سیاست کی قربان گاہ پر مصطفیٰ نواز کھوکھر کی بلی


برصغیر پاک و ہند کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اندر اختلاف کرنے یا پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والوں کو پارٹی کی قربان گاہ پر بلی چڑھا دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات خود سر سیاسی کارکن خود ہی قربان گاہ پر چڑھ جاتے ہیں جس پھر پارٹی قیادت کی مصلحتوں پر مبنی سیاست انہیں قربان گاہ پر چڑھ جانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اب تو سپریم کورٹ آف پاکستان نے پارٹی قیادت سے اختلاف کرنے والے پارلیمنٹیرینز کو نہ صرف ڈی سیٹ ہونے کی سزا دے دی ہے بلکہ ان کی رائے کو ہی کوئی اہمیت نہ دینے کا فرمان جاری کر دیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت اور اس کی پالیسیوں سے اتفاق نہ کرنے والوں کو یا تو پارٹی چھوڑ دینے پر مجبور کر دیا جاتا ہے جس پھر ان سے پارٹی کی طرف سے دیا گیا عہدہ یا منصب واپس لے لیا جاتا ہے۔

تازہ ترین واردات پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں ہوئی ہے۔ سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کے خاندان کا اسلام آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی کی قوت کے طور پر شمار ہوتا ہے لیکن جب پارٹی کی قیادت کو ان کی باغیانہ روش پسند نہ آئی تو ان کے والد محترم حاجی نواز کھوکھر کے پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے تعلق اور قربانیوں کی پروا کیے بغیر ان سے استعفے کی فرمائش کر دی اور پھر مصطفی نواز کھوکھر نے بھی دیر نہیں لگائی۔ اگلے روز اپنا استعفا پارٹی قیادت کو بھیجنے کی بجائے چیئرمین سینیٹ کو پیش کر دیا۔ ایسا دکھائی دیتا تھا وہ استعفیٰ اپنی جیب میں لئے پھر رہے تھے جوں ہی اعلیٰ قیادت کا حکم موصول ہوا انہوں نے اپنے ضمیر کا بوجھ اتار دیا۔ کسی سیاسی کارکن سے استعفا لینا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں کم و بیش پی ٹی آئی کے 25 ارکان نے بغاوت کر دی لیکن کسی نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفا نہیں دیا بلکہ ان نشستوں پر براجمان ہو گئے جہاں عمران خان کو خود بیٹھنا تھا۔ آج وہ عمران خان کے غیر سیاسی طرز عمل کی وجہ سے قائد حزب اختلاف اور چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے مناصب انجوائے کر رہے ہیں۔

حاجی محمد نواز کھوکھر کا شمار پاکستان کے باخبر سیاست دانوں میں ہوتا تھا۔ جب میں ان سے کوئی خبر پوچھتا تو وہ یہ کہہ کر طرح دے جاتے حاجی صاحب! میں ریٹائرڈ سیاست دان ہوں میرے پاس کہاں سے خبر آئی لیکن میں ان سے باتوں باتوں میں خبر اگلوا لیتا کیونکہ ان کا ملک کے بڑے لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا۔ انہوں نے اپنے سیاسی کیریر کا آغاز پاکستان پیپلز پارٹی سے کیا تھا وہ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی میں اسلام آباد تنظیم کے جنرل سیکریٹری تھے۔ وہ تین بار قومی اسمبلی کے رکن رہے ڈپٹی سپیکر اور وفاقی وزیر کے منصب پر فائز رہے۔

ایف 8 میں ناظم الدین روڈ پر ان کی رہائش گاہ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز رہی۔ ان کی رہائش گاہ پر ہی مسلم لیگ (ن) نے جنم لیا۔ انہوں نے اس وقت کے صدر غلام اسحق کے دباؤ کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے تاسیسی کنونشن کے لئے اپنی رہائش گاہ کے باہر جگہ فراہم کر دی اگر یہ کہا جائے کہ نواز شریف کو پارٹی کا صدر بنانے میں جہاں راجہ محمد ظفر الحق، چوہدری نثار علی خان، راجہ محمد افضل اور دیگر رہنماؤں کا عمل دخل ہے۔ وہاں حاجی محمد نواز کھوکھر کے جرات مندانہ کر دار نے مسلم لیگ (ن) کے قیام کو یقینی بنا دیا۔

انہوں نے اپنی زندگی میں ہی مصطفی نواز کھو کھر کو سیاسی جانشین بنا دیا تھا۔ بہت کم سیاست دان اپنی زندگی میں ریٹائرمنٹ لیا کرتے ہیں بلکہ زندگی کے آخری سانس تک سیاست میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ مصطفی نواز کھوکھر کے والد حاجی نواز کھوکھر ایک وضع دار سیاست دان تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کی آخری سانس تک آصف علی زرداری سے دوستی نباہی۔ سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے بھی اپنے سیاسی کیریر کا آغاز اپنے والد کی جماعت سے کیا۔

برطانیہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے آئے تو آصف علی زرداری نے انہیں سندھ سے سینیٹ کا رکن منتخب کروا دیا بہت جلد انہیں بلاول بھٹو زرداری کا ترجمان بنا دیا گیا۔ سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے الحاج محمد نواز کھوکھر کے سیاسی جانشین ہونے کا حق ادا کر دیا۔ وہ انسانی حقوق کے علمبردار کے طور پر پارلیمنٹ میں پہچانے جاتے تھے۔ انہوں نے کمپرومائزڈ پالیٹکس کی بجائے کھل کھلا کر سیاست کی جس کے نتیجے میں انہیں سینیٹ کی رکنیت سے استعفا دینا پڑا جب ان سے بلاول بھٹو زر داری کی ترجمانی کا اعزاز واپس لیا گیا تو عام تاثر تھا کہ شاید ان کے پیپلز پارٹی سے راستے جدا ہو جائیں گے لیکن انہوں نے جلد بازی میں پارٹی سے اپنا راستہ الگ نہیں کیا۔

حاجی نواز کھوکھر زندہ تھے تو ان کا اسلام آباد میں آصف علی زرداری کے قیام کے وقت بیشتر وقت ان کے ساتھ گزرتا۔ ان کی وفات کے بعد کھوکھر خاندان اور آصف علی زرداری کے درمیان تعلقات میں سرد مہری کا آغاز ہو گیا کافی عرصہ سے پیپلز پارٹی سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کو بوجھ تصور کرنے لگی کیونکہ وہ ان کی آزاد منش سیاست کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ جوں ہی پارٹی نے استعفاٰ مانگا تو اسی روز انہوں نے پارٹی قیادت کی فرمائش پر مستعفی ہونے کا ٹویٹ جاری کر دیا۔ اگلے روز بڑی شان سے چیئرمین سینیٹ کو استعفاٰ پیش کر کے پارٹی کے احسان کا بوجھ اتار دیا۔

ممکن ہے پارٹی قیادت کا خیال ہو کہ مصطفیٰ نواز کھوکھر سے استعفیٰ مانگا گیا تو وہ لیت و لعل سے کام لیں گے لیکن مصطفیٰ نواز تو شاید پہلے ہی سے استعفا دینے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ انہوں نے خود ہی مستعفی ہونے کا اعلان کر کے پارٹی قیادت کو دباؤ کی کیفیت سے نکال دیا۔ سیاسی حلقوں میں کہا جا رہا ہے ان کہ استعفاٰ کی فوری وجہ سینیٹر اعظم سواتی سے اظہار یک جہتی کا جرم قرار دی جا رہی ہے۔ مصطفی نواز حاجی نواز کھوکھر کے سیاسی جانشین ہیں لیکن ان کی انقلابی سوچ نے پیپلز پارٹی کی قیادت کے لئے بے پناہ مسائل پیدا کر رکھے تھے۔

مصطفیٰ نواز کھوکھر نے یونیورسٹی آف بکنگھم میں بین الاقوامی قانون کی تعلیم حاصل کی جاگیر دارانہ پس منظر ہونے کے باوجود فیوڈل پالیٹکس کو نہ اپنا سکے مصطفیٰ نواز کھوکھر کی سیاسی تربیت برطانوی معاشرہ میں ہوئی وہ وہی سوچ فکر لے کر پاکستان آئے پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز بننے کی کوشش کی۔

2011 ء میں انہیں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی حکومت میں مشیر برائے انسانی حقوق بنایا گیا ان کا طرز سیاست پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے لئے ناقابل برداشت ہو گیا انہیں سینٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کا چیئرمین بنانا پارٹی کے لئے مشکلات کا باعث بن گیا جس طرح مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے ایک سیمینار میں اعظم نذیر تارڑ کی خاموشی پر صرف وزارت قانون سے استعفاٰ لے لیا گیا۔ ان کے پاس سینیٹ کی رکنیت رہنے دی لیکن سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر سے سینیٹ کا استعفاٰ سے کم پر پارٹی کی قیادت راضی نہیں ہوئی۔ سیاسی جماعتوں کی قربان گاہ پر خود سیاسی کارکنوں کی بلی ’چڑھانے کی سالہاسال پرانی روایت ہے۔ فیض احمد فیض نے کیا خوب کہا ہے۔

؂ نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے۔ رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments