جب امریکہ چین کا یار بنا


بڑے عرصے سے بلکہ جب سے سنا تھا تب سے یہ بات ایک معمہ بنی ہوئی تھی کہ آخر ناگاساکی اور ہیروشیما پر امریکہ نے اتنی بربریت خواہ مخواہ کیوں کی تھی؟ ایٹم بم گرانا گویا قیامت ڈھانے جیسا تھا۔ ہم تو ہمیشہ جاپان کو ایک اچھا اور سلیقہ مند ملک سمجھتے رہے ہیں۔ اس معمے کا حل آج ساری رات ڈاکٹر مبارک علی کی نئی کتاب ”چین کا زوال و عروج“ پڑھنے سے ملا۔ چینی قوم ہمیشہ سے ایک لازوال قوم رہی جو کبھی بھی اپنے زوال سے مایوس نہیں ہوئی اور اسے اپنے مستقبل کے لیے پیروں کی بیڑی نہیں بننے دیا۔ نصف سے زائد کتاب ایک ہی نشست میں پڑھ چکا ہوں اور باقی پڑھ رہا ہوں مگر جس مقام پر جاپان پر امریکی حملوں کا ذکر ہوا تو میں رک گیا، سوچا اپنے دوستوں سے بھی یہ بات ضرور شیئر کروں۔

ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب میں پروفیسر رچرڈ باؤم کے لیکچرز کا تجزیہ کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ جب چین کنفیوشس کی تعلیمات کو اپناتے ہوئے عروج پر تھا اور ابھی یورپ ترقی یافتہ نہیں تھا تو جاپان نے اپنی تہذیب اور جدید علوم چین سے سیکھے، ہزاروں لاکھوں طلبا چین جا کر علوم حاصل کرتے تھے، اور تو اور جاپانی رسم الخط بھی چینی زبان سے متاثرہ ہے۔ امپیریلزم کے دور میں جب چین برصغیر کی طرح قدامت پرستی کا شکار ہو کر رہ گیا اور یورپ علم و ہنر اور معاشی قوت بن کر ابھرا تو اسی جاپان نے اپنے طلبا یورپ بھیجے اور ان کی تہذیب سے خوب استفادہ کیا۔ یہاں تک کہ جاپان علم و ہنر اور ترقی میں چین سے بہت آگے نکل گیا۔

چین سے آگے نکلتے ہی اور اس کے دگرگوں حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جاپان نے چین پر جا بجا حملے شروع کر دیے اور اس کے کئی علاقوں پر قبضے کیے۔ 1905 ء میں بہت بھاری حملہ کیا اور چین کو معاشی اور بھاری انسانی جانوں کا نقصان پہنچایا۔ جاپان کی یہ جارحانہ پالیسی چین کی اندرونی چپقلشوں کو دیکھتے ہوئے وقتاً فوقتاً جاری رہی یہاں تک کہ 1936 ء میں جاپان نے چین کی حکومت میں یوآن شانگ کی نیشنلسٹ پارٹی اور ماؤزے تنگ کی پیپلز آرمی اور کمیونسٹ پارٹی کے باہمی اختلافات سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے چین پر بھرپور حملہ کر دیا۔

یوآن شانگ فوجی آمر تھا اور اس کا مطمح نظر جاپان کی بجائے کمیونسٹ پارٹی تھی، وہ اپنی مہمات ان کے خلاف جاری رکھے رہا۔ ادھر جاپان نے چین میں قتل و غارت گری اور عصمت دری کا بازار گرم کیے رکھا۔ میں نے جو حالات و واقعات اس کتاب میں جاپانیوں کے تسلط اور فوج کشی کے پڑھے ہیں، ان سے بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غوری، ابدالی اور نادر شاہ نے مل کر بھی اتنا نقصان برصغیر کو نہیں پہنچایا ہو گا جتنا جاپانیوں نے چینیوں کو پہنچایا۔

ان کی املاک کو خاکستر کر دیا، لاکھوں فوجی مار ڈالے، پیچھے رہ جانے والے بچے، عورتیں اور بوڑھوں کو چن چن کر قتل کر دیا گیا، املاک لوٹی گئیں اور چین کے اچھے خاصے علاقوں پر باقاعدہ قبضہ کر لیا۔ اس سے پہلے بھی جاپان نے مغربی ممالک سے مل کر کبھی 450 ملین ڈالر اور کبھی 600 ملین ڈالرز کے ہرجانے چین کو ڈلوائے۔ جب چین کے شہنشاہ نے برطانیہ کے تاجروں کی ڈیڑھ ملین پاؤنڈز مالیت کی افیم تلف کروائی تو جاپان باقی ممالک کے ساتھ مل کر چین سے یہ قیمت بطور ہرجانے کے برطانیہ کو دلوانے میں پیش پیش تھا۔

خیر بات 1936 ء کی جنگ کی ہو رہی تھی۔ روس چین کا بڑا سپورٹر تھا، مگر دوسری جنگ عظیم کے شروع ہوتے ہی جب ہٹلر اور سٹالن میں معاہدہ ہوا تو چونکہ جرمنی اور جاپان کا عرصہ دراز سے آپس میں بڑا معاشقہ تھا اس لیے روس چین کی مدد سے دستبردار ہو گیا، ادھر یوآن شانگ کی نیشنلسٹ پارٹی کی حکومت جاپان کے خلاف لڑنے کی طاقت کھو چکی تھی۔ جب جاپان نے پرل ہاربر پر حملہ کیا تو امریکہ جاپان کے خلاف ہو گیا سو اس نے چین کی دل کھول کر امداد کی اور لاکھوں ڈالرز اور اسلحہ فراہم کیا۔ جس سے چینی مزاحمت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا مگر جاپان کی تباہ کاریاں جاری رہیں۔

اب آیا وہ جملہ جس کے لیے میں نے مطالعہ روک کر اتنی لمبی تحریر لکھ ڈالی یا سمجھیں تمہید باندھی کہ پھر جب 1944 ء میں امریکہ نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے تو جاپان نے نہ صرف جنگ عظیم دوم میں شکست تسلیم کر لی بلکہ چین کے قبضہ کیے گئے کئی علاقے اور صوبے بھی واپس کر دیے اور یوں جاپان نے چین میں جو تباہ کاریاں دہائیوں سے مچا رکھی تھیں وہ اپنے انجام کو پہنچیں۔ حتمی اعداد و شمار تو میں بھی اب تک نہیں پڑھ سکا مگر اتنا ضرور علم ہوا ہے کہ جاپان کا نقصان ایٹم بم میں کم ہوا ہو گا مگر جاپان کی جارحیت سے چین کا جانی، مالی، زرعی و معاشی نقصان اس سے کئی گنا زیادہ ہو گا۔

اس ساری تحریر کا مقصد ایٹمی دھماکوں کی حمایت کرنا ہر گز نہیں مگر اس سوال کا تسلی بخش جواب ملنے پر سکون کا اظہار کرنا ضرور ہے کہ

گائے کی دم بے سبب نہیں غالب۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments