ایک کتاب ’ریڈ فلیگس، وھائی شیز چائنا از ان جیپارڈی؟‘ لکھی ہے۔

عالمی بینک کا اندازہ ہے کہ رواں سال چینی معیشت کی ترقی کی شرح باقی ایشیا پیسفک خطے کے ممالک سے پیچھے رہے گی۔ اور ایسا 30 سال سے زیادہ عرصے میں پہلی بار ہو گا۔

جارج بتاتے ہیں کہ چین کی معیشت بہت سے مسائل سے نبرد آزما ہے، لیکن ان میں سب سے اہم انسانی حقوق اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے مغربی ممالک کے ساتھ دوری ہے۔

جارج میگنس بتاتے ہیں کہ ’چین کے لیے، تجارت اور پابندیوں کے معاملے میں بیرونی عوامل بہت پیچیدہ ہو گئے ہیں۔ قومی سلامتی کے مسائل، صوبہ سنکیانگ میں لوگوں کے ساتھ سلوک کا مسئلہ، ہانگ کانگ، ایشیا اور جنوبی بحیرہ چین میں تائیوان کے متعلق دوسرے ممالک کے ساتھ پیدا ہونے والے مسائل جیسی بہت سی چیزیں تجارت اور سرمایہ کاری کے حوالے سے چین کے امکانات کو متاثر کر رہی ہیں۔‘

جارج کا کہنا ہے کہ چین نے باقی دنیا کے ساتھ کاروباری روابط جوڑ کر اقتصادی ترقی حاصل کی اور اب وہ ان رابطوں کو منقطع کر رہا ہے۔ امریکہ اور دیگر ممالک بھی اسے الگ کر رہے ہیں۔

چینی رہنما شی جن پنگ نے پارٹی کی حالیہ کانگریس میں کوئی اشارہ نہیں دیا کہ وہ دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے کام کریں گے۔ بلکہ اپنی خارجہ پالیسی کو مزید مضبوطی کے ساتھ آگے بڑھانے کا عندیہ دیا۔

انھوں نے یہ بھی اشارہ دیا کہ سیاسی اہداف اور پارٹی سے وابستگی ان کے لیے معیشت کی صحت سے زیادہ اہم ہے۔

اس کی ایک مثال سنہ 2019 میں نظر آچکی ہے۔ پھر چین کے امیر ترین شخص جیک ما نے حکومت پر کھل کر تنقید کی تھی۔ چند دنوں کے بعد وہ پراسرار طور پر غائب ہو گئے۔ کئی مہینوں کے بعد وہ پھر سامنے آئے اور اس کے بعد سے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

جیک ما

چینی تاجر جیک ما

جارج میگنس کہتے ہیں: ’میرے خیال میں یہ لوگوں، کمپنیوں اور کاروباری افراد پر دباؤ ڈالنے کا ایک طریقہ ہے۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ خود کو قابو میں رکھیں اور پارٹی کے رہنما اصولوں پر عمل کریں۔ میرے خیال میں یہ دشمنوں کو جیل میں ڈالنے سے زیادہ بہتر طریقہ ہے۔‘

کووڈ کی پابندیوں نے بھی مسائل میں اضافہ کیا ہے۔ رواں سال حکومت نے 100 سے زائد شہروں میں لاک ڈاؤن نافذ کیا۔

جارج میگنس کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک دلچسپ صورتحال ہے۔ چین کی جانب سے صفر کووڈ پالیسی کو ترک نہ کرنے کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی عوام کی صحت ہے۔ ان کے پاس سنہ 2024 یا 2025 تک اپنی ایم آر این اے ویکسین نہیں ہو گی۔

دوسری وجہ سماجی کنٹرول ہے۔ حکومت لوگوں کو باندھ کر رکھنا چاہتی ہے۔ زیرو کووڈ پالیسی کے تحت لوگوں کو کنٹرول کرنے کا موقع ملا  ہے۔‘

چین کے معاشی انتظام کے بارے میں ایک اور نکتہ ہے جس پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور وہ اجتماعی خوشحالی ہے۔ اس خیال کو سنہ 2021 کے وسط میں آگے بڑھایا گیا تھا۔ اس کا مقصد چینی وسائل کا ایک بڑا حصہ غریبوں تک پہنچانا تھا۔

تاہم جارج کا کہنا ہے کہ یہ واضح نہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے۔

چینی صارف

چین کے پاس آپشنز کیا ہیں؟

یونیورسٹی آف ٹینیسی میں سپلائی چین مینجمنٹ کی کلینکل ایسوسی ایٹ پروفیسر سارہ سو کہتی ہیں کہ ’میرے خیال میں چینی معیشت کو اپنی ایک راہ متعین کرنی ہو گی۔ اقتصادی ترقی میں سست روی کو روکنے کی ضرورت ہے۔ قرضوں کے جال نے پورے نظام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اور یہ ایک پائیدار منظر نامہ نہیں ہے۔‘

آگے بڑھنے کی راہ میں پہلی رکاوٹ مقامی حکومتوں کے بھاری قرضے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب پراپرٹی سیکٹر کی بڑی کمپنی ایورگرانڈ نے کہا کہ وہ واجبات ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے تومعیشت کا اعتماد متزلزل ہو گیا۔

سارہ سو کا کہنا ہے کہ ’غیر ملکی سرمایہ کار اس وقت حیران رہ گئے جب بانڈز ڈیفالٹ ہونے لگے۔ یہ ریئل سٹیٹ سیکٹر کے بانڈز تھے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ انھیں حکومت کی گارنٹی حاصل ہے۔ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ حکومت یہ قرض واپس کر دے گی کیونکہ اس کے پیچھے ایک گارنٹی موجود تھی۔ لیکن انھوں نے بانڈ ڈیفالٹ ہونے پر ادائیگی نہیں کی۔ میرے خیال میں یہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے ایک جھٹکا تھا۔‘

سارہ کا کہنا ہے کہ اس وقت لوگ محسوس کر رہے ہیں کہ مالی بحران کی وجہ سے ان کی نوکریاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ وہ پراپرٹی کی گرتی ہوئی قیمتوں سے بھی پریشان ہیں۔ لوگوں کو ڈر ہے کہ جو رقم انھوں نے جائیداد میں لگائی ہے وہ بھی ڈوب سکتی ہے۔ اب وہ اپنی بچت میں اضافہ کریں گے اور اتنی رقم خرچ نہیں کریں گے۔

مسائل یہیں ختم نہیں ہوتے۔ بے روزگاری بھی اپنے عروج پر ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں نے اپنا خرچ بھی کم کر دیا ہے۔ وہ قیمتیں کم ہونے تک انتظار کرنا چاہتے ہیں۔

سارہ سو کہتی ہیں کہ ’میرے خیال میں چین میں افراط زر کی شرح کم ہے۔ بلکہ کئی جگہوں پر قیمتیں پہلے سے بھی کم ہیں۔ جیسا کہ مغربی ممالک میں دیکھا جاتا ہے، چین میں صورتحال اس کے آس پاس بھی نہیں ہے۔ کیونکہ وہاں مانگ ہی نہیں۔‘

اب سوال یہ ہے کہ صدر شی جن پنگ کا مستقبل کا کیا منصوبہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ چین میں سیاسی کنٹرول اور معیشت کو پھلنے پھولنے کے لیے درکار آزادی کے درمیان عدم توازن ہے۔

سارہ سو کہتی ہیں: ’میرے خیال میں یہ ایک مشکل صورتحال ہے۔ ماضی میں لوگ معاشی ترقی کی وجہ سے نسبتاً مطمئن تھے۔ اب معیشت شاید ہی کہیں چمک دکھائی دے رہی ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ چین ترقی کرتا رہے گا۔ خاص طور پر ٹیکنالوجی کے شعبے میں۔ چین کے پاس نئی ٹیکنالوجی جیسے مصنوعی ذہانت، بلاک چین، کلاؤڈ کمپیوٹنگ اور بگ ڈیٹا کے شعبے میں مہارت ہے۔ اس لیے وہ ان شعبوں میں ترقی کرتا رہے گا۔‘

اسی سوال پر واپس آتے ہیں کہ کیا چینی معیشت مشکل میں ہے؟

یہ واضح ہے کہ چین میں ترقی کی رفتار سست پڑ گئی ہے۔ ملکی معیشت کا قرضہ دگنا سے بھی بڑھ چکا ہے۔

معاشی لبرلائزیشن سے خوشحالی کا راستہ کھل سکتا ہے۔ اس کے لیے صدر شی جن پنگ کو ڈی کنٹرول کرنا پڑے گا لیکن ان کے کام کرنے کا انداز بتاتا ہے کہ اس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔

معیشت کی مشکلات بڑھیں گی یا کم ہوں گی، اس کا فیصلہ اس بات پر ہوگا کہ کیا چین قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کو سنبھال پائے گا یا نہیں۔

فی الوقت ایسا لگتا ہے کہ تیز رفتار ترقی کے دن ختم ہو چکے ہیں اور ایک تاریک دور شروع ہو گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments