خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں


سید سبط اصغر نقوی عرف جون ایلیا کا یوم وفات آٹھ نومبر کو گزر گیا۔ جون ایلیا کیسے تھے، میں کیا بتاؤں۔ مشہور ہندوستانی شاعر راحت اندوری ایک قصہ بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ہم کراچی میں مشاعرہ کر رہے تھے اور اگلے دن ہمیں حیدر آباد جانا تھا۔ کراچی میں مشاعرے کے بعد میں نے جون بھائی سے پوچھا کہ کراچی سے حیدرآباد کتنی دور ہے تو جون بھائی نے جواب دیا ”بس دو پیگ میں پہنچ جائیں گے“ ۔ ایسے تھے ہمارے جون ایلیا۔ کبھی بہت ہنساتے تھے اور کبھی اپنا سر دوسرے کے کندھے پر رکھ کر روتے رہتے تھے۔

جون ایلیا امروہہ میں ایک نہایت تعلیم یافتہ خاندان میں پیدا ہوئے۔ سید محمد تقی اور رئیس امروہی جیسے ادیب اور شاعر ان کے بھائی تھے۔ مشہور فلمساز کمال امروہی جو ہندوستان میں ہی رک گئے تھے، جون ایلیا کے رشتے دار تھے جنہوں نے پاکیزہ اور رضیہ سلطان جیسی شہرہ آفاق فلمیں بنائیں۔

جون امروہہ نہیں چھوڑنا چاہتے تھے لیکن 1957 میں ان کو کراچی کوچ کرنا پڑا۔ شاید امروہہ میں جون کی پہلی محبت فاریا نگارینہ بھی موجود تھیں جس پر جون نے کئی نظمیں بھی لکھیں۔ فاریا سے بچھڑنے کا غم تھا یا امروہہ چھوڑنے کا، بڑے بھائی رئیس امروہی کے فرقہ وارانہ قتل کا دکھ تھا یا زاہدہ حنا سے طلاق کا، جون کی شاعری زندگی کے ان ہی واقعات سے گزر کر لازوال ہو گئی ہے۔ شاید ایسے ہی کسی واقعے کے بعد جون نے کہا ہو کہ

یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا

شاعر نے کس کیفیت میں شعر کہا ہو اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ ہم اس کے کہے شعر سے صرف یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ شعر جدائی، محبت، غم، خوشی یا ایسی ہی کسی کیفیت کو بیان کرتا ہے لیکن اس کے حقیقی پس منظر تک پہنچنا بہت مشکل کام ہے۔ مثال کے طور پر نصیر ترابی کا یہ مشہور شعر کہ وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی/کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی، میں ہمیشہ سے اس شعر کو دو انسانی رشتوں کے درمیان ایک تعلق یا احساس سمجھتا تھا لیکن بعد میں پتا چلا کہ یہ شعر نصیر ترابی صاحب نے پاکستان کے ٹوٹنے اور بنگلہ دیش کے وجود میں آنے پر لکھا تھا۔

اسی طرح جب غالب نے کہا تھا کہ جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے /کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور۔ یہ شعر جدائی کی شدت کو بیان کرتا ہے لیکن جب ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ غالب نے یہ شعر اپنے بیٹے کی وفات پر کہا تھا تو آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔

جون کی شاعری بھی کئی واقعات کا پس منظر رکھتی ہے۔ جون کو امروہہ چھوڑنے کا دکھ تھا اور پھر رئیس امروہی کے قتل پر جون نے معاشرے کی اقدار پر سوال اٹھانا شروع کر دیے۔ جون کو اپنے آس پاس ہونے والے واقعات کا دکھ تھا۔ اتنا غم تھا کہ سوتے تک نہ تھے۔ نیند ان سے دور بھاگتی چلی گئی اور وہ انسومنیا کا شکار ہو گئے۔

جون سے میرا پہلا تعارف اپنے گھر میں رکھی جون ایلیا کی کتاب ”شاید“ سے ہوا جو 1991 میں شائع ہوئی۔ جون کی یہ کتاب جب شائع ہوئی تو ان کی عمر 60 سال تھی۔ وہ اپنی شاعری کو منظر عام پر نہیں لانا چاہتے تھے جس کی وجہ میں شاید اوپر بیان کر چکا ہوں۔ میرے بڑے بھائی مرحوم کو کتابوں سے عشق تھا۔ ہمارا کراچی میں گھر اتنا بڑا نہیں تھا لہذا ایک الگ کمرہ لائبریری کے لئے مختص نہیں کیا جا سکتا تھا لیکن ہمارے بڑے بھائی نے اپنے کپڑے رکھنے والی الماری میں اپنی کتابوں کی جگہ مخصوص کر لی تھی۔ شیشے کے شیلف میں رکھی سینکڑوں کتابیں۔ ماریو پوزو، سڈنی شیلڈن، ہیرالڈ رابنس، جبران، پاولو کوہلو، گوئٹے، فیض، فراز، پروین شاکر، ناصر کاظمی اور اسی طرح پورے دنیا کے ادیبوں کی کتابیں وہاں رکھی ہوتیں۔ اسی طرح وہاں میں نے جون ایلیا کی پہلی کتاب شاید دیکھی جس پر ان کی لمبے بالوں والی تصویر بنی ہوئی تھی۔

مشہور مصور اور پرائڈ آف پرفارمنس پانے والے منصور زبیری صاحب ہمارے پاس دس گھر چھوڑ کر رہتے تھے۔ ایک دن والدہ نے شام کو سودا سلف لانے کے لئے کچھ پیسے دیے۔ شاید یہ 1992 کی بات ہے۔ میں گھر سے نکلا تو میں نے منصور زبیری کے ساتھ باہر سفید کرتا پاجامہ پہنے جون ایلیا کو دیکھا۔ دونوں منصور زبیری صاحب کے گھر کے باہر موجود بینچ پر بیٹھے تھے۔ قسمت کی ستم ظریفی کہ ان دنوں میرا شاعری کا شوق اتنا پروان نہیں چڑھا تھا لہذا میں نے اس سنہرے موقعے کو ضائع کر دیا۔

گھر آ کر میں نے اپنے بڑے بھائی کو بتایا کہ یہ جن کی کتاب یہاں رکھی ہے، یہ صاحب منصور زبیری کے ساتھ باہر بیٹھے ہوئے ہیں۔ میرے بھائی کو جیسے یقین نہیں آیا۔ ویسے بھی گھر میں سب سے چھوٹے کی کون سنتا ہے۔ میرے بھائی اٹھے اور کتاب میرے سامنے کر کے جون ایلیا کی تصویر دکھائی اور پھر استفسار کیا کہ ان کو تم نے دیکھا ہے۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ بڑے بھائی نے فوراً لپک کر اپنے کپڑے بدلے اور جون سے باہر ملنے چلنے گئے۔

کوئی ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد واپسی ہوئی تو ان کے چہرے پر ایک سرور تھا۔ ایسا سرور جس کا الفاظ میں بیان ممکن نہیں۔ کیا گفتگو ہوئی، میں نے نہیں پوچھا لیکن اب جب مجھے شعور آیا اور جون کی شاعری سمجھ آئی تو اندازہ ہوا کہ کاش کچھ لمحے جون بھائی کے ساتھ گزر جاتے۔ کچھ سیکھتے ان سے۔ لوگ جون سے اتنی محبت کرتے تھے۔ میرے بڑے بھائی کو بھی جون کی شاعری سے عشق تھا۔ قدرت کا کرنا دیکھئے کراچی کے سخی حسن قبرستان میں جہاں میرے بڑے بھائی آرام فرما رہے ہیں، وہاں سے ٹھیک صرف دس قدم دور جون ایلیا کی بھی قبر ہے۔

میں جب بھی بھائی کی قبر پر فاتحہ پڑھنے جاتا ہوں تو کبھی کبھار جون کے آستانے پر بھی چلا جاتا ہوں جہاں جون کے کتبہ پر ان کا یہ شعر لکھا ہے،

میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments