نئے آرمی چیف سے عمران خان کی امیدیں


عمران خان کے یوٹرن اب ملکی سیاست کا معمول بن چکے ہیں بلکہ اگر یہ یہ کہا جائے کہ یوٹرن اب ’اباؤٹ ٹرن‘ کی شکل اختیار کرچکے ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ کل تک عمران خان اس بات سے نالاں تھے کہ شریف برادران اور زرداری کیوں کر نئے آرمی چیف کا فیصلہ کر سکتے ہیں اور اب ان کا کہنا ہے کہ انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون نیا فوجی سربراہ ہو گا لیکن وہ اس کے ساتھ ہی یہ آپشن بھی قائم رکھتے ہیں کہ نواز شریف ایسا آرمی چیف لگائے گا جو ان کی ’چوری‘ کی حفاظت میں مدد کرے۔

اب لانگ مارچ ختم کر کے 26 نومبر کو راولپنڈی میں جلسہ عام منعقد کرنے کی اپیل کرتے ہوئے ایک بار پھر یہ ’سسپنس‘ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ عمران خان اس دن ہی مستقبل کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ یعنی یہ دیکھنے کے لئے کہ راولپنڈی جلسہ کے بعد تحریک انصاف کے کارکنوں کو گھر جانے کی اجازت دی جائے گی یا انہیں اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کا حکم دیا جائے گا، کارکنوں کو مزید ایک ہفتہ انتظار کرنا ہو گا۔

گزشتہ ماہ کے آخر میں لاہور سے شروع ہونے والے نام نہاد لانگ مارچ کا حشر دیکھنے کے بعد شاید اب اسلام آباد میں دھرنا دینے کا ارادہ نہ کیا جائے۔ البتہ اس کا انحصار اس بات پر بھی ہو گا کہ اس وقت تک کسے نیا آرمی چیف مقرر کیا جاتا ہے اور 29 نومبر کو چین آف کمان کے وقت تک کیا تحریک انصاف راولپنڈی یا اسلام آباد میں موجود رہنا چاہتی ہے تاکہ جنرل باجوہ کے بعد کمان سنبھالنے والے آرمی چیف کو تحریک انصاف کی ’اسٹریٹ پاور‘ سے مرعوب کیا جا سکے۔

فوج کی توجہ حاصل کرنے کے لئے عمران خان نے اپنے تازہ بیان میں ایک نیا یوٹرن لیا ہے اور کہا کہ ’میں یہ مان لیتا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ نے اپریل میں حکومت تبدیل کرنے کی سازش نہیں کی تھی لیکن یہ تو واضح ہے کہ اس نے حکومت تبدیلی کی‘ سازش ’روکنے کی کوشش بھی نہیں کی‘ ۔ بظاہر تو یہ پرانے موقف سے پسپائی ہے لیکن درحقیقت عمران خان اپنے دیرینہ مطالبہ کو ایک نئے انداز میں پیش کر رہے ہیں کہ فوج کو صرف تحریک انصاف کا ساتھ دینا چاہیے۔ ان کے خیال میں اس کا غیر سیاسی ہونا قابل قبول اور اعلیٰ ’اسلامی اصولوں‘ کے مطابق درست نہیں ہے۔ کیوں کہ جہاں سے عمران خان دیکھتے ہیں وہاں سے انہیں یہ حق و کفر کا معرکہ دکھائی دیتا ہے۔

یہ بھی طے ہے کہ اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں کے لئے بھی یہ حق و باطل ہی کی جنگ ہے تاہم جس زاویے سے حکمران پارٹیوں کے لیڈر دیکھتے ہیں، وہاں سے انہیں فریق مخالف ’شیطانی طاقتوں‘ کا نمائندہ دکھائی دیتا ہے جس کا سر کچلنے کے لئے مرضی کا آرمی چیف لانا اور انتخابات کو مسلسل موخر رکھنا ضروری ہے۔

عمران خان نئے انتخابات چاہتے ہیں، ملک کے بیشتر مبصرین ان کی مقبولیت کے پھیلائے گئے ’جائزوں‘ کو معیار بناتے ہوئے، یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ دریں حالات اگر انتخابات منعقد ہوتے ہیں تو تحریک انصاف اسمبلیوں میں اکثریت حاصل کر سکتی ہے۔ یعنی اس بات کا امکان موجود ہے کہ وہ مرکز کے علاوہ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں ایک بار پھر حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے۔ اگر یہی ملک کی سیاسی حقیقت ہے تو ایسی مقبولیت رکھنے والے لیڈر اور پارٹی کو تحمل و بردباری اور ’بڑے پن‘ کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اس کے برعکس عمران خان جلدی میں ہیں اور کسی بھی قیمت پر فوری نئے انتخابات کا اعلان چاہتے ہیں۔ انتخابات کے علاوہ وہ درحقیقت ملکی فوج کو غیر سیاسی کے موجودہ موقف سے جانبداری کا دیرینہ رویہ اختیار کرنے پر بھی آمادہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا تازہ بیان درحقیقت پرانی خواہش کو نئے انداز میں پیش کرنے کی کوشش ہے۔ جیسے وہ چند روز پہلے امریکہ کو سازش کے الزام سے ’بری‘ کرچکے ہیں، اسی طرح اب وہ فوج کو بھی اپنی حکومت کے خلاف نام نہاد سازش کے الزام سے بری الزمہ کہہ رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ اضافہ بھی کرتے ہیں کہ فوج نے سازش نہیں کی لیکن سازش ہونے کی اجازت ضرور دی۔

عمران خان کے اس موقف کو تسلیم کرنے کے لئے سب سے پہلے تو یہ ماننا پڑے گا کہ پاکستانی آئین کسی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی اجازت دیتے ہوئے درحقیقت اس ’سازش‘ کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ عمران خان اگر حسب خواہش کسی بھاری بھر اکثریت سے ایک بار پھر پارلیمنٹ میں واپس آ گئے تو انہیں ایسی تمام شقات کو کالعدم کر دینا چاہیے جو کسی وزیر اعظم کو مروجہ پارلیمانی طریقہ کے مطابق عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے محروم کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔ یہ شقات آئین میں شامل کرنے والوں کو اندازہ نہیں ہو گا کہ مستقبل میں عمران خان نام کا ایک ایسا ہونہار سیاسی لیڈر بھی ملک میں سامنے آئے گا جسے اقتدار سے نکالنا کسی ’گناہ عظیم‘ سے کم نہیں ہو گا۔ ورنہ شاید ان شقات میں یہ لکھ دیا جاتا کہ عمران خان کے سوا کسی بھی وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد لائی جا سکتی ہے۔

اپریل میں حکومت کی تبدیلی کی وجہ وہ چھوٹے سیاسی گروہ تھے جنہوں نے تحریک انصاف کی حکومت کا ساتھ دینے کی بجائے اپوزیشن اتحاد کی تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ یوں تو تحریک انصاف کے ایک تہائی ارکان اسمبلی بھی کچھ ایسے ہی خیالات رکھتے تھے لیکن آئینی پابندیوں کی وجہ سے وہ براہ راست عمران خان کے خلاف ووٹ نہیں دے سکے۔ پنجاب میں ایسی کوشش کی گئی تھی لیکن تب سپریم کورٹ تحریک انصاف کی مدد کو پہنچ گئی تھی اور ایک ایسی حکومت قائم کرنے کا سبب بنی تھی جس نے اب تک مرکزی حکومت کے احکامات کو مسترد کرنے اور عمران خان کو پروٹوکول دینے کے سوا کوئی کام نہیں کیا۔ اس کے باوجود پرویز الہیٰ کی حکومت اپنے ہی علاقے میں عمران خان پر ہونے والے حملے کو روکنے میں ناکام رہی اور وزیر اعلیٰ کے تمام اختیارات کے باوجود عمران خان کی خواہش و کوشش کے مطابق ایف آئی آر درج نہیں ہو سکی۔

اب عمران خان یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ فوج کو ان کی سیاسی حمایت جاری رکھنی چاہیے تھی تاکہ انہیں عدم اعتماد کا سامنا نہ ہوتا۔ ایک آئینی طریقہ کار کو ’سازش‘ کا نام دے کر عمران خان درحقیقت یہ واضح کر رہے ہیں کہ قانون کی بالادستی کا نعرہ درحقیقت ایک ڈھونگ ہے، ان کے نزدیک وہی قانون ہے جس میں وہ اقتدار تک پہنچ سکیں۔ اسی لئے اب وہ نئے آرمی چیف کو تقرری سے پہلے ہی اس دباؤ میں لانا چاہتے ہیں کہ وہ کمان کی چھڑی سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے شہباز شریف سے استعفی طلب کریں۔ پھر ملک کے صدر سے کہیں کہ وہ اپنی مرضی کی نگران حکومت قائم کریں اور موجودہ الیکشن کمیشن کو ختم کر کے کسی ’فواد چوہدری‘ کی سربراہی میں نیا الیکشن کمیشن بھی قائم کر دیں تاکہ نہ بانس رہے اور نہ ہی بانسری بجے۔

نام کا اعلان ہونے اور عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی کسی آرمی چیف کو آج تک ایسے ’مطالبات‘ کی فہرست نہیں ملی ہوگی۔ عمران خان چاہتے ہیں کہ جنرل باجوہ نے ہائبرڈ انتظام کے تحت انہیں چاؤ سے اقتدار تک پہنچانے کے بعد جیسے ان کے خلاف عدم اعتماد کو کامیاب ہونے کا تماشا دیکھا ہے، نیا آرمی چیف اس غلطی کا ازالہ کرے اور ہائبرڈ نظام۔ 2 کا اجرا کیا جائے۔ اب ملک کے ہردلعزیز لیڈر کو کون سمجھائے کہ اس قسم کے کام ہالی وڈ اور بالی وڈ میں تو ہوتے ہیں جہاں ایک فلم کی ریکارڈ کامیابی کے بعد اسی نام سے اگلی فلم بنالی جاتی ہے۔ البتہ ملکی فوج کو ایک ناکام سیاسی تجربہ کو دہرانے پر آمادہ کرنا شاید اتنا آسان نہیں ہو گا۔

یہی وجہ ہے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری متعدد بار یاد دلا چکے ہیں کہ اگر فوج غیر سیاسی ہونے کا اعلان کر رہی ہے تو اسے ملکی جمہوریت کے لئے خوش آئند سمجھنا چاہیے۔ البتہ عوام کو حقیقی آزادی دلانے والا لیڈر فوج کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ ’آئین کچھ نہیں ہوتا، فوج کو صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ کون حق پر ہے اور کون غلط ہے‘ ۔ گویا ملک میں درست اور غلط ہونے کا پیمانہ فوجی قیادت کو مقرر کرنا پڑے گا بشرطیکہ اس میں ہر دفعہ عمران خان کا نام ہی بطور وزیر اعظم برآمد ہو۔ اب ایسا اچنبھا خواب میں تو ہو سکتا ہے، حقیقی زندگی میں کوئی بھی فوجی سربراہ ان ’معصوم‘ خواہشات کی تکمیل کرنے سے قاصر ہی رہے گا۔ عمران خان کو یہ سچائی ماننے میں شاید مزید کچھ وقت درکار ہو گا۔ 26 سے 29 نومبر کے درمیان وہ اسی مہلت سے استفادہ کریں گے۔

یہ بات تو قابل فہم ہے کہ مشکل معاشی فیصلے کرنے کے بعد مہنگائی، بدنظمی اور بے یقینی کی موجودہ صورت حال میں کوئی بھی حکومت جان بوجھ کر ’سیاسی خود کشی‘ کا اہتمام نہیں کرے گی۔ وہ شہباز حکومت کی طرح زیادہ سے زیادہ وقت لینے کی کوشش کرے گی تاکہ وہ ناراض ووٹروں کو کسی حد تک رجھانے میں کامیاب ہو جائے۔ البتہ یہ بات سمجھنا مشکل ہے کہ اگر تحریک انصاف کو انتخابات میں اپنی بھرپور کامیابی کا پورا یقین ہے تو اسے 6 کی بجائے 10 ماہ انتظار کرنے میں کیا مشکل ہے؟ حکومت اگر فوری طور سے انتخابات کا مطالبہ تسلیم بھی کر لے پھر بھی نگران حکومت قائم کرنے اور انتخابات کا انعقاد کروانے میں پانچ چھے ماہ درکار ہوں۔ جبکہ آئینی مدت کے مطابق بھی حکومت کو ستمبر تک تو انتخابات کروانا ہی ہوں گے۔

ان دو چار ماہ کے لئے ملکی نظام کو معطل کرنے والے لیڈر کے بارے میں ایک ہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اسے بھی انتخابات میں اپنی کامیابی کا یقین نہیں ہے۔ خاص طور سے لانگ مارچ کے تماشا کے بعد سیاسی حرکیات کے بارے میں معمولی عقل کے لوگوں کو بھی احساس ہو گیا ہو گا کہ سوشل میڈیا کے ٹائیگرز اور مسلسل خبروں پر چھائے رہنے کے ہتھکنڈے سے کامیابی و مقبولیت کا تاثر تو قائم کیا جاسکتا ہے، اسے حاصل کرنا ہنوز دلی دور است والا معاملہ ہے۔ اسی لئے عمران خان کو اسٹبلشمنٹ کی حمایت درکار ہے۔

اب تو یہ دیکھنا ہے کہ کیا نیا آرمی چیف واقعی عمران خان کے نظریہ ’جہاد‘ پر ایمان لاتے ہوئے کچھ ایسا کر دکھائے گا کہ عمران خان کے دشمن جیلوں میں اور عمران خان وزیر اعظم ہاؤس میں جلوہ افروز ہوجائیں۔ ملکی تاریخ میں اگر یہ انہونی ہو گئی تو جمہوریت کا مرثیہ تو اپنی جگہ لیکن فوج کی دلاوری پر سوالیہ نشان عائد کرنا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments