سیہون حادثے کے بعد 13 لوگوں کی زندگیاں بچانے والا پولیس کانسٹیبل: ’لوگ مدد کی بجائے ویڈیوز بنا رہے تھے‘


کانسٹیبل مبین ملاح
مبین ملاح سنہ 2013 سے پولیس میں کام کر رہے ہیں۔
’میں چیخ اور چلا رہا تھا کہ اور لوگ بھی پانی میں اتریں تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں کی زندگیاں بچا سکیں لیکن لوگ کنارے پر موجود تو تھے لیکن وہ موبائل سے ویڈیوز بنانے میں مصروف تھے۔‘

یہ ہیں سیہون پولیس کے کانسٹیبل مبین ملاح جنھوں نے بچوں سمیت 13 کے قریب لوگوں کی زندگیاں بچائیں۔

سیہون سے ڈیڑھ کلومیٹر دور گزشتہ شب آٹھ بجے کے قریب ایک حادثہ پیش آیا، جس میں 20 افراد ہلاک ہوئے۔ حادثے کا شکار ہونیوالی وین خیرپور میر سے درگاہ سیہون شریف جارہی تھی۔

کانسٹیبل مبین ملاح نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی ڈیوٹی پولیس مددگار 15 پر ہوتی ہے اور اطلاع ملتے ہی وہ پانچ منٹ میں جائے وقوع پر پہنچ گئے۔

دراصل وہاں ایک ڈائیورژن ہے لیکن موٹر وے پولیس یا نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے اس پر کوئی نشان نہیں لگایا۔ ڈرائیور 70 سے 80 کی رفتار سے آرہا تھا کہ گاڑی موڑ کے قریب پہنچی تو سامنے سے آنے والی گاڑیوں سے بچنے کی کوشش میں گاڑی سڑک سے اتر کر پانی میں چلی گئی۔

’لوگ ویڈیو بنانے میں مصروف تھے‘

مبین ملاح سنہ 2013 سے پولیس میں کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ جب وہ پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ ڈرائیور، کلینر اور ایک بچے سمیت چار افراد باہر نکل چکے تھے۔ انھوں نے قمیض اتاری اور پانی میں چلے گئے۔

’ویگن کا دروازہ نیچے دب گیا تھا۔ صرف شیشوں سے ہی کوئی نکل سکتا تھا۔‘

ان کی مدد کے لیے ملاح کمیونٹی کا ایک شخص اور ایک ڈاٹسن پک اپ کا ڈرائیور اتار کر آیا۔

انھوں نے لوگوں کو کہا کہ ’مدد کریں، ان مسافروں کو نکالیں لیکن کوئی ویڈیو بنانے میں تو کوئی لائیو کرنے میں مصروف رہا۔‘ ان تینوں نے مل کر 13 افراد کو نکالا جن میں زیادہ تر بچے تھے۔

’ہلاک ہونے والوں کو چوٹیں نہیں لگی تھیں بلکہ پانی میں ڈوبنے سے ہلاکتیں ہوئیں۔ جو لوگ ہم نے نکالے وہ بھی بیہوش تھے اور ان کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا، جنہیں سیہون کے ہسپتال کے لیے روانہ کیا گیا۔‘

کانسٹیبل مبین ملاح

کانسٹیبل مبین ملاح

ماں کے ہاتھ میں بچے کی قمیض

مبین ملاح بتاتے ہیں کہ انھوں نے پولیس کیریئر میں دو مرتبہ قیامت خیز منظر دیکھے ہیں۔ پہلا جب سیہون میں قلندر شہباز کے مزار میں خودکش بم حملہ کیا گیا اور دوسرا یہ حادثہ۔ ’کسی کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔‘

’جب ہم لوگوں کو نکال رہے تھے تو ایک عورت کی ٹانگ پھانسی ہوئی تھی جس کی وجہ سے شاید وہ نکل نہیں پائی۔‘
’سیٹ کے نیچے ایک 6 سال کا بچہ تھا جس کی قمیض کو اس نے ہاتھ سے جکڑا ہوا تھا۔ دونوں کی موت کے بعد بھی اس کے ہاتھ سے وہ نہیں نکلا تھا۔‘

مبین ملاح کے مطابق ڈرائیور نے اس کو بتایا کہ سات بیٹیوں کے بعد اس کو بیٹا ہوا تھا جس کی منت دینے وہ قلندر کے مزار پر جا رہے تھے۔ ان کا تعلق پھلپوٹہ کمیونٹی سے ہے اور وہ خیرپور کے رہائشی ہیں۔

سیلاب کے کٹ اور حادثہ

سندھ میں حالیہ بارشوں کے بعد سیلابی صورتحال کی وجہ سے انڈس ہائی وے بھی متاثر ہوا۔ نصیر آباد سے لے کر جامشورو تک کئی مقامات پر سڑک زیر آب آئی جبکہ منچھر سے پانی کی نکاسی کے لیے بھی اس کو کٹ لگائے گئے تھے جو ابھی تک بھرے نہیں گئے ہیں۔

سیہون سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کا حلقہ اور آبائی علاقہ ہے۔

انھوں نے ڈپٹی کمشنر جام شورو کو حادثے کی تحقیقات کا حکم جاری کیا ہے جبکہ ہلاک ہونے والے ہر فرد کے لیے انشورنس پالیسی کے تحت ایک ایک لاکھ روپے معاوضے کا اعلان کیا ہے۔

مبین ملاح نے بتایا کہ ’سیلاب کے بعد ہر تیسرے روز کوئی نہ کوئی حادثہ ہوتا ہے اور کوئی نہ کوئی زندگی گنوا بیٹھتا ہے۔‘

میں نے پوچھا کہ اب آپ کیا کروگے تو جواب ملا ’ایک دوسرے حادثے کا انتظار۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments