سی ٹی جی گراف مدفن!


سی ٹی جی کی کہانی شروع کی تھی سوچا بقیہ بھی سنا ہی دیں۔

امتحان پاس ہوا، سپیشلسٹ بن کر ہولی فیملی ہسپتال میں اترے۔ ایک بات تو ہم بھول ہی گئے تھے کہ امتحان ہم نے پاس کیا تھا، سرکار نے نہیں۔ سو وہی عالم تھا ایک انار سو بیمار۔ ہزاروں مریضوں کے لیے انگلیوں پہ گنی جانے والی سی ٹی جی مشینیں، گراف پیپر کبھی ہے، کبھی نہیں۔ ہر مریض کا دس منٹ کا گراف نکلتا، دیکھ کر ہم خوش ہوتے کہ اتنی تو میسر ہے مے خانے میں۔

ارد گرد سٹوڈنٹس، ریزیڈنٹ ڈاکٹرز کا ہجوم، کیا سکھائیں؟ کیا پڑھائیں؟ آہ و فغاں کے مقامات تو شاید اس وقت گزر جاتے ہوں جب سی ٹی جی مشین فارغ نہیں ہو گی۔ جب گراف ہی نہ بنے تو گراف کے پیچ و خم کے بغیر سیکھنے والے کیا سیکھیں گے اور کل کو اپنی اپنی دکان پر بیٹھ کر کیا مال فروخت کریں گے؟

الجھتے، پیچ و تاب کھاتے دو سال گزرے اور لیجیے ہم نے تبوک کی اڑان بھر لی۔ اب اگر آپ پوچھیں گے کہ کیسے؟ تو کبوتر تو ہیں نہیں ہاتھ میں اور نہ ہی نور جہاں جیسا ناز و انداز ہے کہ کبوتر اڑا کر کہیں، ایسے۔

تبوک کا فوجی ہسپتال، تام جھام سب موجود، کالی گوری پیلی، سب اقوام کے ڈاکٹر اور نرسیں۔ لیکن اس کے ساتھ کچھ اور بھی ایسا جس سے آنکھیں پھٹنے کو آتی تھیں۔ وہ سب کتابی علم جس کا رٹا مار کے امتحان پاس کیا تھا، استعمال کرنے کے لیے موجود۔ واہ مزہ تو اب آئے گا، کھل کھیلیں گے ہم۔

وسیع و عریض لیبر روم، ہر مریض کے لیے علیحدہ کمرہ، اور ہر مریض کے لیے سی ٹی جی مشین۔ گراف پیپر کا تو نہ ہی پوچھیے، بنڈل کے بنڈل، کھلنے پہ آتے تو کپڑے کے تھان کی طرح پچاس سو گز سے کم پہ رکنے کو تیار ہی نہیں۔

دل جھوم جھوم تو ہوا مگر تھوڑی دیر بعد ہی رک رک کر چلنے لگا جب علم ہوا کہ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ نئے آنے والوں کو پل صراط سے گزار کر ہی سکون کی سانس لیتے ہیں، خاص طور پہ جب آنے والا سینئر بھی ہو۔

ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ بھی ایک خاصے کی چیز تھے۔ پچاس کی عمر گورے چٹے، طویل قامت، نیلی آنکھیں، ناک کی پھننگ پہ رکھی عینک اور مزاج کسی آتش فشاں سا، نہیں علم کب پھٹ جائے۔

ان کے دفتر میں حاضری سے پہلے ہر کوئی ان کی فلپائنی سیکرٹری سے پوچھتا، اندر جاؤں کہ نہیں جاؤں؟ گرج چمک کے ساتھ اولوں کا کتنا امکان؟ ابھی وہ کان کھجا ہی رہی ہوتی کہ ساتھ والے کمرے سے ایک دھاڑتی ہوئی آواز سنائی دیتی۔ نینسی۔ ساٹھ کے قریب کی بڑھیا جس طرح گرتی پڑتی دوسرے کمرے کی طرف روانہ ہوتی، دیکھ کر سب کھسک جاتے۔

موصوف پیدا شام میں ہوئے، پلے بڑھے مصر میں، پھر فرانس اور انگلینڈ جا پہنچے۔ فرانسیسی بولتے ہوئے اہل فرانس کو شرماتے۔ پورے دن میں کچھ جملوں سے زیادہ بولنا ان کی شان کے خلاف، بس آنکھوں سے چنگاریاں برساتے رہتے۔

تو جناب مخبر خبر لائے کہ موصوف تیار بیٹھے ہیں پاکستان سے آنے والی ڈاکٹر کا امتحان لینے۔ مارننگ میٹنگ میں پچاس گز لمبی سی ٹی جی طویل میز پہ پھیلا دی جائے گی، نازک مقامات پر انگلی رکھ رکھ کر سوال کیا جائے گا۔ غلط نہ سمجھیے، ہمارا مطلب ہے، سی ٹی جی کے نازک مقامات پر۔

ایں۔ پچاس گز سی ٹی جی؟ ہاں سو گز بھی ہو سکتی ہے اگر بارہ گھنٹے مسلسل سی ٹی جی ریکارڈ ہوتی رہی تو سو گز کا گراف تو بنے گا نا۔

سوچیے دس دس منٹ کے گراف یا سی ٹی جی مشین کی لب ڈب لب ڈب سن کر سپیشلائز کرنے والی ڈاکٹر کا کیا حال ہوا ہو گا یہ خبر سن کر؟ یا اللہ ابھی تو سر بھی نہیں منڈوایا، اتنی جلدی اولے؟ جی چاہا بندھا ہوا سامان کھولنے کی زحمت نہ کریں اور واپسی کا جہاز پکڑ لیں۔ پتہ نہیں کس کس ملک کے چالیس ڈاکٹرز کے بیچ کون یہ بے عزتی سہے گا صبح صبح؟ کہنے والے نہ جانے کیا کچھ کہیں؟ کس طرح کی سپیشلائزیشن کی ہے ان صاحبہ نے؟ کیا سیکھا ہے؟

کیا سکھایا گیا ہے؟ کس برتے پر سر اونچا کر کے یہاں تک آن پہنچی ہیں؟ کس کس کا منہ پکڑیں گے ہم؟ کیسے بتائیں گے کہ ملک عزیز میں صحت کے نام پر عورتوں کو چورن چٹایا جاتا ہے۔ عورت کی موت۔ کیا فرق پڑتا ہے؟ ایک مرے گی، دوسری آ جائے گی۔ کوئی کمی ہے کیا عورتوں کی؟ اینٹ اکھاڑو، ہزار ملیں گی فالتو کا سامان۔

چپ کرو، دل کو گھرکا۔ ایسے تو ہار ماننے والے ہم بھی نہیں۔ پہلے قدم پر ہی شکست مان لیں۔ کیوں؟ مقابلہ کریں گے ہم۔ نا اہلی کا تمغہ لے کر واپسی کے جہاز میں کیوں بیٹھیں بھلا؟

سوچ میں پڑ گئے ہم۔ کیا کریں؟ کس طرح اس پہاڑ کو سر کریں؟ خیر جناب رمضان کا مہینہ تھا، کمر کس کے لیبر روم جا گھسے۔ پہلے پندرہ دن ڈیوٹی پہ نہیں لگایا گیا کہ ذرا ہر چیز سے واقف ہو لیں۔ رمضان کی وجہ سے مارننگ میٹنگ بھی عید کے بعد ہونا تھی۔ بس کافی ہیں اتنے دن۔ خود کو تھپکی دی۔ سی ٹی جی کے متعلق رائل کالج انگلینڈ، امریکن کالج، کینیڈین کالج، آسٹریلین کالج اور نیوزی لینڈ کالج کی ترتیب دی گئی گائیڈ لائنز پرنٹ کیں۔ رائل کالج انگلینڈ کے پریزیڈنٹ پروفیسر ارون کمار کی کتاب بغل میں دبائی اور بستر بچھا لیا لیبر روم میں۔ بھول گئے کہ تین بچے بھی ساتھ ہیں، یاد رہا تو اتنا کہ بے عزتی نہیں کروانی اپنی ڈگری کی، اپنے ملک کی اور اپنی۔ زندگی اور موت کا مسئلہ تھا یہ ہمارے لیے۔

بیس کمروں میں مریض درد زہ برداشت کرتی ہوئی، بیس سی ٹی جی مشینیں لب ڈب لب ڈب کرتی چوبیس گھنٹے چلتیں۔ گراف چھپتا رہتا، نکلتا۔ نرسیں سمیٹتی رہتیں۔ کبھی سی ٹی جی پہ پہاڑیاں بنتیں، کبھی ندی نالے، کبھی سیدھی سڑک اور کبھی ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈی۔ کسی گراف کو دیکھ کر ساؤتھ افریقن نرسوں کے کان پہ جوں بھی نہ رینگتی اور کسی گراف کو دیکھتے ہی چیخ مار کے ڈاکٹر کو بلاتیں۔ کسی پہ فیصلہ ہوتا کہ بس دس منٹ میں بچہ باہر نکلنا چاہیے، چاہے اوزار لگاؤ یا سیزیرین۔ اور کسی پہ کہا جاتا کہ سب اچھا، ٹینشن نہیں لینے کا۔

سب سے زیادہ مشکل تب ہوتی جب گراف کہے کہ کچھ مشکل ہے بھی اور نہیں بھی۔ چوکنا رہنے کی ضرورت ہے بھئی۔ اس وقت بچے کے سر سے دو قطرے خون کے لے کر اس کا تجزیہ کیا جاتا کہ خون میں آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کتنی ہے؟ فیٹل سکیلپ سیمپلنگ نامی ٹیسٹ وہیں جا کر دیکھا اور دیکھ دیکھ کر سیکھ بھی لیا۔ بچے کا سر چاہے جتنی گہرائی میں بھی ہو وہاں تک ایک آلہ ڈال کر بچے کے سر پہ ایک بلیڈ سے چھوٹا سا کٹ لگا کر خون کے تین چار قطرے شیشے کی نالی میں بھرنا۔ پریکٹس تو چاہیے اس کے لیے لیکن کر ہی ڈالی۔

گرافس کا ڈھیر اور بیچوں بیچ ہم دفن اگلے ڈھائی ہفتے کے لیے، ہر گراف کی اونچ نیچ نوٹ کرنا، پھر کبھی ایک کتاب کھولنا کبھی دوسری، اور کبھی گائیڈ لائنز۔

کب؟ کیوں؟ کیسے؟ کیا حل؟ ڈھونڈھ کر سمجھنے کی کوشش کرنا۔ سی ٹی جی گراف کی سب سے خاص لیکن مشکل بات یہی ہے کہ کوئی بھی ایک گراف دوسرے سے میچ نہیں کرتا بھلے نارمل ہو یا ابنارمل۔ دوسرے ہر گراف کا معنی ماں اور بچے کے تناظر میں بدل جاتا ہے کیونکہ ماں اور بچے کی تکلیف سی ٹی جی پہ اثر رکھتی ہے۔

ڈھائی ہفتے ختم ہوئے، عید آ گئی۔ عید کی چھٹیوں کے بعد باس نے کیا حشر کیا؟ وہ اگلے بلاگ میں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments