بنیاد فیض احمد فیض ، ہم دیکھیں گے (1)


فیض احمد فیض نے بریگیڈیئر صدیق سالک کی خواہش کے احترام میں سید فخرالدین بلے سے ذاتی طور پر گزارش کی تھی کہ آپ کی اعلی ظرفی اور عفو و درگزر کے حوالے سے مثالیں دی جاتی ہیں۔ آپ کی مزاحمتی بلکہ تمام تر شاعری کے مداح ہیں ہم سب بھی اور صدیق سالک بھی، احمد ندیم قاسمی صاحب بھی اور حبیب جالب، فارغ بخاری اور محمد طفیل بھی۔ بلے صاحب آپ کا ہمارا بہت پرانا ساتھ ہے۔ دیرینہ مراسم ہیں۔ اگر صدیق سالک نے مجبور نہ کیا ہوتا تو میں آپ کو اس حوالے سے زحمت ہی نہ دیتا۔

آپ سے بس اتنی سی گزارش ہے کہ آپ حکومت کی جانب سے جو آپ کی جبری ریٹائرمنٹ کا فیصلہ واپس لیے جانے کے نوٹیفیکیشن کے ساتھ جو حکومت کا معافی نامہ ہے اسے قبول فرما لیجیے اور ایک مرتبہ پھر سے اپنے سرکاری منصب کو سنبھال لیجے میرا مان رہ جائے گا۔ اور واقعی سید فخرالدین بلے نے فیض احمد فیض کے مان کو نہیں توڑا اور نہ چاہتے ہوئے بھی حکومت کا معافی نامہ قبول کر کے جوائننگ دے دی۔

نومبر کی بیسویں تاریخ بہت سے حوالوں سے اہم قرار پائی۔ احمد ندیم قاسمی کا یوم ولادت بیس نومبر کو منایا جاتا رہا ہے لیکن جب بیس نومبر انیس سو چوراسی کو فیض صاحب کا انتقال ہوا تو احمد ندیم قاسمی صاحب اسی دن اسی تاریخ کو اپنی سالگرہ کے حوالے سے منعقد کی جانے والی تقاریب کی مشاورت یا منصوبہ بندی سے گریزاں نظر آئے۔ احمد ندیم قاسمی برملا کہا کرتے تھے کہ فیض صاحب کی وفات تو یوم سوگ کے طور پر منانا چاہیے اور میں اپنے تمام محبان سے گزارش کروں گا کہ میری سالگرہ کی تقاریب کا اہتمام کرنے سے گریز کریں لیکن پھر پروفیسر غلام جیلانی اصغر، سید فخرالدین بلے، خالد احمد، جاوید احمد قریشی، مسعود اشعر اور انتظار حسین جیسے مقربین احمد ندیم قاسمی کی خدمات حاصل کی گئیں اور قاسمی صاحب کو راضی کر لیا گیا لیکن بہر طور یہ ایک دشوار گزار مرحلہ تھا۔

وہ ایک شخص جو حالات کی پناہ میں ہے
یہ جان لے کہ ہر اک شخص کی نگاہ میں ہے

سید فخرالدین بلے نے تو یہ شعر اپنے عہد کے بد ترین آمر ضیا الحق کی شان میں کہا تھا لیکن ہم یہی شعر ابوالمنافقین کی باقیات کی نذر کرتے ہیں۔ وہی مذہب کارڈ، وہی خود کو متقین کا امام سمجھنے کا بخار اور وہی اقتدار کو طول دینے کے لیے سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کہنے کی روش۔

وہی مذہبی اقدار کی پامالی، میرٹ اور قانون کی دھجیاں اڑانے کی روایت کی پاسداری کا رجحان۔

سانحۂ ساہیوال اس وقت کی ریاست مدینہ کے امیر کے دور میں پیش آیا تھا۔ وہ معصوم، سہمے ہوئے اور خوفزدہ یتیم بچے کہ جن کی آنسوؤں سے بھیگی آنکھیں آج بھی یہی کہہ رہی ہیں کہ ہم دیکھیں گے۔ ہر وہ بے گناہ اور معصوم اور فرض شناس کہ جو تکبر کے نشے میں سرشار حکمران کی منافقانہ حکمرانی کے دور میں لقمۂ اجل بنا، شہید ہوا، اور مار ڈالا گیا اس کے یتیم اور بے گناہ پسماندگان کا ایمان ہے کہ ہم دیکھیں گے۔ ان مظلومین میں ان معصوم پولیس والوں کے اہل خانہ بھی شامل ہیں کہ جو ڈیوٹی نبھا رہے تھے۔

اور لبیک لبیک کی صداؤں میں مبینہ طور پر ان کو مار ڈالا گیا۔ اور مار ڈالنے کے بعد امر بالمعروف نے بحیثیت امیر ریاست مدینہ کیا اقدامات کیے بشمول خفیہ معاہدے کے بمعہ خفیہ معاہدے کے ہر ہر اقدام کو فتح مبین قرار دیا خود سلیکٹڈ نے بھی اور درباری ملاؤں نے بھی۔ سب نے ہی دیکھا مگر ہم دیکھیں گے۔ نسلہ ٹاور کے بے دخل کیے جانے والے بے گناہ مظلوم مکین پہلے سے بھی جانتے تھے اور بعد میں بھی جان گئے کہ ان کے بے گھر، بے در ہونے کا سہرا مبینہ غیر قانونی بنی گالہ (جسے محض سترہ لاکھ کا جرمانہ کر کے قانونی قرار دیا گیا) کے مکین اور مالک کے سوا کوئی نہیں۔

عقدہ اس وقت کھلا جب اس مکین نے معزول ہونے کے بعد صدر مملکت کو سمری بھجوائی اور اس میں سابق منصف اعلی گلزار کا نام بطور نگران وزیراعظم کے تجویز کیا۔ نسلہ ٹاور کے مظلوم اور بے گھر کیے جانے والے معصوم مکین کہ جن کی آنکھوں کے سامنے تمام تر قانونی تقاضے بالائے طاق رکھ کر نسلہ ٹاور کو منہدم کیا گیا ان کی آہوں اور سسکیوں سے بھی یہی آواز آ رہی ہے کہ ہم دیکھیں گے۔ ہم دیکھیں گے۔

اب ملاحظہ فرمائیے فیض صاحب کی شاہکار نظم۔ ہم دیکھیں گے۔ اور اس ولولہ انگیز نظم سے جڑے چند مزید واقعات۔

ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا مردود حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اٹھے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
ہم دیکھیں گے
(جاری) ۔
نوٹ : اس تحریر میں شامل تینوں نامور شخصیات کے مصورانہ شاہکار پروفیسر آکاش مغل صاحب کا تحفہ ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments